چند روز ہوئے‘ وزیراعظم ہائوس میں ہونے والے ایک خصوصی اجلاس میں ''ای یو ڈس انفو لیب‘‘ کی تحقیقاتی رپورٹ کے نتیجے میں ''سری واستو‘‘ کی دریافت کے بعد سامنے آنے والے حقائق پر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے سوچ بچار کی گئی‘ جو خوش آئند اقدام ہے کہ حکومت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا۔کلبھوشن یادیو کے بعد‘ پاکستان کو بھارت کا مکروہ‘ جھوٹا اور پُرفریب چہرہ دنیا کو دکھانے کا جوسنہری موقع ملا ہے‘ دفتری کارروائیوں اور متعلقہ وزارت کی عمومی سستی سے اسے نظر انداز کر دیا گیا یا اس میں دیر کی گئی تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے ہاتھ سے یہ سنہری موقع بھی نکل جائے کیونکہ بھارت ''انڈین کرونیکلز‘‘ کے نام سے سامنے آنے والی رپورٹ کے بعد دنیا بھر کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔ اگر بھارت کو ایسا کوئی بھی موقع ملا ہوتا تو اس نے دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف طوفان برپا کر دینا تھا۔ جتنا وقت پاکستانی حکومت بھارت کے خلاف بین الاقوامی فورم پر مہم چلانے میں ضائع کرے گی‘ اتنا ہی بھارت موقع سے فائدہ اٹھائے گا اور بھارت کی بدنام خفیہ ایجنسیاں 'کرک مندر‘ جیسی وارداتیں کراتی چلی جائیں گی تاکہ پاکستان میں اقلیتوں پر ظلم کے حوالے سے نیا پروپیگنڈا محاذ گرم کر سکے اور پاکستان بھارت کے خلاف شواہد دنیا کے سامنے لانے کے بجائے بیک فٹ پر چلا جائے۔ اس لئے پاکستان کی خارجہ و اطلاعات کی وزارتوں اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے محب وطن اور زیرک اراکین کو اس ضمن میں آگے آنا چاہیے اور بین الاقوامی فورمز، پارلیمانوں، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی ہر یونیورسٹی، تھنک ٹینک، انسانی حقوق سے متعلق اداروں اور تنظیموں کے علاوہ اقوام متحدہ کے برسلز اور جنیوا سمیت نیو یارک میں واقع دفاتر میں بھی اس تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں بھارت کا مکروہ چہرہ دکھاتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی جائے کہ ''سری واستو گروپ‘‘ کی آڑ میں بھارت کے دنیا بھر کو دھوکا دینے کے گھٹیا اور شرمناک عمل کی مذمت کرتے ہوئے تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ میرے خیال میں وزیراعظم آفس کو کفایت شعاری مہم ایک طرف رکھتے ہوئے‘ وسیع پیمانے پر باقاعدہ مہم کا آغاز کرنا چاہیے اور اس کیلئے کثیر بجٹ منظور کرنا چاہیے۔ بھارت کو پوری طرح بے نقاب کرنے کیلئے پاکستان بھر سے انتہائی معتبر پروفیسرز، سکالرز اور سینئر میڈیا ورکرز اور وکلا کی ٹیمیں دو درجن سے زائد ممالک میں بھیج کر ای یو ڈس انفو لیب کی کئی سال کی کوششوں اور محنت سے بھارت سرکار کے فراڈ اور دھوکا بازی کے پردے چاک کرتی ہوئی انڈین کرونیکلز رپورٹس کی بھرپور تشہیر کرنا ہو گی۔
امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک کی مشہور یونیورسٹیوں کے طلبہ، سول سوسائٹی، تھنک ٹینک، میڈیا اور دنیا بھر کے سفارت کاروں کو پروپیگنڈا گروپ سری واستو کی فریب کاریوں کی ہر ایک دستاویز دکھاتے ہوئے بتایا جائے کہ بھارتی حکومت گزشتہ پندرہ برسوں سے پاکستان کا امیج تباہ کرنے‘ یورپ کی نئی نسل کی نظروں میں اسے بدنام کرنے‘ اس کے سافٹ امیج کو دہشت گرد اور انتہا پسند ریاست اور اس کے اداروں سے متعلق بے بنیاد پروپیگنڈا کرنے کے لیے ہر غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکت کی مرتکب ہوتی رہی ہے۔ مشہور شخصیات اور انسان دوست کی حیثیت سے جانی جانے والی اہم مردہ شخصیات‘ یورپی ممالک کے وزرا اور سپیکرز کے جعلی ناموں اور بے نامی تنظیموں کے ذریعے لگائے جانے والے تمام الزامات اور جھوٹی کہانیوں، میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے بتانا ہو گا کہ یہ تمام جھوٹ اور خود ساختہ کہانیاں، وڈیوز بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے جعلی طور پر تیار کی تھیں اور اس گھٹیا، پُرفریب اور شرمناک حرکت کا حوالہ دیتے ہوئے مطالبہ کرنا ہو گا کہ بھارت کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرایا جائے کیونکہ کوئی ایک شخص یا ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک ریاست دنیا سے رخصت ہو جانے والی شخصیت کے نام کو پندرہ برس تک استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور چین کے خلاف جھوٹ اور فریب کا پرچار کرتی رہی ہے۔ بدنام زمانہ را کا دھوکا اور فراڈ دیکھئے کہ 2006ء میں دنیا سے رخصت ہو جانے والے پروفیسر لوئس بی سوہن کے نام کو استعمال کرتے ہوئے چین اور پاکستان کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جعلی اور بے بنیاد رپورٹس شائع کرائی گئیں‘ ان کے نام سے تیار کردہ جعلی مضامین مختلف رسائل اور میگزینز میں شائع کرائے گئے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے بارہ سے زائد ایسی این جی اوز‘ جو اپنا وجود ختم کر چکی تھیں‘ کے ناموں کو جعل سازی سے زندہ کرتے ہوئے‘ بے بنیاد دستاویزات اور وڈیوز تیار کراتے ہوئے عوامی ذہنوں کو پاکستان کی شناخت سے متنفر کرنے کیلئے استعمال کیا۔ اس فریب اور دھوکا دہی سے دنیا بھر میں پاکستان کے تشخص کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا‘ اس کیلئے پاکستان کو وقت ضائع کئے بغیر بھارت کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا اور بھارت کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کرنا ہو گا، اس میں کسی قسم کی سستی کئے بغیر پاکستان کی وزارت قانون کو جلد ہی عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
غضب خدا کا! بھارت کی مکاری اور دیدہ دلیری دیکھئے کہ پاکستان کے خلاف ٹویٹس اور خبریں دینے کیلئے یورپی پارلیمنٹ کے سابق صدر مارٹن شلز اور برطانوی حکومت کے انتہائی اہم وزیر جیمز Puenell کی شناخت چرانے سے بھی باز نہ آیا۔ رپورٹ دیکھنے کے بعد عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ بھارت کی خباثت سے دنیا کی انتہائی مشہور اور معتبر سمجھی جانے والی نجانے کتنی شخصیات کی شناخت چرا کر یہ دھوکا اور فریب کیا جاتا رہا ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز اکنامک اینڈ سوشل کونسل (ECOSOC) جو 1970 میں منجمد ہو گئی تھی‘ اسے 2005ء میں بھارت کے پروپیگنڈا سیل نے چپکے سے دوبارہ ایکٹیو کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا، پاکستان کے خلاف جھوٹ اگلنے کے لیے اقوام متحدہ کے متروک ادارے کا نام استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ اقوام عالم سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ کیا بھارت کا یہ اقدام اقوام عالم کے ساتھ کھلا دھوکا اور فراڈ نہیں؟ کیا اقوام متحدہ کو اپنے کسی ادارے کے غیر قانونی استعمال پر بھارت کے خلاف کارروائی نہیں کرنی چاہیے؟ کیا دنیا کا کوئی بھی قانون کسی شخص‘ کسی ادارے‘ کسی تنظیم یا کسی ملک کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اس کے نام کا جعلی اور غیر قانونی استعمال کر سکے؟ کوئی ایسی تنظیم، ادارہ یا اخبار‘ جو اپنا وجود ختم کر چکا ہو یا وہ شخصیات‘ جو اب اس دنیا میں نہیں رہیں‘ کے نام کو استعمال کرنے والا اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت کا خواب دیکھ سکتا ہے؟ یورپین آرگنائزیشن برائے پاکستانی اقلیتیں (EOPM)، بلوچستان ہائوس اور سائوتھ ایشیا ڈیمو کریٹک فورم (SADF) جیسی جعلی تنظیمیں سری واستو کی ہی جنم دی ہوئی ہیں‘ جن کے ناموں سے بلوچستان کی صورتحال کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا اور ظلم و ناانصافی کی فرضی کہانیاں گھڑی گئیں۔ اسی طرح کی ایک تنظیم ''کینرز انٹرنیشنل پرماننٹ کمیٹی (CIPC) کا کمال دیکھئے کہ بنیادی طور پر اس کا تعلقCanning Industry سے ہے لیکن اس کا استعمال بھارت اس دیدہ دلیری سے کرتا کہ جنیوا میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو اپنے اخراجات پر اقوام متحدہ کے دفاتر بھیج کر ان سے پاکستان کے خلاف احتجاج کراتا بلکہ یہاں تک کہ ان جعلی این جی اوز اور ہیومن رائٹس تنظیموں کے ذریعے یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کو مقبوضہ کشمیر بھیجا جاتا تاکہ ان کے ذریعے دنیا کو بتایا جا سکے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہر طرح کا امن و امان ہے اور بھارتی افواج اور سکیورٹی اداروں سے متعلق پاکستان غلط بیانی کرتا ہے۔دنیا بھر میں اپنی سچائی اور بھارتی پروپیگنڈے اور فراڈ سے پاکستان کے گہنائے گئے روشن چہرے کو پھر سے دنیا میں اپنا تشخص دلانے کیلئے بھارت کے اس صدی کے سب سے بڑے فراڈ سے دنیا بھر کو آگاہ کرنے کیلئے ہمارے تمام سفارتخانوں کو اوورسیز پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ متحرک کرنا ہو گا۔ گزشتہ پندرہ برسوں سے بھارت نے پاکستان کے خلاف جھوٹ اور پروپیگنڈے کے ذریعے جو نفرت پھیلائی ہے‘ اسے اس حرکت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔