تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     31-12-2020

رات کے اس پار

صاحبِ معلقہ، عربی کے بے مثال شاعر امرؤالقیس کا شعر مسلسل ذہن میں گھوم رہا ہے؎
الا ایھا اللیل الطویل الا انجلی 
یصبح و ما الاصباح منک بامثل 
(میں نے اس شب سے کہا)اے ہجر کی شب دراز! صبح بن کر روشن ہوجا۔(پھر ہوش میں آکر کہتا ہے)اور (سچ یہ ہے کہ) صبح بھی تجھ جیسی ہی ہوگی۔
اس وقت جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں‘ سال کا آخری دن طلوع ہوچکا ہے اور سونے کے تھال جیسا سورج آسمان کے بیچ سال کے آخری پڑاؤکی طرف جارہا ہے۔ اگلی منزل یکم جنوری ہے۔ سال نو 2021 کا نیا دن بیم و رجا کے بیچ، نئی امیدوں اور امنگوں کے ساتھ پوری دنیا کا منتظر ہے۔ لیکن یہ تحریر میں ڈوبتے دن اور ڈھلتے سورج کی زرد ترچھی کرنوں میں لکھ رہا ہوں اور میرے آپ کے بیچ ایک لمبی طویل رات پھیلی ہوئی ہے۔ تیس دسمبر کی رات۔
میں نے زندگی میں یہی دیکھا کہ جانے والا ہر سال آپ کی زندگی کے کچھ ناقابل فراموش واقعات کا رازدار بن جاتا ہے‘ اور ذرا سا دور چلا جائے تو یاد آنے لگتا ہے۔ ہمیشہ یہی محسوس ہوا کہ نئے کپڑوں اور نئے گھر کی طرح نیا سال بھی آتا ہے اور بتدریج پرانا ہوتا جاتا ہے۔ پھر ایک اور سال اور پھر ایک اور سال یہی تجربات دہراتا ہے؎
جو سال نو تھے بتدریج کہنہ ہوتے گئے 
نئے لباس کی صورت نئے مکاں کی طرح 
میں کیا کروں مجھے بے طرح یاد آتے ہیں 
تمام سال گزشتہ، گزشتگاں کی طرح 
عیسوی سال میں یہ عجیب معاملہ ہے کہ 24گھنٹے کا دن، رات کے دو آدھے آدھے ٹکڑوں اور ایک مکمل دن سے جڑ کر بنتا ہے۔ رات کے گیارہ بج کر انسٹھ منٹ پر پرانا دن تھا اور ایک منٹ بعد نیا دن شروع ہوگیا۔ اگرچہ کائنات میں سب کچھ وہی تھا اور کوئی اہم واقعہ رونما نہیں ہوا۔ میرے ایک مرحوم عزیز ایک عجیب بات کہتے تھے۔ کہنے لگے کہ یہ کیا بات ہوئی کہ زمین آسمان میں کچھ نہیں بدلا، کوئی تغیر نہیں ہوا اور خاموشی سے ایک دن ختم اور ایک شروع ہوگیا۔ کچھ تو ایسا ہونا چاہیے کہ پتہ چلے، کوئی بڑی بات ہوئی ہے۔ اسلامی کیلنڈر دیکھیے کہ ایک عظیم الشان واقعہ پیش آتا ہے، تب ایک دن ختم اور ایک شروع ہوتا ہے۔ سورج ڈوبتا ہے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے زمین آسمان میں ہلچل شروع ہوجاتی ہے۔ پرندے جانتے ہیں کہ انہیں اپنے گھروں تک پہنچ جانا چاہیے۔ چوپائے سمجھتے ہیں کہ یہ وقت واپسی کا ہے۔ درخت پودے پتے پھول اپنی آنکھیں موندنے لگتے ہیں۔ رواں دواں زندگی سیاہ چادر اوڑھنے لگتی ہے‘ اور تو اور اشرف المخلوقات حضرت انسان بھی دن بھر کی بھاگ دوڑ ختم کرکے آرام اور نیند کے ٹھکانوں کی طرف بھاگتے ہیں۔ پھر نارنجی زرد تھال افق میں ڈوبتا ہے۔ کائنات میں ایک عظیم الشان واقعہ پیش آتا ہے‘ اور پہلے ایک مکمل رات اور پھر ایک مکمل دن زمین کا مقدر بنتا ہے۔
31 دسمبر 2020 کے سائے میں ایک پورا سال پھیلا ہوا ہے۔ ایک ایسا ہولناک، مشکل اور مختلف سال جس نے ناگہانی طور پر دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔ یہ واقعات اور حالات کسی چشم تصور نے بھی نہیں دیکھے تھے جو جاگتی آنکھوں پوری دنیا نے دیکھے۔ وہ چہرے نظر میں گھوم رہے ہیں جو اس سال کے شروع میں ہمارے درمیان ہنستے بستے، کھاتے پیتے، چلتے پھرتے موجود تھے اور جنہوں نے اس نئے سال کا خیر مقدم اسی طرح کیا تھا جس طرح ہم اب نئے سال کا استقبال کررہے ہیں۔ کیسا دل کٹتا ہے انہیں یاد کرکے۔ میرے آپ کے ہمارے گردوپیش میں ان گنت لوگ موجود نہیں ہیں جن پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
سب رفتگاں تو شہر بقا میں اتر گئے 
لیکن جو زندہ رہ گئے وہ لوگ مر گئے 
پھر بھی اگلا سال کیا اس سے بہتر ثابت ہوگا؟ یہ کون کہہ سکتا ہے۔ اب امرؤالقیس کا شعر پھر پڑھیے۔لیکن زندگی ہے ہی ایسی پیاری چیز اور زندہ رہنے کی خواہش ہے ہی اتنی منہ زور کہ ہر حادثے ہر دکھ اور ہر خوف پر غالب آجاتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو لوگ مرنے والوں کے ساتھ مرجاتے۔ لیکن زندگی بہرحال رواں دواں رہتی ہے کیونکہ زندگی کے اپنے اٹل قوانین کسی کے آنے جانے کی پروا نہیں کرتے۔ لوگ بری خبریں بھی پڑھتے ہیں لیکن پُرامید ہیں کہ نئے سال میں سب تک تریاق پہنچ جائے گا۔ کووڈ کی بدلتی شکلوں کے باوجود یہ دوا اس پر کارگر رہے گی۔ دنیا اس مہلک خوف کے غلاف سے باہر نکل آئے گی۔ لوگ ایک دوسرے سے منہ چھپا کر نہیں ملیں گے۔ محفلوں کی سرگرمیاں، سڑکوں کی رونقیں، چوباروں کی چہل پہل، قہوہ خانوں کے قہقہے بلند ہوں گے، سکولوں کے کلاس رومز پھر آباد ہوں گے۔ پارک کھیلتے بچوں کے پھولوں سے کھل اٹھیں گے، ہوائی جہازوں پر لوگ قطاریں باندھ کر سوار ہوں گے، ہوٹلوں میں لوگ پھر بسیرا کریں گے۔ سمندر کی موجیں خالی ساحل کا مشاہدہ نہیں کریں گی۔ دنیا پھر ایک بار 31دسمبر 2019 کی طرح ہوجائے گی۔
2001 میں نیویارک میں ٹوئن ٹاور کا واقعہ پیش آیا تھا تو پیشگوئی کی گئی تھی کہ اب دنیا کی تاریخ نئے دور میں داخل ہوگئی ہے اور ماقبل اور مابعد کی دنیائیں مختلف ہوں گی۔ پھرواقعی دنیا نے ہلاکت خیزی کا نیا دور دیکھا۔ ملکوں کے اجڑنے، لوگوں کے بے گھر ہونے، بے گناہوں کے قتل ہونے اور ہجرتوں کے ایسے مناظر دیکھے جو صر ف دیکھے جا سکتے تھے۔ سب سے پہلا قتل انصاف کا ہوا اور اس قتل کیخلاف آواز بلند کرنا اور غم کرنا بھی جرم ٹھہرا۔ اب یہ جو کہا جارہا ہے کہ ماقبل اور مابعد کووڈ کی دنیاؤں میں زمین آسمان کی تبدیلی ہوگی اور لوگ تاریخ کا پیمانہ یہی ٹھہرالیں گے تو دل سہم جاتا ہے کہ بنی نوع انسان کیلئے آئندہ سالوں میں مقدر ہے کیا؟ پرانی بوتل میں پرانا جن واپس جائے گا یا نئی بوتل سے نیا جن آدم بو آدم بو کرتا برآمد ہوگا۔ 
مقدر یعنی مستقبل کس نے دیکھا ہے۔ اگلے سال کی خوشیاں اور دکھ کون کبھی جان سکا ہے۔ اور یہ بھی خدا کی کتنی بڑی نعمت ہے کہ اگلی گھڑیوں کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا ورنہ لوگ یا مر جاتے یا مار دیتے۔ اس لیے مستقبل سے لاعلم ہونا ہمارے مستقبل کی نوید ہے۔ یہی کیا جاسکتا ہے۔ سو سال کے آخری دن ہم سب امید، خوشی، اداسی اور بے یقینی کے بیچ 31دسمبر کو الوداع کہتے ہیں اور اس نظم کے ساتھ یکم جنوری کا خیر مقدم کرتے ہیں 
سال کی آخری شام 
اور کچھ دیر میں یہ سرخ گلاب
اپنی خوشبو میں نیم خوابیدہ
چاند کے رس میں ڈوب جائے گا
اور کچھ دیر میں ہوائے شمال 
نرم سرگوشیوں کی خلوت میں
پھول سے وصل کرنے آئے گی
اور کچھ دیر میں دھڑکتا سمے
ترک کردے گا یہ پرانا لباس 
اور نیا پیرہن پہن لے گا
اور کچھ دور تک ہواؤں پر
جل پری! تیرا گیت جائے گا 
اور کچھ دیر میں محبت کا 
اور اک سال بیت جائے گا
(سعود عثمانی)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved