جب پہلی بار مصحف علی میر شہید کو ایف سولہ اڑاتے دیکھا اور جب وہ پنڈال میں واپس آئے‘ تالیوں کے شور میں ان کا بھرپور استقبال کیا گیا‘ اس دن سے ایئر فورس سے ایک انسیت سی ہوگئی ہے۔ یونیفارم کی گریس‘ طیاروں کی گھن گرج اور وہ جہاز کو عمودی سمت میں اڑانا... مصحف علی شہید میری زندگی کے پہلے ہیرو تھے۔ دلیر‘ بے خوف‘ مشاق پائلٹ۔ وہ اس وقت پاک فضائیہ کے سربراہ بھی تھے۔ سکول میں ایئر فورس اور جنگی طیاروں پر آرٹیکل لکھتی اور کبھی کبھی جہاز کا سکیچ بنانے کی بھی کوشش کرتی لیکن میری ڈرائنگ اتنی اچھی نہیں تھی۔ اپنے والدین سے فرمائش کرتی کہ مجھے فلائی پاسٹ میں جانا ہے۔ وہ میری فرمائشیں پوری کرتے۔ اس کے علاوہ بھی جب طیارے اڑان بھرتے‘ میں ٹیرس سے ان کو دیکھتی اور گھنٹوں ان کا انتظار کرتی۔ یہ حال میرا اب بھی ہے اور ایئر فورس کے جہاز دیکھ کر بچپن پھر سے باہر آ جاتا ہے۔ اسی طرح جب پہلی بار جے ایف 17 تھنڈر کو دیکھا تو کوشش کی کہ اپنے کیمرے میں اس کو قید کر لوں لیکن طیارے پلک جھپکتے میں گزر گئے۔
جب مسلح افواج کی پریڈ دوبارہ سے شروع ہوئیں تو میں ڈی ایس ایل آر لے کر فائن پارک میں پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کی فوٹو گرافی کے لیے جاتی، تب تک میری فوٹو گرافی میں قدرے نکھار آ چکا تھا۔ جنگی جہاز میرے شہر آئیں اور میں فوٹوگرافی نہ کروں‘ ایسا ممکن نہیں۔ ایک بار فوٹو گرافی کرتے ہوئے جے ایف 17 تھنڈر نہایت قریب سے گزرے تو طیارے پر لگا ساز و سامان میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اسی دوران انہوں نے سائونڈ بیریئر توڑا، میں اس صورتحال کیلئے تیار نہیں تھی‘ مجھ سے کیمرہ گر گیا اور لینز ٹوٹ گیا؛ تاہم میں نے دوسرا لینز لگا کر فوٹوگرافی جاری رکھی۔ نیا لینز خاصا مہنگا پڑا لیکن شوق کا کوئی مول نہیں۔ اسی طرح 2017ء میں پاک فضائیہ کے ایئر شو کی فوٹوگرافی کیلئے جاتے ہوئے میری گاڑی کو حادثہ پیش آ گیا، جہاز پہنچنے کا وقت ہو چلا تھا، میں نے دوسری گاڑی کے مالک سے کہا کہ جو بھی آپ کی گاڑی کا نقصان ہوا ہے‘ میں وہ پورا کر دوں گی‘ بس پہلے طیاروں کی تصاویر کھینچ لوں، اس پر وہ سب لوگ بھی مسکرانے لگے جو حادثے کی وجہ سے وہاں جمع ہوئے تھے۔
ایئرفورس سے عقیدت ہے اور اپنے ملک کے دفاعی اثاثوں سے پیار ہے، بالخصوص جے ایف 17 تھنڈر مجھے بہت پسند ہیں۔ یہ طیارے پاک چین دوستی کا لازوال ثبوت ہیں۔ دونوں ممالک کی مشترکہ کاوش سے تیار ہونے والے ان طیاروں کی دھاک اب پورے خطے میں بیٹھ چکی ہے۔ یہ جب بھی فضائوں کا سینہ چیر کر گزرتے ہیں تو خوشی اور فخر کی وہ کیفیت ہوتی ہے جو بیان سے باہر ہے۔ ان طیاروں نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ اب پاکستان نائیجیریا، میانمار اور دوسرے ممالک کو یہ طیارے فراہم کرنے جا رہا ہے بلکہ نائیجیریا کو یہ طیارے فروخت کیے جا چکے ہیں اور اِس وقت اُن کے پائلٹ پاکستان میں ٹریننگ لے رہے ہیں۔ ملائیشیا نے بھی ان طیاروں کے خریدنے میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ملائیشیا کے وزیراعظم جب پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو ان کو جے ایف 17 تھنڈر طیاروں پر خصوصی بریفنگ دی گئی تھی اور انہوں نے پاکستان کے فخر ان جہازوں کا خصوصی معائنہ کیا تھا جبکہ پاکستان کو دفاعی نمائش میں شرکت کی دعوت بھی دی تھی۔ اِس کے علاوہ آذربائیجان، ترکی، ارجنٹائن سمیت 15 ممالک اس وقت جے ایف 17 تھنڈر کی خریداری کے خواہاں ہیں۔ پیرس ایئر شو میں شرکت کے بعد اور متحدہ عرب امارات و ترکی میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے بعد عالمی مارکیٹ میں جے ایف 17 تھنڈر نے اپنی خوب دھاک بٹھا دی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ پیسوں کی ادائیگی کی باوجود امریکا نے پریسلر ترمیم کے بعد ہمیں ایف سولہ طیارے فروخت کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اس کا جواز پاکستان کا ایٹمی پروگرام بتایا گیا تھا، جس کی وجہ سے پاکستان پر پابندیاں لگا دی گئی تھیں؛ تاہم یہ پابندیاں ہی ہمیں خودکفالت کی طرف لے گئیں۔ اس کے بعد سے پاکستان نے اپنی دفاعی خریداری کی حکمت عملی تبدیل کی‘ بینظیر بھٹو کے دور میں معاہدہ ہوا اور چین اور پاکستان نے مشترکہ طور پر جے ایف 17 تھنڈر کی پروڈکشن کی جانب قدم بڑھایا۔ یوں خطے کی دفاعی تاریخ بدل گئی۔جے ایف 17 تھنڈر کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ ملٹی رول کومبیٹ طیارہ ہے اور 2003ء میں اس کی پہلی آزمائشی پرواز کی گئی۔ یہ طیارہ چنگدو ایئر کرافٹ کارپوریشن اور پاکستان ایرو ناٹیکل کمپلیکس نے مشترکہ طور پر تیار کئے۔ اس طیارے کو بناتے وقت یہ چیز مدنظر رکھی گئی کہ یہ طیارے زمینی حملوں، دشمن کے طیاروں کو نشانہ بنانے، سرویلنس اور ڈاگ فائٹ میں مؤثر ثابت ہوں۔ یہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس طیارہ ہے‘ جس میں ایڈوانس انفراریڈ میزائل وارننگ سسٹم نصب ہے‘ اس کی سپیڈ 2470 کلومیڑ فی گھنٹہ ہے۔ 27 فروری 19ء کو جب پاک فضائیہ کے شاہینوں نے بھارت کو شکستِ فاش دی تو اس معرکے میں بھی جے ایف 17 تھنڈر کا کلیدی کردار تھا۔ پاکستان میں اس کو جوائنٹ فائٹر 17 تھنڈر کہا جاتا ہے جس کا مخفف جے ایف 17 تھنڈر ہے اور چین میں اسے فیرس ڈریگن ایف سی1 کہا جاتا ہے۔ 2007ء سے جے ایف 17 تھنڈر آپریشنل ہیں اور 2010ء سے یہ طیارے پاک فضائیہ کا حصہ ہیں۔
30 دسمبر کو ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں ڈوئل سیٹ جے ایف 17 تھنڈرکی کھیپ کی رونمائی ہوئی۔ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل مجاہد انور خان اور چینی سفیر جناب نونگ رونگ تھے۔ یہ طیارے کورونا کے باوجود ریکارڈ مدت میں پاک فضائیہ اور چین کے تکنیکی عملے نے تیار کیے ہیں۔ دو نشستوں والے ان طیاروں کو جے ایف 17 تھنڈر بی کا نام دیا گیا ہے۔ ان طیاروں میں دو نشستوں کا مقصد انہیں تربیتی امور کے لئے استعمال کرنا ہے۔ اگر ہم اس کے فیول کی بات کریں تو جنگی طیاروں کے اعتبار سے اس کا فیول کا استعمال بہت مناسب ہے۔ اس طیارے میں انفراریڈ سرچ اور ٹریک سسٹم شامل ہے، اس میں دو کنٹرول فلائنگ سٹک ہے‘ یہ نیوکلیئر وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور کروز میزائل سے لیس ہے۔ ان طیاروں کی شمولیت سے چین اور پاکستان کی عددی برتری میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم جے ایف 17 تھنڈر ڈوئل سیٹ اور انڈین رافیل کا تقابلی جائزہ لیں تو جے ایف 17 تھنڈر کم قیمت میں تیار ہوتا ہے جبکہ رافیل بہت مہنگے طیارے ہیں، رافیل کی لاگت 74 ملین ڈالر ہے اور جے ایف 17 تھنڈر کی لاگت 25 سے32 ملین ڈالر ہے۔ جے ایف 17 کو اَپ گریڈ کیا جا سکتا ہے جبکہ رافیل فکسڈ ٹیکنالوجی ہے، رافیل کی سروس سیلنگ پچاس ہزار فٹ ہے اور جے ایف 17 کی سیلنگ 54 ہزار فٹ ہے۔ رافیل کی فیری رینج 3700کلومیٹر ہے اور جے ایف 17 کی 3800کلومیٹر۔ جے ایف 17 کروز میزائل سے لیس ہیں جبکہ رافیل نہیں۔ رافیل کو مکمل آپریشنل کرنے میں ابھی بہت سال لگیں گے اور بھارت اس حوالے سے مشکلات کا شکار ہے جبکہ جے ایف 17 مکمل آپریشنل ہے۔ رافیل کو ابھی تک ایئر ٹو ایئر کومبیٹ میں ٹیسٹ نہیں کیا گیاجبکہ 27 فروری کو جے ایف تھنڈر آزمایا جا چکا ہے۔ اب پاکستان اور چین نے جے ایف 17 تھنڈر کے بلاک تھری پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔ بلاک تھری‘ جے ایف 17 تھنڈر کے بلاک ٹو اور رافیل طیاروں سے زیادہ جدید ہوگا۔ پی ایل پندرہ میزائل بلاک تھری میں شامل ہوں گے جن کی رینج رافیل اور ایف سولہ سے زیادہ ہو گی۔ یہ 4.5 جنریشن کا طیارہ ہو گا۔
30 دسمبر2020ء کو جب بلاک تھری پر کام کا باقاعدہ آغاز ہوا تو پاکستانی عوام میں جوش و خروش دیدنی تھا اور سوشل میڈیا صارفین نے پرائیڈ آف پاک جے ایف 17 کے نام سے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنایا جسے ہزاروں بار ٹویٹ کیا گیا۔ لوگوں نے ڈوئل سیٹ طیاروں کی فضائی بیڑے میں شمولیت پر مسرت کا اظہار کیا اور بلاک تھری کی کامیاب تکمیل کے لیے دعائیں کیں۔ بلاک تھری ان شاء اللہ خطے کاحقیقی گیم چینجر ہو گا۔