تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     31-12-2020

سرخیاں، متن اور یاسمین سحرؔ کی غزل

2021ء ہر حوالے سے حکومت کے لیے
گھبرانے کا سال ہو گا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''2021ء ہر حوالے سے حکومت کے لیے گھبرانے کا سال ہو گا‘‘ جو واقعی ایک تشویشناک بات ہے اور میں حکومت کو یہ بات یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے گھبرانے سے حتی الوسع گریز کرے کیونکہ گھبراہٹ کے علاوہ بھی اسے کئی مسائل کا سامنا ہے جن میں میری روزانہ تقریروں پر توجہ دینا بھی شامل ہے لیکن وہ خاکسار کو کسی شمار و قطار ہی میں نہیں سمجھتی حالانکہ ہم نے پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک میں بھی حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا اور استعفیٰ نہ دیتے ہوئے بھی ہمارے جائز مطالبات منظور کیے جا سکتے تھے۔ آپ اگلے روز دیر میں کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
سیاسی انتقام کے دن گنے جا چکے ہیں: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''اندھے سیاسی انتقام کے دن گنے جا چکے ہیں‘‘ اور اب بینا سیاسی انتقام کے دن شروع ہو گئے ہیں جن کے تحت خواجہ آصف کو گرفتار کیا گیا ہے اور اسی آنکھوں والے انتقام کے تحت پیپلز پارٹی والے مجھ سے کوئی پرانا حساب برابر کر رہے ہیں جنہوں نے استعفے میری واپسی سے مشروط کر دیے ہیں‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ کبھی تک استعفے نہیں دیں گے کیونکہ اللہ نے مجھے جو کچھ نوازا ہے‘ میرے لیے وہی کافی ہے اورمیری بقایا زندگی کے لیے بہت ہے۔ آپ اگلے روز خواجہ آصف کی گرفتاری پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔
ہم سے پوچھیں‘ اثاثے کیسے بنائے، جواب دینگے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''ہم سے کوئی پوچھے اثاثے کیسے بنائے، جواب دیں گے‘‘ اگرچہ ہمارے اثاثے بس برائے نام ہی ہیں اور ابھی تک بننے کے آغاز ہی میں ہیں اور کسی کو نظر بھی نہیں آ رہے۔ شوگر مافیا کی حد تک کچھ افراد دال دلیا کر رہے ہیں لیکن اگر ہم سے ان کی تفصیلات طلب کی جائیں تو ہم انہیں چھپائیں گے نہیں کیونکہ اگر چھپائیں بھی تو خود احتسابی اداروں نے ان کا سراغ لگا لینا ہے جبکہ ویسے بھی وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اور ہم بھی حکومت کے بجائے اپوزیشن کی جگہ لے سکتے ہیں کیونکہ یہاں کوئی بھی جگہ مستقل نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں نجی ٹی وی پروگرام میں خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
خواجہ آصف کو رہا نہ کیا تو حالات خراب ہو سکتے ہیں: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''خواجہ آصف کو رہا نہ کیا گیا تو حالات خراب ہو سکتے ہیں‘‘ جو کہ پہلے ہی خاصے دگرگوں ہو چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی والوں نے استعفوں سے انکار کر کے پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے جس کی تاب نہ لاتے ہوئے یہ تقریباً قریب المرگ ہو چکی ہے اور ان کے اس اعلان سے پی ڈی ایم قیادت کی طبیعت خراب ہو گئی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ اب ساری بلکہ باقی بچی کھچی پی ڈی ایم مجھے ہی چلانا پڑے گی جب تک مجھے بھی ''سیاسی انتقام‘‘ کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
غربت کے ذمہ دار عوام کا نام لیتے ہوئے شرم کریں: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے کہا ہے کہ ''عوام کی غربت کے ذمہ دار عوام کا نام لیتے ہوئے شرم کریں‘‘ کیونکہ غربت کی جتنی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے‘ ہم اسی تناسب سے شرمندگی محسوس کر رہے ہیں اس لیے غربت کی جتنی ذمہ دار اپوزیشن ہے، اسے بھی اسی تناسب سے شرم کرنی چاہیے؛ تاہم ہمیں کرنے کو اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں اس لیے اس ہم اس ضمن میں زیادہ انصاف نہیں کر سکتے،اس لیے ہمارے تھوڑے کو ہی عوام کافی سمجھیں جبکہ ویسے بھی‘ ہمارے ہاں حکومتوں میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کی روایت کا کچھ ایسا رواج نہیں ہے جبکہ ہم فرسودہ رسوم و رواج کے ویسے بھی زیادہ قائل نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ٹویٹ پیغامات نشر کر رہے تھے۔
مذاکرات کا وقت گزر چکا‘ وقتِ حساب قریب : نیّر بخاری
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیّر بخاری نے کہا ہے کہ ''مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے، وقتِ حساب قریب ہے‘‘ جبکہ ہم تو کافی حساب دے بھی چکے ہیں لیکن اسے کافی نہیں سمجھاجاتا اورھل من مزید ہی کی رٹ لگائی جاتی ہے حالانکہ لالچ بری بلا ہے اور آدمی کو اس سے گریز کرنا چاہیے اور جو کچھ مل جائے اسی پر قناعت کر لینی چاہیے جبکہ زرداری صاحب اس سلسلے میں کافی فیاضی کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور اگر مذاکرات میں انتقامی کارروائیاں شامل نہ ہوں تو ان مذاکرات کا کسی نے کیا کرنا ہے؟ خدا لگتی بات بھی یہی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں یاسمین سحرؔ کی یہ غزل
دھواں اڑاتی ہوئی دھیمی دھیمی بارش ہے
ہوا کی اندھی سواری پہ اندھی بارش ہے
ہمارے گائوں کے رستوں کی کچی مٹی پر
پھسل رہے ہیں قدم، کتنی گندی بارش ہے
ذرا سی کھول کے کھڑکی نظر تو دوڑائو
دکھائی دیتی نہیں، اچھی خاصی بارش ہے
نکلتے وقت اٹھائی نہیں گئی چھتری
میری سہیلی مجھے کہہ رہی تھی بارش ہے
ہمارے آنے میں تاخیر ہو بھی سکتی ہے
یہ دیکھ کر یہی لگتا ہے جتنی بارش ہے
مذاکرات زمیں کر رہی ہے دھوپ کے ساتھ
کہیں پہ دیکھی‘ سنی تم نے اتنی بارش ہے
تمام سبز رُتیں آ کے کر رہی ہیں سلام
ہمارے شہر میں موسم کی پہلی بارش ہے
ٹھٹھرتے پانی میں سانسوں کا نم ملاتے ہوئے
ندی میں چاند کے ہمراہ نہاتی بارش ہے
نمی اسی کی ملی ہے مہکتے پھولوں کو
کرن کرن میں گھلی جو گلابی بارش ہے
میں فلم کے کسی منظر پہ بات کر رہی ہوں
دکھائی جا رہی جس میں برستی بارش ہے
تمام خواب مرے مل گئے ہیں مٹی میں
تمام شب مری آنکھوں میں جاگی بارش ہے
ہوا کی شہ پہ ہی پھرتی ہے دندناتی ہوئی
ہمارے چاروں طرف سرپھری سی بارش ہے
میں گاڑی روک کے سیلفی بنا رہی ہوں سحرؔ
مگر ابھی بھی یہاں ہلکی ہلکی بارش ہے
آج کا مقطع
وہ نوکِ تیغ پہ رکھ لائے تھے‘ ظفرؔ‘ دستار
قبول کر کے ہی آخر بچا ہے سر میرا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved