تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     01-01-2021

جماعت اسلامی: باپ کے نام بیٹے کا مکتوب

گزشتہ دنوں ہم نے ایک کالم بعنوان ''جماعت اسلامی کا پی ڈی ایم سے کیا اختلاف ہے‘‘ لکھا۔ اس کالم پر بلامبالغہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے سینکڑوں میسجز اور کالیں آئیں۔ بہت سے قارئین نے میرے نقطۂ نظر سے اتفاق کیا تاہم مجھ سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔ یہ سب کے سب وہ لوگ ہیں جو جماعت اسلامی کی دیانت و امانت سے بڑی بلندوبالا امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ خود میرا اپنا شمار بھی اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو جماعت اسلامی کو اس ملک کے دیرینہ مسائل‘ جن میں بدعنوانی، ناانصافی، ناخواندگی، کمسن بچیوں کے ساتھ درندگی اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم جیسے معاملات شامل ہیں‘ سے حقیقی نجات کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔ میرے کالم کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے کے پیش نظر ابھی تک ووٹروں کی اکثریت براہِ راست جماعت اسلامی کی طرف راغب نہیں لہٰذا جماعت کو اُس وقت تک سیاسی اتحادوں کو حصولِ منزل کا ذریعہ بنانا چاہئے جب تک کہ جماعت اسلامی کی پرفارمنس دیکھ کر خلق خدا متوجہ نہیں ہو جاتی۔ نیز ان دنوں موجودہ حکومت کی پالیسیوں، بڑھتی ہوئی مہنگائی، ناقابل برداشت بجلی و گیس کے بلوں پر پی ڈی ایم اور جماعت اسلامی کی شدید تنقید میں کوئی خاص فرق نہیں‘ اس صورتحال میں اس سے نجات حاصل کرنے کی اجتماعی سیاسی کوشش کا جماعت اسلامی کو بھی حصہ بننا چاہئے۔ ہمارے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں میں میرا اپنا بیٹا ڈاکٹر بلال حسین بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر بلال کی تحریر چونکہ جماعت اسلامی سے محبت و عقیدت رکھنے والے نوجوانوں کی نمائندگی کر رہی ہے اس لیے ڈاکٹر صاحب کی خواہش پر اسے یہاں من و عن نقل کر رہا ہوں۔ 
محترم ڈاکٹر حسین احمد پراچہ صاحب، السلام علیکم
بے شک ہم آپس میں کسی تعارف، تکلف اور خط و کتابت کے تو محتاج نہیں۔ خاکسار اپنے بچپن اور آپ کے زمانۂ شباب سے ہی آپ کا قاری، مداح اور نقاد بھی رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر ظاہر ہے کہ آپ کا فرزند ہونا ہی میرے لیے باعثِ فخر ہے۔ آپ نے ہمیشہ ہمیں اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کی اجازت اور حوصلہ دیا ہے مگر سیاسی حالات پر آپ کی تحریروں کے حوالے سے خاکسار کی زبانی کلامی اور اختلافی درخواستوں اور تجاویز کو تو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا چنانچہ تحریر کا سہارا لیتے ہوئے آپ کے کالم ''جماعت اسلامی کا پی ڈی ایم سے کیا اختلاف ہے‘‘ کے بارے میں انتہائی ادب و احترام سے کچھ اختلافی اظہارِ خیال پیش کرنے کی جرأت کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ اس جسارت اور آپ کے کالم کی تنگیٔ داماں کے باوجود وہاں یہ مکتوب پورے کا پورا جگہ پانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ 
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
آپ کے اس کالم اور مرحوم ایم ایم اے کے حوالے سے کئی گزشتہ کالمز کا لب لباب دو باتیں دکھائی دیتی ہیں۔ نمبر1: ''پی ڈی ایم‘‘ اس وقت مولانا فضل الرحمن کی قیادت اور مریم نواز اور بلاول بھٹو کی سیادت میں جمہوریت کی اصل جدوجہد میں سرگرداں ہے اور جو ان کے ساتھ نہیں کھڑا ہو گا وہ گویا 
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں۔نمبر2: جماعت اسلامی کے پاس سوائے کسی بھی اتحاد میں جانے کے، انتخابی اور سیاسی میدان میں زندہ رہنے اور اپنے آپ کو منوانے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ سب سے پہلے انتہائی مختصراً ''پی ڈی ایم‘‘ اور ان کی ''جدوجہد‘‘ کے بارے میں کچھ عرض ہے۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں (مگر اعتراف نہیں فرماتے)۔ میرے خیال میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی نوجوان قیادت غیرمنتخب ہے اور انہیں موروثی طور پر یہ منصب حاصل ہو گئے ہیں۔ جب وہ خود جمہوری طور پر اپنی پارٹی میں منتخب نہیں ہوئے تو وہ کس طرح سے جمہوریت کے دعویدار بن کر یہ احتجاجی تحریک چلا رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ تحریک اسی طرح غیرجمہوری ہے جس طرح عمران خان کا 2014ء میں لایعنی اور غیرجمہوری دھرنا تھا۔ اس تحریک کے کامیاب ہونے‘ سینیٹ میں پی ٹی آئی کا راستہ روکنے اور حکومت گرانے کا واحد آئینی راستہ یہی ہے کہ پی پی پی سندھ حکومت کو قربان کرے‘ وہاں کی اسمبلی توڑے اور ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) تمام اسمبلیوں سے استعفیٰ دیں اور پھر دمادم مست قلندر کر کے میدان میں اتر آئیں‘ مگر مکافاتِ عمل کے تحت ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ 2007ء میں آج کے ''بابائے جمہوریت‘‘ اور اسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے ناقد مولانا فضل الرحمن نے وردی اتارنے کے بارے میں قاضی حسین احمد کے ساتھ طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے دوبارہ باوردی صدر منتخب ہونے کی راہ ہموار کی۔ دوسری طرف بالفرض اگر یہ حکومت گر بھی جائے تو اس سے سوائے عمران خان کی نااہلی پر پردہ پڑنے اور ان کے مظلوم بننے کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ 
اب آتے ہیں جماعت اسلامی کی طرف۔ 1970ء کے انتخابات میں پہلی مرتبہ جماعت اسلامی نے بطور ایک سیاسی پارٹی کے مولانا مودودی کی قیادت میں انتخاب میں بھرپور حصہ لیا‘ مگر پھر چالیس سال گزر گئے دوبارہ جماعت اسلامی کو اپنے بل بوتے پر انتخابی اکھاڑے میں اترتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ 2013ء میں جماعت اسلامی نے اپنی قوتِ بازو پر انحصار تو کیا مگر انتہائی بے دلی اور کے ساتھ۔ پھر 2018ء میں دوبارہ ایم ایم اے کے ساتھ مل کر جماعت اسلامی نے انتخاب میں حصہ لیا۔ ہم آپ کی وساطت سے جماعت اسلامی کے ہمدرد ہونے کی حیثیت سے کچھ تجاویز پیش کر رہے ہیں۔
(1) بلاشبہ اب وقت آگیا ہے جماعت کا اپنی شناخت اور اپنی پہچان کو منوائے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ضرور کرے مگر کسی اتحاد میں شامل ہو کر اپنے نظریات سے دست بردار ہو اور نہ ہی اپنے آپ کو گم گشتہ کرنا قبول کرے؛ تاہم ایسا محض خواہشات سے ممکن نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے عملی اور دور رس اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی۔(2) جماعت کو بطور تحریک دوسروں کو راستہ دکھانا چاہئے اور پامال راستوں پر گامزن ہونے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ (3) جماعت کی اصل طاقت اس کی گراس روٹ لیول کامیابی ہے جو صرف اور صرف بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ ترکی کے طیب اردوان اور احمدی نژاد بھی بلدیاتی خدمت کے ذریعے ہی قومی سطح پر نمایاں ہوئے تھے‘ مگر مقامِ حیرت ہے کہ موروثی سیاسی پارٹیاں تو بلدیاتی انتخاب سے خوفزدہ ہوں کہ نیچے سے کوئی لیڈرشپ اوپر نہ آجائے مگر جماعت اسلامی بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے نہ کوئی بھرپور مطالبہ کر رہی ہے اور نہ اس کے لیے اس کی تیاری نظر آتی ہے۔(4) ہر ہر حلقے صوبائی یا قومی، جہاں پر جماعت اسلامی کے کچھ بھی ووٹ ہیں وہاں پر ابھی سے اگلے دس سال یا کم از کم دو انتخابات کے لیے امیدواران نامزد کرکے ان کو مکمل اختیارات اور موقع دینا چاہئے تاکہ وہ الیکشن کی تیاری کریں اور پھر مذکورہ سیٹیں جیت کر دکھائیں۔(5) پی ٹی آئی ایک عارضی پارٹی ہے اور عمران خان ایک وقتی لیڈر ہیں۔ وہ آج ہیں اور کل نہیں ہوں گے‘ مگر ان کی کامیابی اُس خاموش اکثریت کو گھروں سے نکالنا اور انہیں میدانِ سیاست میں لانا تھی جو سابقہ دونوں پارٹیوں سے بیزار اور نالاں تھی۔ جماعت اسلامی کو ان میں سے بھی بڑی تعداد میں سنجیدہ فکر لوگ مل سکتے ہیں جنہیں وہ اپنا طرفدار بنانے کے لیے منصوبہ بندی کر سکتی ہے۔ جماعت اسلامی جناب عمران خان کو برا بھلا کہہ کر نہیں سینیٹر سراج الحق صاحب کی قیادت میں بھرپور مہم چلا کر اپنے آپ کو تیسری قوت منوا سکتی ہے۔ 
(ڈاکٹر بلال حسین)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved