تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-12-2020

… آرام بہت ہے

پاکستان 73 سال کا ہے اور مظفر خان بھی کم و بیش 73 سال ہی کے ہیں۔ زندگی بھر محنت کی ہے۔ ایک بڑی پرائیویٹ کمپنی سے ریٹائر منٹ کے بعد بھی اُنہوں نے سات سال تک ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کیا۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ کام کرنے کی عادت تھی۔ جو لوگ زندگی بھر کام کرتے رہے ہوں وہ ڈھلتی ہوئی عمر یا صریح بڑھاپے میں بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یہ توفیق بھی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ ہمیں نیت کا پھل ملتا ہے۔ ہر عمل کا مدار نیت پر ہے۔ اگر انسان اپنی محنت سے پیٹ بھرنے پر یقین رکھتا ہو تو مرتے دم تک محنت کرتے رہنے کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ بصورتِ دیگر دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنا پڑتا ہے ۔مظفر خان نے محنت سے سرشار زندگی بسر کی ہے۔ اب کم و بیش دو سال سے فالج کے سب صاحبِ فراش ہیں۔ غیر معمولی کد و کاوش کے ذریعے جسم کو بحالی کی طرف لانے کی کوششیں حوصلہ افزا حد تک بارآور ثابت ہوئی ہیں۔ دو افراد کے سہارے کھڑے ہونے کی حالت سے اب معاملہ یہاں تک پہنچا ہے کہ مظفر خان اپنے پیروں پر کھڑے ہی نہیں ہو پاتے بلکہ گھر سے نکل کر تین چار گلیوں تک ہو بھی آتے ہیں، گھر سے کچھ دور کھلی جگہ پر صبح کی دھوپ سے محظوظ ہوتے ہیں اور ہم عمر دوستوں، محلے والوں سے گپ شپ بھی لگاتے ہیں۔ تین دن قبل مظفر خان سے ملاقات ہوئی تو تھوڑے سے رنجیدہ دکھائی دیے۔ جسمانی تکلیف سے پہنچنے والا دکھ اپنی جگہ مگر اِس سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ وہ کہیں آنے کے رہے نہ جانے کے۔ خاندان میں بھی آنا جانا نہیں ہو پارہا اور جہاں کام کرتے تھے وہاں کے دوستوں سے بھی ملاقات نہیں ہو پارہی۔ کچھ دیر ہم گپ شپ رہی۔ ہم نے عرض کیا کہ جو لوگ زندگی بھر محنت کرتے رہتے ہیں آرام پر اُن کا حق زیادہ ہوتا ہے۔ زندگی بھر کی محنت کے نتیجے میں تھکن بھی تو غیر معمولی ہوتی ہے۔ انسان بہت کچھ قربان کرتا آرہا ہوتا ہے۔ جنہیں اللہ کی طرف سے محنت کرنے کی توفیق عطا ہوئی ہو وہ کسی پر بوجھ بننے کے بجائے اپنے زورِ بازو کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیت کا پھل اللہ کی طرف سے ہے۔ انسان اگر محنت پر یقین رکھتا ہو تو اللہ بھی محنت ہی کی راہ پر گامزن رکھتے ہیں۔ مظفر خان کا بھی معاملہ بھی یہی رہا ہے۔ چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ مظفر خان بیٹوں کے ساتھ خوش ہیں اور بیٹیاں اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ اچھی زندگی اور کیا ہوتی ہے؟ یہی نا کہ انسان اپنے بل پر جیے، اپنے زورِ بازو سے اولاد کی پرورش کرے، انہیں زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے اطوار سکھائے اور پھر اُن کے گھر بھی بسادے۔ مظفر خان اِن تمام مراحل سے بخوبی گزرے ہیں۔ اِس دوران جو کچھ گزرنا تھی وہ گزر ہی گئی۔ بقول فیضؔ ؎
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تِری عاقبت سنوار چلے
جسم نے تھوڑا سا ساتھ چھوڑ بھی دیا تو کیا ہوا، دل و دماغ تو سلامت ہیں۔ فی زمانہ یہ بھی بڑی نعمت ہے کہ ہزار رنجشوں اور کلفتوں کے باوجود دماغ متوازن، ہو، دل قابو میں رہے۔ خواہشیں ختم نہیں ہوتیں اور جو خواہشیں پوری نہیں ہو پاتیں وہ حسرتوں میں تبدیل ہوتی جاتی ہیں۔ مظفر خان جیسے لوگ زیادہ خواہشیں نہیں پالتے اور یوں اُن کی زندگی میں زیادہ حسرتیں بھی نہیں ہوتیں یعنی افسوس کرنے اور کڑھنے میں وقت ضائع نہیں ہوتا۔ ہم نے پوچھا آج کل آپ صاحبِ فراش ہیں یعنی آپ ہیں اور بستر ہے تو وقت کس طور گزرتا ہے، بیٹھے بیٹھے کے مشاغل کیا ہیں۔ جواب ملا وہ ہیں اور فری سٹائل ریسلنگ کا شغل ہے۔ 1983ء کے زمانے میں پی ٹی وی سے جمعہ کی شام فری سٹائل ریسلنگ کے پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوا کرتے تھے۔ ریسلنگ دیکھنے کا شوق اُنہیں تب سے ہے۔ اب تو انٹرنیٹ کی مدد سے چوبیس گھنٹے ریسلنگ دیکھی جاسکتی ہے۔ چلئے! مظفر خان کی ایک مراد تو ڈھنگ سے پوری ہوئی! مزید معلوم ہوا کہ کچھ دیر پڑھتے ہیں۔ زیادہ دیر پڑھ نہیں سکتے کہ سارا زور بائیں آنکھ پر ہے۔ دائیں آنکھ جوانی میں ایک حادثے کی نذر ہوگئی تھی۔ تب سے اب تک وہ بصارت کا تحفظ یقینی بنانے کے معاملے میں بہت حسّاس رہے ہیں۔ مطالعے کے معاملے میں بھی وہ غیر معمولی حد تک محتاط رہے ہیں۔ ہم نے مشورہ دیا کہ اگر مطالعے میں الجھن محسوس ہوتی ہے تو کوئی بات نہیں، آنکھوں پر پڑنے والے زور کا رخ کانوں کی طرف موڑ دیجیے یعنی آڈیو بکس سُنا کیجیے۔ اچھا ہے کہ دین کے حوالے سے جو کچھ بھی پڑھنے کا وقت اب تک نہیں مل سکا وہ آڈیو وژول فائلز کی مدد سے پڑھ لیا جائے، روح کو حقیقی مسرّت سے سرشار کرنے والے مواد سے قلب و نظر کو معطر کرلیا جائے۔ایک دور تھا کہ جب آج کی سی ہماہمی نہ تھی۔ تب کی دِلّی میں وقت کو ٹھکانے لگانے والی کوئی بھی بات نہ تھی۔ شب و روز بہت حد تک قابو میں تھے۔ تب بھی میرزا نوشہ یعنی اسد اللہ خاں غالبؔ کو یہ شکایت تھی کہ دن بے مصرف گزر جاتے ہیں! وہ اس بات پر نالاں رہتے تھے کہ لوگ بے وقت بھی نازل ہو جاتے ہیں اور وقت کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں۔ تنگ آکر اُنہیں کہنا پڑا تھا ؎
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سُخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے دور و دیوار سا اِک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
غالبؔ کا نصیب کہ وہ گوشۂ عافیت ڈھونڈتے ہی رہ گئے۔ میرزا نوشہ چونکہ اپنے دور کی ''سیلیبرٹی‘‘ تھے اس لیے لوگ آتے ہی رہتے تھے اور میرزا وقت کے ضیاع کے باعث اُن کے نام کو روتے رہتے تھے۔ یہ بات مظفر خان کے حق میں جاتی ہے کہ وہ خیر سے سیلیبرٹی نہیں! اللہ کا کرم ہے کہ اُن کا وقت اُنہی کا ہے، جیسے چاہیں بروئے کار لائیں۔ اُنہیں گوشۂ عافیت میسّر ہے اور اِس طور میسّر ہے کہ وہاں سارا وقت اپنی مرضی کے مطابق گزار سکتے ہیں۔ عمر کا آخری حصہ ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے کئی طریقے ہیں۔ ایک اچھا طریقہ تو یہ ہے کہ انسان نے زندگی سے جو کچھ بھی پایا ہے اُس سے دوسروں کی زندگی کو بھی زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کی کوشش کرے یعنی اپنے تجربے سے نئی نسل کو مستفید کرے۔ دوسرا اچھا طریقہ یہ ہے کہ انسان زندگی بھر گھریلو ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے سے متعلق کوششوں کے باعث جو کچھ بھی نہ کرسکا وہ کرے۔ پڑھ نہ سکا ہو تو پڑھے، جو کچھ دیکھ نہ سکا ہو وہ دیکھے، جن لوگوں سے ملنے کو ترستا رہا ہو اُن سے ملے تاکہ اپنی اور اُن کی دل بستگی کا سامان ہو۔ مظفر خان صاحبِ فراش ضرور ہیں مگر خوش نصیب ہیں کہ زندگی نے فرصت عطا کی ہے۔ بہت سوں کو ہم نے فرصت و فراغت کے لیے ترستے دیکھا ہے۔ اگرچہ ایک بیماری کا ساتھ ہے مگر اور کیا چاہیے کہ حواس نمایاں حد تک سلامت ہیں۔ محترم ظفرؔ اقبال نے خوب کہا ہے ؎
اور کیا چاہیے کہ اب بھی ظفرؔ
بھوک لگتی ہے، نیند آتی ہے
مظفر خان کو گوشۂ عافیت مبارک! اب جبکہ اولاد کے حوالے سے سَر پر کسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں، اچھا ہے کہ وہ وقت کو اللہ کی رضا اور اپنی خواہش کے مطابق گزار کر اُخروی فلاح کا سامان کریں۔ فی زمانہ کسی کو اِتنا مل جائے تو اُس کا مقدر قابلِ رشک ٹھہرا۔ ؎
نَے تیر کماں میں ہے نہ صیّاد کمیں میں
گوشے میں ''قفس‘‘ کے مجھے آرام بہت ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved