یہ راولپنڈی کی گوالمنڈی کی کہانی ہے جس کی تاریخ قیامِ پاکستان سے پہلے شروع ہوتی ہے‘ جب یہاں کی اکثریت ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل تھی اور کچھ مسلمانوں گھرانے تھے۔ تقسیم کے بعد ہندو اور سکھ تو ہندوستان چلے گئے لیکن یہاں کے مکانوں اور عبادت گاہوں میں اب بھی گئے دور کی جھلک نظر آتی ہے۔اب بھی پُرانی گوالمنڈی اور عید گاہ کے قریب مندروں کی عمارتیں نظر آتی ہیں۔ اسی طرح سکھوں کا گوردوارہ بھی موجود ہے۔
گوالمنڈی کا علاقہ ریلوے پُل سے شروع ہو کر نالہ لئی کے پُل پر ختم ہو جاتا تھا‘جہاں سے آگے راولپنڈی شہر کی حدود شروع ہو جاتی تھی‘یوں راولپنڈی دو حصوں میں بٹا ہوا تھا‘ایک راولپنڈی شہر اور دوسرا کنٹونمنٹ بورڈ کا علاقہ جس میں گوالمنڈی‘صدر اورلال کُرتی کے علاقے شامل تھے۔ کنٹونمنٹ کے علاقے دراصل وہ چھاؤنیاں تھیں جو انگریزوں نے پنجاب میں نظم وضبط کیلئے قائم کی تھیں۔گوالمنڈی کے رہائشی محی الدین ہاشمی کے مطابق گوالمنڈی اس لحاظ سے اہم جگہ تھی کہ اس کے تین اطراف نالہ لئی بہتا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب اس کا پانی صاف و شفاف ہوتا تھا‘جو سید پور اور گولڑہ کے پہاڑی چشموں سے آتا تھا۔اس صاف پانی سے دھوبی نالے کے کنارے کپڑے دھویا کرتے تھے۔نالہ لئی کے کنارے دور دور تک کھیت تھے جنہیں نالہ لئی کے پانی سے سیراب کیا جاتا تھا۔اب بھی گوالمنڈی کے مختلف حصوں کے پُرانے نام اس دور کی یاد دلاتے ہیں مثلاً آنند پورہ‘مدن پورہ‘ لاجپت نگر وغیرہ۔ گوالمنڈی اپنے محل ِقوع کے حوالے سے ایک موزوں ترین جگہ تھی اس کے ایک طرف شہر تھا جہاں پرانی راولپنڈی آباد تھی‘دوسری طرف لیاقت باغ تھاجہاں بسوں کا اڈا تھا۔اس لیاقت باغ میں عیدین کے اجتماع ہوتے تھے۔ پہلوانوں کے اکھاڑے بھی تھے اور سیاسی جلسوں کیلئے لیاقت باغ کا ہی انتخاب کیا جاتا۔ اسی لیاقت باغ میں 1959ء میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان اور پھر 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ ایک لائبریری بھی قائم کی گئی تھی لیکن لیاقت باغ بنیادی طور پر ایک سیرگاہ تھی جہاں لوگ بچوں کے ہمراہ تفریح کیلئے آتے تھے۔گوالمنڈی کے تیسری طرف سٹی‘ صدر روڈ اور گنج منڈی تھی جوکاروبار کے اہم مراکز تھے۔ چوتھی طرف صدر کا علاقہ تھا جہاں ریلوے سٹیشن اورخریداری کے مختلف مراکز تھے۔
گوالمنڈی سے میرا اصل تعارف تب ہوا جب میرے ماموں قاضی عزیزالرحمن صاحب نے وہاں چھ مرلے کاگھر بنایا۔ اس گھر کی تین منزلیں تھیں اور تیسری منزل کی چھت پر کھڑے ہوں تو دُور کا منظر صاف نظر آتا تھا۔ گھر کی گلی پندرہ فٹ چوڑی ہوگی۔ ساتھ والا گھر اخلاق شاہ صاحب کا گھر تھا جو پولیس کے محکمے میں کام کرتے تھے۔ساٹھ کی دہائی میں گوالمنڈی میں نئی آبادیاں بنیں جن کی گلیوں کو دن میں دو بار اہتمام سے صاف کیا جاتا تھا۔ماموں جان کے گھر کے بالکل سامنے ڈاکٹر عبدالخالق صاحب کا گھر تھا جن کا کلینک صدر میں تھا۔وہ انتہائی شریف النفس آدمی تھے۔وہ پیپلز پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن تھے اور دو بار صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔وہ پنجاب کے وزیرِ تعلیم اور وزیرِ خزانہ بھی رہے۔ ہمارے ماموں کا گھر کیا تھا ایک ڈیرہ تھا جہاں ہر وقت چولہے پر چائے تیار رہتی۔ گرمیوں میں گلی میں کرسیاں بچھائی جاتیں اور سردیوں میں سیڑھیوں کے اوپر ان کے کمرے میں ان کے دوستوں کی باقاعدہ بیٹھک ہوتی۔ ان دوستوں میں کچھ نام مجھے اب بھی یاد ہیں‘ایک تو فقیر رشید صاحب تھے۔ فقیر رشید صاحب لال کُرتی کے پاس ہائی سکول میں میرے استاد رہ چکے تھے۔ ان کا شمار چند بہت اچھے اساتذہ میں ہوتا تھا۔فقیر رشید صاحب کے بھائی ڈاکٹر ظہیر اسلام آباد میں بین الاقوامی معیار کے مطابق قائم کئے گئے شفا ہسپتال کے بانیوں میں سے تھے۔ اس کے علاوہ بشیر صاحب اور علامہ صاحب تھے۔ یہیں میری اول اول ملاقات جماعت اسلامی کے مشرقی پاکستان کے امیرپروفیسرغلام اعظم سے ہوئی جنہیں بعد میں بنگلہ دیش کی حکومت نے عمر قید کی سزا سنا دی تھی۔یہ ستر کی دہائی کا ذکرہے‘یہ بے لوث محبتوں کا زمانہ تھااور اس ڈیرے پر بے لوث محبتوں کی فراوانی تھی۔ گلی کے نکڑ پر سہگل صاحب کی دکان ہوتی تھی جس پر آدھا وقت وہ اور آدھا وقت ان کی بیگم بیٹھتی تھی۔ اس دکان کے بالمقابل ایک پرانی تین منزلہ عمارت تھی جو شاید کسی ہندو کی عمارت تھی‘اب وہاں پاشا صاحب رہا کرتے تھے۔ یہاں انہوں نے گہوارہ تعلیم کے نام سے ایک سکول کھول رکھا تھا۔ پاشا صاحب کے چھوٹے بھائی اعجاز سرسید کالج میں ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔ اعجاز نے بعد میں آرمی جائن کر لی اور بریگیڈیئر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اعجاز سے چھوٹا بھائی نصیر تھا جو آرمی میں لیفٹیننٹ تھا۔ ایک روز وہ دوستوں کے ہمراہ دریائے نیلم میں تیراکی کر رہا تھا کہ تندوتیز پانی کی لہریں اسے بہا کر لے گئیں۔ گہوارۂ تعلیم سے ذرا آگے محبوب جنرل سٹور تھا۔ سٹور پر کچھ وقت سٹور کا مالک محبوب اور باقی وقت اس کی والدہ بیٹھتیں۔ محبوب جنرل سٹور سے بائیں طرف جائیں تو آگے مو ٹر مکینکس کی دکانوں کی قطار ہے۔محبوب جنرل سٹور کے دائیں طرف جائیں تو گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم جمعیت اہلِ قریش کے محلے میں آ جاتے ہیں۔ قریشی فیملی میں ایک چہرہ اقبال بھائی کا تھا۔ہر دم ہنستا مسکراتا چہرہ جو وقت سے پہلے اجل کی وادی میں اتر گیا تھا۔
اس زمانے کو یاد کروں تو گوالمنڈی کا ایک بڑا مرکز ایگل ہوٹل تھاجس کا مالک منظور تھا۔اس ہوٹل کی چائے کا اپنا ذائقہ تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں ادھار پر چائے ملتی تھی۔جس کی ادائی مہینے بعد کی جاتی تھی۔منظور نے بعد میں اپنے کاروبار کو بڑھا دیا اور اور چائے کی پانچ دکانیں کھول لیں ان دکانوں کا نام PM Houseتھا‘جس سے اس کی مراد PURE MILK ہوتی۔ایگل ہوٹل سے کچھ فاصلے پر ایگل ہیلتھ کلب تھا جس میں نوجوان ایکسر سائز اور باڈی بلڈنگ کیلئے آتے تھے۔ گوالمنڈی کے ہی الیاس صاحب بعد میں مسٹر پاکستان بنے اور گوالمنڈی کا نام روشن کیا۔ گوالمنڈی کی بیکریوں میں ایک 'خان بیکرز‘ تھی۔ مجھے ابھی تک بیکری کے مالک ریاض خان کا چہرہ یاد ہے‘کیسے وہ لمبی اور چوڑی چھری سے بن (جسے ہم بند کہتے تھے) کو درمیان سے کاٹ کر اس میں مکھن لگایا کرتا تھا۔ ہمارے گھر سے ایک گلی چھوڑ کر خوش سیرت اور خوش صورت حاجی مبارک صاحب کا گھر تھا‘جن کے پانچ بیٹے عشرت‘ جاوید‘ شاہد‘فرخ‘اور اسد تھے۔ یہ انتہائی نیک اور ملنسار خاندان تھا۔میرے ماموں زاد بھائیوں شوکت اور طارق کی دوستی تھی۔ گھر کی معاشی حالت کو سہارا دینے کیلئے اَسی کی دہائی میں عشرت اور اسد تلاشِ معاش میں امریکہ چلے گئے جہاں عشرت نے ایک سٹور میں کام شروع کر دیا اور اسد نے ایک بیکری میں کام کا آغاز کیا۔دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے‘اب اسد کو یہاں کام کرتے ہوئے 12سال بیت چکے تھے لیکن اب بھی راتوں کو اسے گوالمنڈی کی یاد ستاتی تھی۔دن کو بیکری میں کام کرتے ہوئے جب وہ باہر نیو یارک کی سڑکوں پر برف باری کا منظر دیکھتا تو اسے اپنی گوالمنڈی کے گلی کوچے یاد آجاتے۔وہ چشمِ تصور میں دیکھتا کہ گوالمنڈی کی عید گاہ کے اونچے لمبے درخت اور نالہ لئی کا پُل تیز بارش میں بھیگ رہے ہیں۔ اس کے محلے آنند پورہ کی گلیوں میں بچے بارش میں نہا تے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ایگل ہوٹل میں چائے پینے والوں کا ہجوم ہے۔ وہ بیکری کی شیشے کی دھند آلود دیواروں سے باہر نیو یارک کے آسمان کو دیکھتا تو اس کی آنکھیں دھندلی ہو جاتیں۔ وہ سوچتا وہ دن کب آئے گاجب میں اپنے وطن جاؤں گا‘گوالمنڈی کے ان خوش رنگ گلی کوچوں میں جہاں میرے بچپن کے دن مجھے ڈھونڈ رہے ہیں۔(جاری)