تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     30-12-2020

سنا ہے سال بدلے گا…

حکمران بدلیں یا سال‘ عوام کی حالتِ زار جوں کی توں ہی رہتی ہے۔ اقلیت پر مبنی اشرافیہ نے اکثریت کا جو حشرنشر کیا ہے اسے بیان کرنے کے لیے الفاظ بھی ناپید ہوتے چلے جارہے ہیں۔ جس ملک کی اشرافیہ ہی حکمران اور حکمران ہی اشرافیہ ہو تو عوام کا رونا دھونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ شاہانہ زندگی گزارنے والی یہ اقلیت روزانہ زندگی گزارنے والوں کا دُکھ کیا جانے۔ سالِ رواں کے آخری دو سورج بھی غروب ہونے کو ہیں اس کے بعد نیاسال چڑھے گا اور دن رات ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے پھر نئے سال میں داخل ہو جائیں گے۔ دسمبر کے آخری ایّام میں ہر سال یہ اشعار نہ صرف اُداسی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں بلکہ مایوسیوں کے بھی گڑھے مزید گہرے ہوتے دِکھائی دیتے ہیں۔ 
سنا ہے سال بدلے گا/ زبوں حالی وہی ہوگی/ اسیری بھی وہی ہوگی/ بردگی بھی وہی ہوگی/ بے بسی بھی وہی ہوگی/ کسمپرسی وہی ہوگی/ ستم گر ڈال بدلے گا!/ سنا ہے سال بدلے گا / بازار بھی وہی ہوگا/ سودا بھی وہی ہوگا/ صارف بھی وہی ہونگے/ گاہک بھی وہی ہونگے/ بنیا چال بدلے گا/ سنا ہے سال بدلے گا/ جنونِ زیست وہی ہوگا/ آہن گر بھی وہی ہوگا/ عیاں سینہ وہی ہوگا/معرکہ بھی وہی ہوگا/ ہنگامہ بھی وہی ہوگا/ صیاد بھال بدلے گا/ سنا ہے سال بدلے گا .../ نتیجہ پھر وہی ہوگا/ پرندے پھر وہی ہوں گے/ شکاری جال بدلے گا/ بدلنا ہے تو دن بدلو/ بدلتے کیوں ہو‘ ہندسے کو؟/ وہی حاکم‘ وہی غربت/ وہی قاتل‘ وہی ظالم/ بتاو کتنے سالوں میں/ ہمارا حال بدلے گا...؟/ سنا ہے سال بدلے گا .../ بدلنا ہے تو خود بدلو/ زمین بدلو‘ زمان بدلو/ نقش کہن‘ سماں بدلو/ پارینہ وہ نشان بدلو/ یہ اندازِ جہاں بدلو/ ہمارا حال بدلے گا/ سنا ہے سال بدلے گا...
اکثر دل کرتا ہے کہ مجہول سیاست سے بچ بچا کر صرف ان مسائل پر بات کی جائے جن کا تعلق عوام اور صرف عوام سے ہو‘ لیکن باوجود کوشش کے ہر بار ناکام ہی رہتا ہوں کیونکہ بات عوام کی ہو اور اس میں سیاست کا ذکر نہ آئے‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ عوام کو لاحق خدشات سے لے کر مسائل تک سبھی تو اسی سیاست اور ریاست سے جڑے ہوئے ہیں۔ نوحہ عوام کے مصائب کا ہو اور حکمرانوں کا ذکر نہ آئے یہ ممکن ہی کہاں ہے؟ عوام نے بھی کیا نصیب پایا ہے... ان کے نصیب میں ہی کہیں مرچنٹ تو کہیں پاور گیم کے منجھے ہوئے اور کاریگر کھلاڑی حکمران ہوں توعوام کی بدنصیبی کو کون ٹال سکتا ہے۔ 
جس معاشرے میں ٹریفک سگنل سے لے کر قوانین اور آئین توڑنے والے خود کو ماورائے قانون اور ناقابلِ گرفت سمجھتے ہوں اور طرزِ حکمرانی ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہو‘ بندہ پروری سے لے کر کنبہ پروری تک‘ بندر بانٹ سے لے کر لوٹ مار تک‘ ساز باز سے لے خورد برد تک‘ اقربا پروری سے شکم پروری تک‘ بیان بازی سے رنگ بازی تک‘ چور بازاری سے ذخیرہ اندوی تک‘ بدلحاظی سے بہتان بازی تک‘ بدتہذیبی سے زبان درازی تک‘ ریفارمز کے نام پر ہونے والی ڈیفامز تک کس کس کا رونا روئیں؟ 73برس بیت چکے ہیں رونے والوں کے آنسو کب کے خشک ہو چکے ہیں‘ اب یہ عالم ہے کہ روتے روتے ان کا منہ ہی رونے کی علامت بن چکا ہے۔ 
ان 73برسوں میں سال بدلنے کے ساتھ ساتھ حکمران تو بدلتے رہے ہیں لیکن طرزِ حکمرانی نہیں بدلا‘ کوئی سیر تو کوئی سوا سیر‘ کوئی نہلا تو کوئی نہلے پے دہلا ثابت ہوا‘ ہر آنے والے حکمران کبھی حالات کی خرابی کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہراتا ہے تو کبھی گورننس کی آڑ میں اور میرٹ کے نام کیے جانے والے سارے اقدامات صرف مخالفین کو مات دینے کے اردگرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ رنگین و سنگین یادوں سے جڑے یہ سبھی ماہ و سال یونہی آتے جاتے رہیں گے اور عوام حکمرانوں کے فیصلوں اور اقدامات کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ آلام و مصائب میں گھرے یہ عوام روز و شب سے لے کر ماہ و سال تک حالات کا ماتم اور گریہ زاری یونہی کرتے رہیں گے۔ تبدیلی کی آس میں بھٹکنے والے عوام بھٹکتے بھٹکتے کہاں آن پہنچے ہیں۔ یہ کیسی تبدیلی ہے جو کچھ بھی تبدیل نہ کر سکی ہے‘ وہی نظام وہی شکار‘ وہی کھیل وہی کھلاڑی‘ وہی سہانے خواب وہی بھیانک تعبیریں‘ گویا تمام عمر چلے گھر نہیں آیا۔ 
کیسے کیسے سانحات‘ حادثات اور صدمات قوم کا مقدربنتے چلے آئے ہیں۔ جب بھی آئی‘ جہاں سے بھی آئی‘ بری خبر ہی آئی۔ ہر دور میں وطنِ عزیز کے سبھی حکمرانوں کے ذاتی رفقا اور مصاحبین جہاں اُن کے پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے رہے‘ وہاں عوام کے لیے بھی کبھی آزمائش تو کبھی مصائب کا ہی باعث بنتے رہے ہیں۔ کبھی روٹی کپڑا مکان‘ کبھی قرض اُتارو ملک سنوارو تو کبھی سب سے پہلے پاکستان‘ کبھی تبدیلی کا سونامی جیسے جھانسے اور دلاسے برس ہا برس یا دہائیاں گزر جائیں‘ کتنے ہی حکمران بدل جائیں‘ کتنی ہی رُتیں اور موسم بدل جائیں عوام کے نصیب کبھی نہیں بدلتے۔ روزِ اوّل سے لمحۂ موجود تک ان کے مسائل اور مصائب جوں کے توں ہیں۔ انہیں عوام کا کوئی درد ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے استحکام سے کوئی سروکار۔ دکھ ہی دکھ‘ دھوکے ہی دھوکے‘لٹنا اور مٹنا عوام کا مقدر بنتا چلا جارہا ہے۔ 
گوتم بدھ نے دنیا کو دکھوں کا گھر یونہی نہیں کہہ دیا تھا۔ وہ تو دوسروں کے دکھ دیکھ کر اتنا دکھی ہوا کہ دنیا ترک کر گزرا۔ پرتعیش طرزِ زندگی کے باوجود یہ شہزادہ خلقِ خدا کے مصائب دیکھ نہ پایا تو براہِ راست دکھ جھیلنے والوں کی حالتِ زار کیا ہو گی۔ خوشحالی کے سنہری خواب ہوں یا اچھے دنوں کی آس‘ نہ خوابوں کو تعبیر ملتی ہے نہ آس پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ بس یہی اتنا سا خلاصہ ہے وطنِ عزیز کی اکثریت کی زندگانی کا۔ اقلیت کے طرزِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھنے والی یہ اکثریت نجانے کب سے سولی پر لٹک رہی ہے۔ سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہو کر بالآخر قبروں میں جا سوتے ہیں۔ چلتے چلتے ایک اور ناسٹیلجیا بھی شیئر کرتا چلوں جو ہر سال کے اختتام پر شدت اختیار کر جاتا ہے۔ 
آخری چند دن دسمبر کے/ ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں/ خواہشوں کے نگار خانے میں/ کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں/ رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی/ ایک محفل سی دل میں سجتی ہے/ فون کی ڈائری کے صفحوں سے/ کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے/ جن سے مربوط بے نوا گھنٹی/ اب فقط میرے دل میں بجتی ہے/ کس قدر پیارے پیارے ناموں پر/ رینگتی بدنما لکیریں سی/ میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں/ دوریاں دائرے بناتی ہیں/ دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس/ مشعلیں درد کی جلاتے ہیں/ ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں/ حادثے کے مقام پر جیسے/ خون کے سوکھے نشانوں پر/ چاک کی لائنیں لگاتے ہیں/ ہر دسمبر کے آخری دن میں/ ہر برس کی طرح اب بھی/ ڈائری ایک سوال کرتی ہے/ کیا خبر اس برس کے آخر تک/ میرے ان بے چراغ صفحوں سے/ کتنے ہی نام کٹ گئے ہوں گے/ کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں/ گردِ ماضی سے اَٹ گئے ہوں گے/ خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں/ کتنے طوفان سمٹ گئے ہوں گے/ ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں/ ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے/ رنگ کو روشنی میں کھونا ہے/ اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی/ ڈائری‘ دوست دیکھتے ہوں گے/ ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں/ ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا/ اور کچھ بے نشاں صفحوں سے/ نام میرا بھی کٹ گیا ہوگا ...

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved