تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     02-01-2021

2020 میں عالمی سیاست …(2)

صدر ٹرمپ چین کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لئے ذمہ دار قرار دیتے رہے۔ وہ کورونا وائرس کو 'چینی وائرس‘ کا نام دیا کرتے تھے۔ امریکہ چین مخاصمت کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ برس امریکہ نے ٹیکساس اور ہیوسٹن میں واقع چین کے قونصل خانے بند کروا دیئے تھے۔ اس کے رد عمل میں چین نے جولائی میں چینگدو میں امریکی قونصل خانہ بند کرا دیا تھا۔ امریکہ اور چین کی یہ مخاصمت پچھلا پورا سال چلتی رہی۔ 
بحیرہ جنوبی چین میں چین کی موجودگی اور ایشیائی ریاستوں میں اس کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ نے بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر سکیورٹی انتظامات کی منظوری دی۔ امریکہ عالمی اقتصادی رابطے کے حوالے سے وضع کئے گئے چین کے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ کے بارے میں تحفظات کا اظہار بھی کر چکا ہے۔ امریکہ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کی مخالفت کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان سارے اقدامات کے باوجود امریکہ عالمی سطح پر چین کی سیاسی اور معاشی سرگرمی کو روک نہیں سکا۔ دوسری جانب چین ایشیا اور افریقہ میں امریکہ مخالف رجحانات کو تقویت دینے کی کوششوں میں روس کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ چین گزشتہ برس نومبر‘ دسمبر میں چاند پر اپنا خلائی جہاز (چانگ 5) اتارنے اور وہاں سے مختلف نوعیت کے نمونے لانے میں کامیاب رہا۔
روس شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے پاکستان، ایران اور ترکی سمیت ایشیا کے متعدد ممالک کے ساتھ دو طرفہ روابط کے ذریعے بین الاقوامی سیاست میں اپنے خود مختارانہ کردار کو بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ روس کے داخلی تناظر میں ایک اہم اور دلچسپ پیش رفت یہ ہوئی کہ 25 جون تا یکم جولائی آئینی ترامیم کے لئے ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا‘ جس میں صدر ولادیمیر پوٹن کو 2024 میں اپنی موجودہ چھ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد دو مزید ٹرموں کے لئے صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ پوٹن روس میں بطور قائم مقام صدر، صدر اور وزیر اعظم 1999 سے برسر اقتدار ہیں۔ وہ 2000 تا2008 اور پھر 2012 سے تاحال روس کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 2008 تا 2012 وہ روس کے وزیر اعظم کے طور پر کام کرتے رہے۔ 
برطانیہ نے 31 جنوری 2020 کو باضابطہ طور پر یورپی یونین کو چھوڑ دیا۔ یورپی یونین کے ساتھ تجارت کی شرائط طے کرنے میں گیارہ ماہ لگے۔
امریکہ میں صدر ٹرمپ فروری میں سینیٹ میں مواخذے سے بمشکل بچے۔ وہ مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنے والے تیسرے امریکی صدر بن گئے۔ 26 مئی کو امریکی ریاست منیاپولس میں پولیس کے بہیمانہ سلوک کی وجہ سے ایک افریقی امریکی، جارج فلائیڈ کی موت ہو گئی تھی‘ جس کے بعد امریکہ کے متعدد شہروں‘ برطانیہ اور یورپ کے کچھ ممالک میں نسلی بنیاد پر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
امریکی تاریخ میں پہلی بار، ایک موجود صدر (ڈونلڈ ٹرمپ) نے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپنی شکست قبول کرنے سے انکار کر دیا؛ تاہم انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دینے کے عدالتی احکامات کے حصول کے لئے ان کی کوششیں بری طرح ناکام ہو گئیں۔ انہوں نے اب تک جو بائیڈن کی انتخابی فتح کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا اور وہ 20 جنوری 2021 کو نومنتخب صدر کو صدارتی پوزر کی منتقلی ملتوی کرنے کے لئے کسی بہانے کی تلاش میں ہیں۔
سالِ گزشتہ ایران امریکہ تعلقات مشکلات کا شکار رہے کیونکہ ٹرمپ اکثر ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا سوچا کرتے تھے لیکن پیشہ ورانہ مشوروں پر ایسا نہ کر سکے۔ امریکی ڈرونز نے جنوری میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو اس وقت قتل کر دیا جب وہ دورے پر بغداد پہنچے تھے۔ نومبر میں اسرائیل اور امریکہ کے مشترکہ آپریشن کے تحت تہران میں ایک اعلیٰ ایرانی جوہری سائنسدان کو قتل کر دیا گیا۔ جولائی 2020 میں ایران اور چین نے طویل المیعاد سٹریٹیجک شراکت داری پر اتفاق کیا اور ایران نے بھارت کو چابہار‘ زاہدان ریلوے منصوبے سے خارج کر دیا۔ ایران نے سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا کئی بار اعادہ کیا۔ امریکہ نے ایران اور لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔
مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی سب سے بڑی کامیابی اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے تعلقات کو معمول پر لانا تھا۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعامل کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے حوالے سے امریکی دباؤ کی مزاحمت کی۔ دو ممالک داخلی تنازعات کا شکار رہے۔ یہ شام اور یمن ہیں۔ یمن کی جنگ سعودی عرب کے لئے مہنگی ثابت ہوئی۔ ترکی مشرق وسطیٰ‘ خاص طور پر شام میں خانہ جنگی کے معاملے میں سفارت کاری میں سرگرم کردار ادا کرتا رہا۔ اس نے روس سے میزائل سکیورٹی سسٹم حاصل کیا جس نے امریکہ کو مشتعل کردیا۔
افغانستان سے ایک اچھی اور ایک بری خبر آئی۔ خوشخبری یہ تھی کہ امریکی اور افغان طالبان نے 29 فروری کو دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کیے۔ کچھ تاخیر کے بعد طالبان اور کابل حکومت کے مابین مذاکرات کا آغاز 12 ستمبر کو ہوا۔ بری خبر یہ ہے کہ مذاکرات کی بحالی کے بعد بھی افغانستان میں تشدد میں کمی نہیں آئی۔ افغانستان میں مستقبل کے سیاسی انتظامات کی تفصیلات پر کابل حکومت اور طالبان کے مابین شدید اختلافات پائے جاتے ہیں؛ تاہم دونوں فریقوں کے ساتھ ساتھ بڑی طاقتیں اور پاکستان سیاسی تصفیہ پر پہنچنے کے لئے بات چیت کے تسلسل کے حق میں ہیں۔ 2020 میں امریکی فوج نے افغانستان سے کچھ فوجی دستے واپس بلا لئے‘ اور توقع کی جا رہی ہے کہ افغانستان میں امن کا کوئی قابل اعتماد معاہدہ ہوا تو 2021 میں امریکہ کے جنگی فوجیوں کا مکمل انخلا ہو جائے گا۔
گزشتہ برس مئی تا جولائی لداخ کے علاقے میں لائن آف ایکچول کنٹرول کے مختلف مقامات پر چینی فوج کے ساتھ مقابلے میں بھارتی فوجیوں کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ستمبر میں چین اور بھارت نے اپنی فوجوں کو پیچھے ہٹانے پر اتفاق کر لیا‘ لیکن ان کے مابین سرحدی کشیدگی برقرار ہے۔ اکتوبر میں بھارت اور امریکہ نے فوجی ٹیکنالوجی، مصنوعی سیارہ کے ڈیٹا اور اہم معلومات کو شیئر کرنے کے حوالے سے ایک فوجی معاہدے پر دستخط کیے۔ زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور بھارت نے یہ معاہدہ چین کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا۔ بھارت میں شہریت ایکٹ اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کے خلاف سڑکوں پر جو احتجاج دسمبر 2019 میں شروع ہوا تھا، وہ2020 میں بھی جاری رہا۔ دہلی میں 2020 کے دوران شدید مسلم مخالف ہنگامے ہوتے رہے۔ ان معاملات کے باعث بھارت بنگلہ دیش تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات 2020 میں بھی تناؤ کا شکار رہے کیونکہ بھارت پاکستان کو ایک مکمل جنگ کی سطح سے نیچے فوجی دبائو میں رکھنے کیلئے باقاعدہ حکمت عملی کے تحت کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پار فائرنگ اور گولہ باری میں مصروف رہتا ہے۔ بھارت کی پاکستان کے خلاف پراکسی میڈیا وار گزشتہ برس یورپ میں بے نقاب ہوئی ہے۔ گزشتہ سال ایک تنازع جس نے عالمی توجہ اپنی طرف کھینچی‘ آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین ستمبر تا نومبر نگورنو کاراباخ مسئلے پر جنگ تھی۔ آذربائیجان نے اپنے دعویدار علاقے کو دوبارہ حاصل کرنے کے بعد روسی سفارت کاری کے ذریعے یہ امن بحال کیا۔ اس تنازعہ میں پاکستان نے آذربائیجان کو سفارتی مدد فراہم کی۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved