نواز شریف کے والد میاں محمد شریف مرحوم نے 1970 ء کے عام انتخابات میں لاہور سے ذوالفقار علی بھٹو کو ہرانے کے لیے ان کے مقابلے پر جاوید اقبال مرحوم کی مالی مدد کی۔ فرزندِ اقبال قومی اسمبلی کا الیکشن تو ہار گئے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے دل میں میاں محمد شریف کے خلاف ایک گرہ پڑ گئی۔ اسی لیے جب ذوالفقار علی بھٹو نے صنعتوں کو ریاستی ملکیت میں لیا تو میاں محمد شریف کا ادارہ 'اتفاق ‘ بھی اس کی لپیٹ میں لے لیا گیا۔ شریف خاندان پر بھٹو کا یہ وار اتنا کاری تھا کہ چھیالیس برس بعدبھی نواز شریف نے پارلیمنٹ میں اپنے لندن والے فلیٹس کی صفائی دیتے ہوئے اس کا ذکر قومی اسمبلی میں کیا۔ شریف خاندان کی پیپلزپارٹی سے نفرت کا جو سفر1970ء میں شروع ہوا تھا اس کے مظاہرے 1990 ء کی دہائی میں بھی نظر آتے رہے۔ نواز شریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ایسی الیکشن مہم چلائی جسے لکھنے یا بیان کرنے کی بھی اخلاق اجازت نہیں دیتا۔ بے نظیر بھٹو نے کاروباری طور پر شریف خاندان کو تباہ کرنے کے لیے اپنے حکومتی اختیارات استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔نواز شریف کو حکومت ملی تو انہوں نے سیف الرحمن کو احتساب بیورو کا سربراہ بنا کر بھٹو خاندان کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بات یہاں رکی نہیں۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو بے نظیر بھٹو نے بھی اس مارشل لا کو خوش آمدید کہنے میں زیادہ وقت نہیں لگایا۔نواز شریف جلا وطن ہوئے تو انہیں جمہوریت کی یاد ستائی اور انہوں نے بے نظیر بھٹو سے رابطے بڑھانے شروع کردیے۔ یہ رابطے میثاقِ جمہوریت میں ڈھلے مگر محترمہ نے اس میثاق کی سیاہی خشک ہونے سے بھی پہلے پرویز مشرف سے ڈیل کر لی۔ اسی ڈیل کے تحت وہ پاکستان واپس آئیں اور نواز شریف کی واپسی کا راستہ بھی ہموار ہوا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد جب ان کی پارٹی برسر اقتدار آئی تو وقتی محبتوں کے بعد حالات وہیں آن پہنچے اور نواز شریف نے آصف علی زرداری کو اپنے بھائی عباس شریف کی تعزیت کے لیے آنے سے بھی روک دیا۔ 2015 ء میں آصف علی زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دیا تو نواز شریف نے ان سے اتنی دوری اختیار کرلی کہ زرداری کو ملک چھوڑنا پڑا۔ ان کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس کا مقدمہ نواز شریف کے دور میں ہی بنا۔پاناما کیس میں نواز شریف کی حکومت گئی تو سوچ میں اتنا بڑا انقلاب آیا کہ ان کی بیٹی مریم نواز گڑھی خدابخش میں بے نظیر بھٹو کی برسی کے جلسے میں خطاب کررہی تھیں۔ مل کر ملک چلانے کی نوید سنا رہی تھیں اور خود کو محترمہ بے نظیر بھٹو سے تشبیہ دے رہی تھیں۔
اب ذرا عوامی نیشنل پارٹی کی بھی خبر لے لیں۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ آج کی اے این پی ماضی کی نیپ ہوا کرتی تھی۔ یہ وہی نیپ تھی جس کے سربراہ خان عبدالولی خان تھے۔ ولی خان کو ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں جو کچھ سہنا پڑا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ان کے جلسے میں گولیاں چلائی گئیں‘ انہیں غدار کہا گیا‘ ان پر اندراگاندھی سے دوکروڑ روپے لینے کا الزام لگایا گیا‘ ان کی 'غدارانہ‘ سرگرمیوں کی سزا دینے کے لیے حیدرآباد ٹربیونل بنایا گیا۔ ولی خان ہی تھے جو بھٹو کو فاشسٹ قرار دے کر 'ایڈولف بھٹو‘ کہا کرتے تھے۔ پھر جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگایا تو ولی خان بول اٹھے کہ 'قبر ایک ہے اور بندے دو‘ اب دیکھتے ہیں اس میں کون جائے گا‘۔ یہ فقرہ اس مقدمے کا خلاصہ ہے جو ذوالفقار علی بھٹو پر چلا اور انہیں پھانسی ہوگئی۔ بعد میں ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی حلیف بھی ہوئی لیکن جلد ہی ساتھ چھوڑ گئی۔ پھر یہ پارٹی نواز شریف کے ساتھ مل گئی۔ آخرکار آصف علی زرداری کے دورِحکومت میں ان کے ساتھ رہی،'ایزی لوڈ‘ کے زور پر حکومت چلائی اور پھر عمران خان کی سونامی کی نذر ہوگئی۔ اب ایک بار پھر چشمِ فلک یہ نظارہ دیکھ رہی ہے کہ ولی خان کا نواسا امیر حیدرخان ہوتی لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کے شہدا کے مزاروں کی قسمیں کھا کھا کر عمران خان کی حکومت گرانے کے ارادے باندھ رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمن اپنے گرامی قدر والد مولانا مفتی محمود کی مسند پر بیٹھے جمعیت علماء اسلام کو سنبھالتے ہیں۔ مفتی محمود1970ء کے انتخابات کے بعد ولی خان کے تعاون سے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ بنے تھے۔ ولی خان کو جب ذوالفقار علی بھٹو نے وطن کا غدار اور حیات شیرپاؤ کا قاتل قرار دیا تو یہ حکومت بھی ٹوٹ گئی۔ مولانا مفتی محمود کو ہی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے پاکستان قومی اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت گرادی۔ ان کے بعد مولانافضل الرحمن پیپلزپارٹی کے ساتھ مل گئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں اپنے دوسرے دورِ حکومت میں کشمیر کمیٹی کا چیئر مین بنا دیا۔ حضرت نے جنرل پرویز مشرف کی خوب اعانت کی۔ اس کے صلے میں انہیں خیبرپختونخوا کی حکومت بھی ملی اور قومی اسمبلی میں قائد ِحزب اختلاف کا منصب بھی۔ مولانا کی سیاسی مہارت کا یہ کمال بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی اور پھر نواز شریف کے دورِ حکومت میں بھی مناسب حصہ وصول کر لیا۔ نظر آنے والے حکومتی مناصب سے ہٹ کر مولانا کو جو پیپلزپارٹی اور نواز شریف سے ملا وہ یہ تھا کہ ان دونوں جماعتوں نے جمعیت علماء اسلام کے مخصوص حلقوں میں تگڑے امیدوار بھی نہیں کھڑے کیے‘ بالخصوص ڈیرہ اسماعیل خان میں تو انہیں طویل عرصے سے فری ہینڈ ہی ملا رہا۔ تحریک انصاف وہ پہلی قومی جماعت تھی جس نے ان کے حلقوں میں ان کا مقابلہ کیا اور اکثر جگہ سے جیت گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے جلسے پر مولانا فضل الرحمن اپنی مصروفیات کی وجہ سے نہیں جاسکے لیکن مولانا عبدالغفور حیدری کو نمائندگی کے لیے بھیج دیا۔ شاید مفتی محمود مرحوم کے بیٹے کو ذوالفقار علی بھٹو کے مزار کے سامنے تقریر کرنے سے حجاب آتا ہو! بہرحال مفتی محمود کی جماعت کا ایک اہم رکن وہاں موجود تو تھا۔
اخترجان مینگل کے والد عطااللہ مینگل بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ بنے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ہی ان کی حکومت کا خاتمہ کیا اور نواب اکبر خان بگٹی کو گورنر بنا کر بلوچستان پر عملاً اپنی حکومت قائم کرلی اور فوجی آپریشن شروع کرادیا۔ اس کے بعد عطا اللہ مینگل کے ساتھ بھٹو صاحب نے جو سلوک روا رکھا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اختر جان مینگل کو نواز شریف نے ایک بار بلوچستان کا وزیراعلیٰ بنایا۔ پرویزمشرف کے دور میں وہ ملک سے باہر ہی رہے۔ حالات سازگار ہوئے تو دوبارہ واپس آگئے۔ بلوچستان میں تو وہ اپنا رنگ نہیں جما پائے لیکن مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے انہیں بلوچستان میں اپنے جماعتی عمائدین پر بھی ترجیح دے رکھی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں ایک ایسا کارڈ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں جو بوقت ضرورت ڈرانے کے لیے استعمال ہوسکے۔بہرحال‘اخترجان مینگل کی مبلغ سیاست یہ ہے کہ آج وہ بھی اپنے سیاسی مفادات کے لیے اپنے والد کے سب سے بڑے مخالف ذوالفقار علی بھٹو کے مزار کے سامنے کھڑے جلی کٹی تقریرکررہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کی سیاست میں پیپلزپارٹی سے لین دین اپنی جگہ لیکن ایسا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ بھٹو کو پھانسی تک لے جانے والوں کی اولادیں اپنے اپنے درد کا مرہم لینے کے لیے انہی کے مزار پر کھڑی ہوں گی۔ اور کتنی عجیب بات ہے کہ وہ سب لوگ جو کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت گرانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے آج ان کے بچے عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے بھٹو کی اولاد کے نخرے اٹھا رہے ہیں۔ اپنی اپنی سیاسی وراثت بچانے کے لیے بھٹو کے وارثوں کے بنائے ہوئے سٹیج پر چڑھے بھٹو ‘ بھٹو کررہے ہیں۔ بھٹو کے زندہ ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا!