تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     31-12-2020

اللہ اس ملک کی جمہوریت پر کرم کرے!

الحمدللہ ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور جمہوریت کا یہ عالم ہے کہ سوائے حکمران پارٹی کے کوئی بھی یہ یقین نہیں رکھتا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت ہے۔ حکمران سے مراد محض موجودہ حکمران ہرگز نہیں، اس سے مراد تمام سابقہ اور آئندہ آنے والے سبھی حکمران ہیں۔ جو بھی حکمران ہوتا ہے اسے ملک میں حقیقی اور اصلی جمہوریت کا یقین کامل ہوتا ہے اور وہ اپنی حکمرانی کو اسی حقیقی جمہوریت کا ثمر قرار دیتا ہے اور ملک میں جمہوریت، آزادی، عدل و انصاف اور امن و امان کے ساتھ ساتھ خوشحالی، معاشی ترقی اور اداروں کے استحکام پر یقین کامل رکھتا ہے؛ تاہم اس کے برعکس اپوزیشن (وہ بھی خواہ کوئی ہو) حکومت‘ خواہ وہ وردی والی ہو یا بغیر وردی والی دونوں‘ کو آمریت قرار دیتی ہے اور ہر اس بات کو باطل قرار دیتی ہے جسے حکمران درست سمجھتے ہوں۔ یہی حال ہر الیکشن کا ہے۔ جو جیت جائے اس کے نزدیک الیکشن ملکی تاریخ کے سب سے صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن ہوتے ہیں جس میں عوام انہیں اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے کامیاب کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہارنے والے کبھی بھی ووٹوں کی کمی سے نہیں ہارتے بلکہ دھاندلی کے باعث شکست سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس دھاندلی میں عالمی طاقتیں، یہودی لابی، امریکی مداخلت، مقتدر حلقوں کا دبائو، ایجنسیوں کی دخل اندازیاں، پری پول رگنگ، مقامی انتظامیہ کی جانبداری، انتخابی عملے کی بے ایمانی اور دھاندلی کا ہر حربہ شامل ہوتا ہے۔ اگر مختصراً کہا جائے تو ہمارے ہاں ہر جیتنے والا عوام کی طاقت سے برسر اقتدار آتا ہے اور ہر ہارنے والا‘ خواہ اسے گھر کے پورے افراد بھی ووٹ نہ دیتے ہوں‘ ہمیشہ دھاندلی سے ہارتا ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ جمہوریت جتنی لاچاری اور کسمپرسی کا شکار ہمارے ہاں ہے شاید ہی کہیں اور ہو گی۔ ہماری نوے فیصد جمہوری سیاسی جماعتیں بذات خود جمہوریت سے دو اڑھائی سو نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔ دور کیوں جائیں؟ ملک میں جمہوریت کے مروڑ میں مبتلا سب سے بڑا پلیٹ فارم فی الوقت پی ڈی ایم ہے۔ پی ڈی ایم کا مطلب ہے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ۔ اس کا سلیس اردو ترجمہ بنتا ہے: پاکستان جمہوری تحریک۔ اب اس جمہوری تحریک میں شامل جماعتوں میں ہی جمہوریت کا جائزہ لیں تو ہنسی کے مارے پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں اور جب ہنسی تھمتی ہے تو جمہوریت کی بے بسی، کسمپرسی، لاچارگی اور مظلومیت پر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
پی ڈی ایم کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ ن، دوسری بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی اور پھر جمعیت علمائے اسلام ہے۔ اس کے بعد اے این پی، پھر بی این پی اور پھر پختونخوا ملی عوامی پارٹی ہے۔ اب اگر اس گیارہ جماعتی اتحاد کی پہلی چھ پارٹیوں کے اندر جمہوریت کا جائزہ لیں تو بڑی مزیدار صورتحال نظر آتی ہے۔ پی ڈی ایم کے حوالے سے مسلم لیگ ن کو جمہوریت کا جتنا بخار چڑھا ہوا ہے اس کو ناپنے کیلئے اگر تھرما میٹر لگایا جائے تو اس کا پارہ بھاپ بن کر اڑ جائے جبکہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا یہ عالم ہے کہ پہلے صدارت نواز شریف کے پاس تھی اور تا حیات تھی‘ مجبوراً یہ صدارت چھوڑنا پڑی تو برادرِ خورد میاں شہباز شریف کے سپرد کر دی۔ نائب صدر ان کی بیٹی مریم نواز شریف ہیں۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد میاں شہباز شریف ہیں اور پنجاب اسمبلی میں ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز ہیں۔ ایک زمانے میں ملک کے اندر مالی معاملات کے سیاہ و سفید کے مالک ان کے سمدھی اسحاق ڈار تھے۔ اب بھی ساری پارٹی کو لندن سے ریموٹ پر چلایا جا رہا ہے اور پارٹی کو چلانے کا اتھارٹی لیٹر مریم نواز کے پرس میں موجود ہے اور پارٹی کے تمام بزرگ دونوں ہاتھ باندھ کر مریم نوازاور حمزہ شہباز کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور ان سے جمہوریت سیکھتے ہیں۔
ملک میں جمہوریت کو زندہ کرنے میں مصروف اس اتحاد کی دوسری بڑی پارٹی پیپلز پارٹی ہے۔ اس پارٹی میں جمہوریت کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ پانچ عشروں سے زیادہ ایک ہی خاندان اس پارٹی کے سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ پہلے ذوالفقار بھٹو تھے، پھر ان کی اہلیہ نصرت بھٹو پارٹی کی چیئر پرسن بن گئیں۔ پھر ان کی جگہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو نے لے لی۔ ان کی رحلت کے بعد ایک وصیت نامے کے ذریعے‘ جس کی اپنی صحت مشکوک تھی‘ ان کے شوہر نامدار آصف زرداری پارٹی کے چیئرمین بن گئے۔ جونہی ان کا صاحبزادہ بالغ ہوا‘ اسے پارٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا؛ تاہم زرداری صاحب نے پارٹی کے اقتدار سے اپنا ناتا جوڑے رکھا اور خود ''Co-chairman‘‘ یعنی شریک چیئرمین بن گئے۔ بقول شاہ جی یہ تو صرف ''کو چیئرمین‘‘ کا معاملہ ہے‘ اگر پارٹی کے ''سو چیئرمین‘‘ بھی ہوتے تو وہ زرداری قبیلے میں جنم والے بھٹو ہی ہوتے۔ جمہوریت کی بے چارگی کا یہ عالم ہے کہ ساٹھ سالہ قمر زمان کائرہ ستائیس سالہ آصفہ زرداری سے جمہوریت سیکھنے کے خواہش مند ہیں اور پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں جمہوریت کے۔
تیسری بڑی پارٹی‘ جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ہیں‘ کا تذکرہ آخر میں کروں گا۔ چوتھی بڑی پارٹی اے این پی ہے۔ گزشتہ اسّی سال سے اس پارٹی کی مختلف اشکال کی سربراہی ایک ہی خاندان کے ہاتھ میں ہے اور اب اس خاندان کی چوتھی نسل پارٹی کو اپنی جیب میں ڈالے ہوئے ہے۔ پہلے عبدالغفار خان، پھر ولی خان، پھر بیگم نسیم ولی خان پھر اسفند یار ولی اور تازہ ترین انٹری پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی ہے۔ پارٹی گزشتہ ستر اسی سال سے ایک خاندان کی میراث ہے اور مقصد پاکستان میں جمہوریت کی بحالی ہے۔ اگلا نام بی این پی کا ہے‘ جسکے سربراہ اختر مینگل نے اپنی سیاسی وراثت اپنے والد سردار عطااللہ مینگل سے حاصل کی ہے۔ اس کے بعد چادر والے درویش کا نمبر آتا ہے۔ اس کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ ہم جیسے سادہ لوح انکے کافی عرصہ تک شیدائی رہے تاوقتیکہ وہ بلوچستان کے سیاسی افق پر حکمرانی کے گھوڑے پر سوار ہو کر آئے تو اگلی پچھلی ساری کسریں نکال دیں اور ہر طرف اچکزئی چھا گئے۔ خیر سے ان کو بھی ساری پارٹی ان کے والد عبدالصمد اچکزئی سے وراثت میں ملی؛ تاہم مسلم لیگ کی حکومت میں انہیں شریک اقتدار کیا گیا تو انہوں نے جمہوریت کے کڑاکے نکالتے ہوئے بھائی محمد خان کو گورنر بلوچستان بنوایا۔ دوسرے بھائی حامد خان کو صوبائی وزیر بنوایا۔ بھابھی، سالی اور برادر نسبتی کو صوبائی اسمبلی کا رکن بنوایا۔ بھابھی کا بھائی، اہلیہ کا بھتیجا، کزن، بھتیجی، بھتیجے اور دیگر رشتہ داروں کو اقتدار کی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے ہوئے ملازمتوں کی ریوڑیاں بانٹیں۔
آخر میں ذکر ہو جائے جمہوریت کی بحالی کی اس تحریک کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا۔ اپنے والد گرامی کی نسبت سے جمعیت علمائے اسلام کی سربراہی اچکنے والے مولانا فضل الرحمن کا سارا خاندان اس وقت جمہوریت کی باولی میں اشنان کر رہا ہے۔ بھائی لطف الرحمن ممبر صوبائی اسمبلی، دوسرے بھائی عطاالرحمن سینیٹر، بیٹا ممبر قومی اسمبلی اور سٹینڈنگ کمیٹی کا چیئرمین ہے۔ ایک بھائی ضیاالرحمن کو براستہ بٹھنڈہ ڈپٹی کمشنر بنوا لیا اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے سربراہ نے اپنی پارٹی میں اپنے خلاف بولنے والے حافظ حسین احمد، مولانا محمد خان شیرانی، مولانا گل نصیب خان اور مولانا شجاع الملک کے ساتھ جو کیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے تعلقات جمہوریت سے کتنے شاندار ہیں۔ اس عاجز کو پی ڈی ایم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے؛ تاہم ان سب لوگوں کے پیٹ میں جمہوریت سے محبت کے جو مروڑ اٹھ رہے ہیں، صرف اس پہ حیرانی یہ ہوتی ہے کہ گھر میں آمریت نافذ کرنے والے قوم کو جمہوریت کا کیا شاندار سبز باغ دکھا رہے ہیں۔ اللہ ہماری جمہوریت پر اپنا کرم کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved