تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-01-2021

بیڑیاں

بیڑیاں تو اور بھی بہت سی ہیں مگر سماجی بیڑیوں کا جواب نہیں۔ ہمارے پاؤں میں زندگی بھر یہی بیڑیاں تو پڑی رہتی ہیں۔ ''لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ سب سے بڑی بیڑی ہے۔ جس نے یہ بیڑی کاٹ ڈالی وہی تو پیش رفت کے قابل ہوسکا۔ سلیمان بھائی کو ہم ایک زمانے سے لگی بندھی زندگی بسر کرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ مرد کی ایک زبان کے مصداق انہوں نے اُٹھتی جوانی میں جو شعبہ اپنایا تھا‘ آج بھی اُسے اپنائے ہوئے ہیں اور ابھی دور دور تک اِس بات کے آثار نہیں کہ وہ اس شعبے کو خیرباد کہیں گے۔ ہم نے بیس برس کی طویل مدت میں اُنہیں ایک دکان میں کام کرتا ہوا پایا ہے۔ یہ دکان اب اُن کی نفسی ساخت کا حصہ بن گئی ہے۔ اس سے دور ہونے کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ آکسیجن اور پانی کے بغیر ہم جی نہیں سکتے۔ سلیمان بھائی کے لیے رمضان سیٹھ کی گروسری کے سامان کی ہول سیل شاپ بھی آکسیجن اور پانی کا درجہ رکھتی ہے۔ کوئی کتنا ہی سمجھائے وہ اِس دکان کو داغِ مفارقت دینے کیلئے تیار نہیں۔ گروسری کی ہول سیل شاپ اُن کے ذہن میں گڑ سی گئی ہے۔ خیر! ایک ہول سیل شاپ والے سلیمان بھائی کو کیا روئیے کہ یہاں تو قدم قدم پر سلیمان بھائی بکھرے ہوئے ہیں۔ چڑھتی جوانی کے جوش میں لوگ معاشی جدوجہد کیلئے جس شعبے کو اپنالیتے ہیں اُس سے الگ ہونے میں ایک عمر لگا دیتے ہیں۔ بعض شعبے صرف جوانی کے جوش و خروش کو بروئے کار لانے کیلئے ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو بدلنا پڑتا ہے۔ عمر ڈھلتی ہے تو جسم کی سکت کم ہوتی جاتی ہے۔ ایسے میں صلاحیت اور مہارت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ جو کام انسان بیس‘ بائیس سال کی عمر میں تیزی سے کرتا ہے وہ کام پچاس پچپن سال کی عمر میں نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں جن معاشی سرگرمیوں میں جسمانی سکت کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے اُن سے دامن چھڑاتے ہوئے انسان کو ایسے کاموں پر توجہ دینی چاہیے جن کی بنیادی ضرورت مہارت ہو۔
بات ہو رہی تھی سماجی بیڑیوں کی! ہم بہت سے ایسے تصورات کے کھونٹے سے بندھے رہتے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی۔ وقت ہم سے تبدیلی کا تقاضا کرتا رہتا ہے مگر ہم ہیں کہ کچھ سمجھتے ہیں نہ سوچتے ہیں۔ کسی بھی پس ماندہ معاشرے کی نمایاں ترین خصوصیت ہے تبدیلی سے گریز۔ جب لوگ خود کو بدلنے سے انکار کی طرف چلے جائیں تب زندگی کنوئیں کے مینڈک کی سی ہو جاتی ہے۔ پیشرفت اُسی وقت ممکن ہوتی ہے جب تبدیل ہونے کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ جہاں لوگ لگی بندھی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دینے لگیں وہاں کچھ بھی آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا۔ ایک طرف سلیمان بھائی ہیں جو ایک دکان سے الگ ہوکر آگے بڑھنے کے بارے میں سوچنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو بالکل نچلے، گئے گزرے ماحول میں پیدا ہوتے ہیں اور خود کو بدلنے پر آتے ہیں تو ایسی پیشرفت ممکن کر دکھاتے ہیں کہ دنیا دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے۔ ہمارے اپنے معاشرے میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ لوگ پست ماحول میں پیدا ہوئے، غربت کا مزا چکھا، مسائل جھیلے، پریشانیاں برداشت کیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی طے کیا کہ جس ماحول میں پیدا ہوئے ہیں اُس میں سدا نہیں رہیں گے۔ اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ وہ جہاں پیدا ہوئے تھے وہاں نہیں رہے بلکہ اِس طور بدلے کہ دیکھنے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔ کچھ کر گزرنے کا عزم ہی انسان کو بہت آگے لے جاتا ہے۔ ہر معاملے میں سوال عزم ہی کا تو ہے۔ بل گیٹس کا مشہور جملہ ہے کہ کوئی اگر مفلس پیدا ہوا ہو تو اِس میں اُس کا کوئی قصور نہیں مگر ہاں! وہ حالتِ افلاس ہی میں مر جائے تو اُسے ضرور موردِ الزام ٹھہرایا جائے گا۔
26 سالہ سونل شرما کا عجیب کیس ہے۔ وہ ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوئی جس سے بلند ہونے کا کم ہی لوگ سوچتے ہیں۔ اُس کے والد گوالے ہیں۔ انہوں نے کئی گائیں پال رکھی ہیں۔ دن بھر وہ گائے کے باڑے میں صفائی وغیرہ کا خیال رکھتے ہیں۔ گایوں کا دودھ دوہنا اور گاہکوں تک پہنچانا اُن کا پیشہ ہے۔ سونل اس ماحول میں پیدا ہوئی۔ وہ بھی باڑے کی صفائی اور دیگر کاموں میں والد کا ساتھ دیتی آئی ہے۔ سماجی اعتبار سے یہ بہت پست ماحول تھا۔ سونل کے مزاج میں علم دوستی تھی‘ وہ پڑھنا چاہتی تھی۔ والدین نے اُس میں جب پڑھنے کے حوالے سے ذوق و شوق دیکھا تو حوصلہ افزائی کی۔ باڑے کے بدبودار ماحول ہی میں سونل پڑھتی رہی۔ اُس نے بی اے، ایل ایل بی اور ایل ایل ایم میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ یہ سب کچھ ایسا آسان نہ تھا‘ جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ سونل کا تعلق بھارت کی ریاست راجستھان کے شہر اُدے پور سے ہے۔ سورج کے طلوع ہونے کو ہندی میں اُدے کہتے ہیں۔ اُدے پور یعنی وہ شہر جہاں سورج کے طلوع ہونے کا نظارہ بہت دل نشیں ہے۔ گائے کے باڑے سے ملحق مکان میں پیدا ہونے والی سونل کے لیے زندگی کے افق پر ڈھنگ سے طلوع ہونا خاصے دشوار گزار راستے پر سفر کرنے جیسا تھا۔ اُس کے والد چونکہ گوالے ہیں اِس لیے معاشرتی حیثیت پست ہے۔ ذات پات کی تقسیم والے معاشرے میں نچلی ذات کا سمجھا جانے والا شخص اپنی بیٹی کو بہت زیادہ پڑھانا چاہے تو اُسے ہدفِ استہزا بننا ہی پڑے گا۔ سونل کے والد کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ گایوں کے باڑے کی صفائی جیسے کام کی بنیاد پر تو اُنہیں طنز کا سامنا کرنا ہی پڑتا تھا، بیٹی کی پڑھائی کے معاملے میں اُن پر طنز کرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔ سونل کے والد کو ہدفِ تنقید بنانے والوں میں اُن کی اپنی ہی برادری کے لوگ نمایاں تھے۔ حوصلہ افزا بات کرنے والے خال خال تھے۔ جہاں کمتر سماجی حیثیت والا کوئی شخص اپنی بیٹی کو مڈل کی سطح تک بھی نہ پڑھاتا ہوا وہاں اگر کوئی اپنی سماجی حیثیت کو ایک طرف ہٹاکر بیٹی کو جج بنانے کا سوچے؟ یہ تو ''گھور پاپ‘‘ ہوا! سونل کے والد کو قدم قدم پر ع 
اِک امتحان سے گزرا ہوں‘ اِک امتحان کے بعد
کی منزل سے گزرنا پڑا۔ لوگ باتوں ہی باتوں میں ''کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا‘‘ والی بات بھی کہہ جاتے تھے! اس بات کی داد دینا ہی پڑے گی کہ اُنہوں نے معاشرتی سطح پر کی جانے والی مخالفت اور تنقید کی ذرّہ بھر پروا نہ کی اور بیٹی کو پڑھاتے رہے۔سونل نے ایل ایل ایم کرنے کے بعد مقابلے کے امتحان میں حصہ لیا‘ مقابلے کا یہ امتحان جج کے منصب کے لیے تھا! جس نے سماجی سطح پر زندگی بھر انصاف کی آرزو کی ہو وہ اب انصاف کی کرسی پر بیٹھنے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ سونل نے مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ یہ 2019ء کے آخر کی بات ہے۔ اُسے ویٹنگ لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ صرف ایک مارک کی کمی کے باعث وہ فوری طور پر پوسٹنگ نہ پاسکی۔ اب پوسٹنگ کی منزل آچکی ہے۔ کچھ دن بعد سونل کو راجستھان کے کسی بھی شہر میں سیشن جج تعینات کردیا جائے گا! اِسے کہتے ہیں انفرادی سطح پر حقیقی انقلاب یعنی سبھی کچھ الٹ‘ پلٹ کر رہ جائے۔ اس کہانی میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ سب سے بڑا سبق تو یہ ہے کہ انسان اپنی سماجی حیثیت سے ذرا بھی کبیدہ خاطر نہ ہو۔ انسان جس ماحول میں پیدا ہوا ہو اُس سے بہتر ماحول کی طرف سفر جاری رہنا چاہیے۔ زندگی کو زیادہ بارآور بنانے کی یہی ایک معقول صورت ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ذات پات کی تقسیم تو نہیں ہے مگر اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ یہاں بیڑیاں ہیں ہی نہیں۔ کسی بھی پسماندہ معاشرے کو پسماندہ رکھنے والے معاملات یہاں بکھرے پڑے ہیں۔ پاؤں میں پڑی ہوئی ان نادیدہ بیڑیوں کو توڑے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ سماجی حیثیت تبدیل کرنا زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ لوگ جیسے تیسے بہت کچھ کما تو لیتے ہیں مگر سماج میں اپنی حیثیت تبدیل کرنے میں بہت مشکل سے کامیاب ہو پاتے ہیں۔ افلاس زدہ گھرانے میں پیدا ہوکر علم و عمل کے معاملے میں آگے نکل جانے والے نوجوان ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اُن کے حالات و واقعات سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے ... اور سیکھنا ہی چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved