دُنیا بھر میں رائج کیلنڈر کے مطابق نیا سال طلوع ہو چکا ہے۔ جانے والا سال (2020ء) دُنیا پر بڑے گہرے نقوش چھوڑ گیا ہے۔ انسانی تاریخ کی انتہائی عجیب وبا جسے کووڈ 19 یا کورونا وائرس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس سال پھیلی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دُنیا کو متاثر کر گئی۔ ذرائع نقل و حمل اور ذرائع ابلاغ کی ترقی نے اسے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک پھیلا دیا، اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کا خوف بھی طاری کر دیا۔ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان تک منتقل ہونے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے۔ ہاتھ ملانے، قریب بیٹھنے، ایک دوسرے کو چھونے یا قربت میں سانس لینے کی پاداش میں لوگ اس کی لپیٹ میں آتے چلے جاتے ہیں۔ اس سے محفوظ رہنے کا واحد طریقہ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا، ماسک پہننا اور ایک دوسرے کو چھونے سے گریز کرنا ہے۔ اس وبا نے دُنیا بھر کی معیشتوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، عبادت گاہوں میں عبادت کرنا دوبھر ہو گیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار بیت اللہ اور مسجدِ نبویﷺ میں حاضری کو بند (یا محدود) کرنا پڑا۔ مسجدیں، مندر، گوردوارے رونق سے محروم ہو گئے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پوری دُنیا میں 8 کروڑ 82 ہزار 650 افراد اس وائرس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، ہلاکتوں کی تعداد 18 لاکھ 33 ہزار انتالیس بتائی جا رہی ہے۔ 2 کروڑ 29 لاکھ 4 ہزار 980 مریض ہسپتالوں اور قرنطینہ مرکزوں میں زیر علاج ہیں یا گھروں میں خلوت نشین ہیں۔ ان میں سے ایک لاکھ چھ ہزار چھ سو بیس کی حالت تشویشناک ہے، جبکہ 5 کروڑ 96 لاکھ 42 ہزار 271 اس موذی وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
امیر ترین اور طاقت ور ترین ملک امریکہ متاثرین میں سرفہرست ہے۔ وہاں 80 لاکھ سے زائد مریض آج بھی موجود ہیں۔ بھارت کا نمبر دوسرا ہے۔ برازیل تیسرے اور روس چوتھے نمبر پر ہے۔ فرانس اور برطانیہ پانچویں اور چھٹے نمبر پر ہیں۔ ایک ارب پینتالیس کروڑ سے زائد آبادی والا ملک چین‘ جہاں سے اس وائرس کا آغاز ہوا تھا اور جہاں پہلا مریض منظر عام پر آیا تھا، متاثرین کی فہرست میں 82ویں نمبر پر جا چکا ہے، جبکہ پاکستان کا نمبر 28واں ہے۔ اس کے شہریوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے یہ 29ویں نمبر تک پہنچ کر واپس آیا ہے۔ اگر دوسرے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو تمام تر خدشوں کے باوجود پاکستان میں حالات بہتر رہے ہیں۔ اس وبا کی بدولت پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں بھی سہولت مل چکی ہے اور یوں اس کی معیشت کو سنبھالا ملا ہے۔ حالات جتنے ابتر ہو سکتے تھے، اتنے بہرحال نہیں ہوئے، تمام تر مشکلات، بد نظمی اور بے سمتی کے باوجود پہیہ چل رہا ہے اور حکومت مثبت معاشی اشاریوں کی نوید بھی دے رہی ہے۔
قومی اور بین الاقوامی سطح پر تو جو ہوا سو ہوا، ذاتی طور پر بھی کئی صدمے اٹھانا پڑے، اعزا اور احباب میں سے کئی اِس کی نذر ہوئے۔ چند ہفتے پہلے میری خالہ زاد بہن کے دو ہنستے بستے بیٹے اشفاق گیلانی اور اسرار گیلانی چل بسے۔ ہمارے خاندان کی با وقار خاتون محترمہ انور ناز چند ہی روز پہلے جان کی بازی ہار گئیں۔ وہ میری بیٹی جیسی بہو رابعہ کی والدہ تھیں، وہ اور ان کے شوہر جناب اصغر ملک دو بہترین ہسپتالوں میں کم و بیش دو ہفتے زیر علاج رہے۔ ملک صاحب کو اللہ تعالیٰ نے نئی زندگی عطا کر دی۔ ڈاکٹر سرور چودھری، ڈاکٹر تشبیب جیسے ماہرین کی شبانہ روز محنت کام آئی، نہ ان کے ہونہاروں‘ محب ملک‘ منیب ملک اور ڈاکٹر انیب ملک کی جانفشانی۔ ایک کے بعد دوسری پیچیدگی پیدا ہوتی رہی۔ مرحومہ کی ہمدردی، فیاضی، ملنساری اور وضع داری اپنی مثال آپ تھی۔ چند الفاظ میں دریا بند کر دیتیں، اور دِلوں کو محبت سے بھر دیتیں۔ جو لوگ احتیاط کرنے پر تیار نہیں ہیں، وہ خدارا ہوش کے ناخن لیں، ان گھروں میں جھانک کر دیکھیں جہاں یہ وائرس اُداسی اور بے چارگی طاری کر گیا ہے۔
کورونا کے حوالے سے 2020ء کو انسانی تاریخ میں بہرحال یاد رکھا جائے گا۔ اس کے اثرات تا دیر رہیں گے، کہاں کہاں کیا کیا سماجی، معاشی اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہوں گی، ان کے بارے میں قطعیت سے کچھ کہنا تو مشکل ہے، لیکن یہ بات بہرحال مسلّم ہے کہ جہان تازہ مختلف ہو گا... خوف کے اندھیروں سے روشنی کی کرن البتہ یہ نمودار ہوئی کہ اس وائرس کی پیش بندی کے لیے ویکسین کی تیاری میں محیرالعقول کامیابی حاصل کر لی گئی۔ برسوں کا کام مہینوں میں ممکن ہوا ہے اور مختلف ممالک کی مختلف کمپنیوں نے ایسی ویکسین ایجاد کر لی ہے، جو انسانی جسم کو اس کے خلاف مدافعت فراہم کرے گی۔ یہ ویکسین تجرباتی مراحل سے گزار کر اب انسانوں کو لگائی جا رہی ہے، لیکن امارت اور غربت، ترقی اور پسماندگی کی دیواریں یہاں بھی موجود ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک ابھی تک قطار میں ہیں یا یہ کہیے کہ کسی قطار شمار میں نہیں ہیں۔ یہاں ویکسین پوری آبادی یا اس کے غالب حصے کو فراہم کرنے کے لئے طویل انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان میں نئے سال کے آتے ہی کورونا سے زیادہ سیاسی وائرس کے پھیلائو کی گھنٹیاں بھی بج اٹھی ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی زور پکڑ رہی ہے۔ دونوں اپنے اپنے زعم میں ہیں۔ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے سے انکاری، ایک دوسرے پر ہر آن گولہ بلکہ بم باری۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھی اپنے مخالفوں پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ انہیں ''کرپٹ ٹولہ‘‘ قرار دے کر اطمینان کا سانس لینے کا تاثر دے رہے ہیں، جبکہ اپوزیشن کا دس رکنی اتحاد مولانا فضل الرحمن کے زیر قیادت شعلے اُگل رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کا رخ اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ ''کٹھ پتلی‘‘ وزیر اعظم کے بجائے اس کی طاقت بننے والوں سے دو دو ہاتھ کرنے کی دھمکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار قومی ادارے نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ منظر ایسا نہیں ہے کہ جسے خاموش تماشائی بن کر دیکھا جائے۔ پاکستان نہ سیاست دانوں کی جاگیر ہے نہ حکمرانوں کی۔ اسے حزبِ اقتدار کی ذاتی ملکیت بنایا جا سکتا ہے، نہ حزبِ اختلاف کو من مانی کا حق دیا جا سکتا ہے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں، معاملات جو بھی ہوں، اعتراض جیسا بھی ہو، الزام جس پر بھی ہو، اس میں وزن جو بھی ہو، دفاعی اداروں اور تنصیبات کا رخ کرنا وہاں جا کر احتجاج کرنا پسندیدہ نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان کو حرکت میں آنا ہو گا اور بپھرے ہوئے جذبات پر پانی ڈالنا ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن کی ضد جو بھی ہو، راستہ نکالنا ہو گا۔ سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی بند دروازوں پر دستک دے رہے ہیں، گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کر رہے ہیں، لیکن ان کی تنہا آواز کافی نہیں ہے۔ اس آواز میں اور آوازیں بھی ملانا ہوں گی۔ علمائے کرام کو، بار ایسوسی ایشنز کو، میڈیا اداروں کو، سول سوسائٹی کے ذمہ داروں کو حرکت میں آنا ہو گا۔ حکومت کے ہاتھ روکنا ہوں گے، تو اپوزیشن کے پائوں۔ ہاتھ جوڑ کر دونوں کی منت کرنا ہو گی، خدارا، اپنے آپ پر رحم کھائو، کورونا وائرس ہمیں وہ نقصان نہیں پہنچا سکا جو سیاسی وائرس، احتجاج کا وائرس، اشتعال کا وائرس، انتقام کا وائرس اور تصادم کا وائرس پہنچا سکتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)