تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-01-2021

حکومتی کارکردگی اور آئندہ الیکشن

یہ بات درست ہے کہ پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہو گئی لیکن اگر حکومت کا خیال ہے کہ اس سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ پی ڈی ایم کی تین بڑی پارٹیاں نظریاتی حوالوں سے ایک دوسرے سے قطبین کے فاصلے پر ہیں؛ تاہم صرف لیڈروں کے ذاتی مفادات ہی واحد مشترکہ کمزوری ہے جس کے طفیل یہ سارے اکٹھے ہوئے ہیں‘ لیکن کاٹھ کی ہنڈیا چولہے پر تادیر کام نہیں کرتی اور یہی کچھ اب ہو رہا ہے۔ مفاد پرستوں کی آخری لڑائی ان کی باہمی لڑائی ہوتی ہے اور پی ڈی ایم کے حالات اسی طرف جا رہے ہیں۔ اس پر حکومتی وزرا کی خوشی کی اس حد تک تو سمجھ آتی ہے کہ ان کی حکومت کو فی الوقت کوئی خطرہ نہ ہو‘ لیکن اگر ان کا خیال ہے کہ وہ آئندہ الیکشن صرف اس بنیاد پر جیت سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹنے پر آ رہی ہے تو یہ ان کی خوش فہمی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ حکومتیں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن جیتتی یا ہارتی ہیں۔ اپوزیشن کی کوئی کارکردگی نہیں ہوتی۔ وہ حکومت کی کارکردگی کو نشانہ بناکر اپنا الو سیدھا کرلیتی ہے۔ عمران خان نے بھی یہی کیا تھا‘ ورنہ بذات خود ان کی کارکردگی کا تو اب پتا چلا ہے کہ انہیں کسی چیز کا نہ پتا ہے نہ کوئی علم۔
سابقہ حکمران اپنی کرپشن کے خلاف عمران خان کے بیانیے کی مقبولیت کی بنا پر فارغ ہوئے۔ بنیادی طور پر یہ خان صاحب کی کارکردگی نہیں بلکہ حکمرانوں کی خراب کارکردگی، کرپشن اور اسی قبیل کی خرابیاں تھیں‘ جو ان کی شکست کا باعث بنیں۔ خان صاحب اگلا الیکشن پی ڈی ایم کی ناکامی، اپوزیشن کی باہمی چپقلش اور استعفوں یا لانگ مارچ میں ناکامی کے باعث نہیں بلکہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر جیتیں گے یا ہاریں گے۔ فی الحال کی کارکردگی کو مدنظر رکھیں تو اگلے الیکشن میں کم از کم وہ مجھے تو جیتتے نظر نہیں آتے۔ آگے کی اللہ جانے۔
فی الحال صورتحال یہ ہے کہ خان صاحب کی حکومت کو بظاہر کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا‘ لیکن یہ سب کچھ تب تک ہے جب تک عوام کے پاس ووٹ ڈالنے کی آپشن دوبارہ نہیں آتی‘ اور آئندہ الیکشن میں عوام کو اس بات سے قطعاً کوئی غرض نہ ہوگی کہ مولانا فضل الرحمن نے کن بنیادوں پر گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کی برسی میں شرکت نہیں کی تھی یا پیپلز پارٹی کن وجوہ کی بنا پر استعفوں پر راضی نہیں ہوئی تھی اور میاں نواز شریف پاکستان واپس آتے ہیں یا نہیں آتے۔ عوام کو صرف اس بات سے غرض ہوگی کہ گزشتہ پانچ سالوں میں (اگر الیکشن واقعتاً پانچ سال بعد ہی ہوئے) ان کی زندگی کیسے گزری؟ مہنگائی نے ان کا کتنا خانہ خراب کیا ہے؟ بیروزگاری کے عفریت نے ان کو کتنا برباد کیا؟ وہ کون سے ایک کروڑ خوش نصیب تھے جنہیں نوکریاں ملیں؟ وہ کون سے بلند بخت پچاس لاکھ پاکستانی تھے جن کا اپنے گھر میں رہنے کا خواب سچ ثابت ہوا؟ بجلی نے ان پر مزید کتنی بجلی گرائی، تیل کی قیمتوں نے اس کا کتنا تیل نکالا اور گیس کہاں اڑن چھو ہوئی؟ عوام کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ اگر وہ حل نہ ہوں تو انہیں اس بات سے قطعاً کوئی سروکار نہ ہوگا کہ میاں نوازشریف جعلی بیماری کا بہانہ کرکے لندن بھاگ گئے تھے۔
اگر حقیقی جائزہ لیا جائے تو جس طرح عام آدمی کو میاں نوازشریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ سے رتی برابر غرض نہیں‘ اسی طرح عام آدمی کو عمران خان کے 'چوروں اور لٹیروں کو نہ چھوڑنے‘ کے مسلسل بیانات سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ عوام کو خان صاحب کے مافیا کے خلاف بیانات سے بھی کوئی لینا دینا نہیں کہ حکومت نے مافیا کا تو کچھ بھی نہ بگاڑا؛ البتہ چینی اور آٹا مافیا نے عوام کے وہ کڑاکے نکالے کہ رہے نام اللہ کا۔ اب بھلا جس دور حکومت میں عوام کو کسی طرف سے کوئی سہولت، کوئی آسانی، کوئی خوشی اور کوئی ریلیف نہ ملے تو اس کے بعد وہ کس بنیاد پر حکمرانوں کو دوبارہ ووٹ دیں گے؟ اپوزیشن میں رہتے ہوئے خان صاحب کا حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف بیانیہ ضرور مقبول ہوا مگر عوام حکمرانوں سے صرف بیانات، بڑھکوں، تقریروں، طعنوں اور ملامتوں کی نہیں بلکہ عملی کارکردگی کی امید رکھتے ہیں اور اب تک کے اڑھائی سال تو اس سلسلے میں نہایت ہی مایوس کن گزرے ہیں۔ 
عمران خان کا بطور اپوزیشن لیڈر بیانیہ تھاکہ اگر کپتان ٹھیک ہو تو ٹیم اچھی کارکردگی دکھاتی ہے اور اگر کپتان نالائق اور نکما ہو تو بھلا ٹیم کیا کر سکتی ہے؟ اسی بنیاد پر خان صاحب نے اپنا مقدمہ لڑا اور عوام نے بھی یقین کرلیا کہ شاید مسٹر کلین ہی ہماری تمام محرومیوں اور مصیبتوں کا مداوا کرے گا۔ سو انہوں نے ایک اچھے کپتان کی امید پر ان کو کامیاب کروایا اور کپتان نے ان اڑھائی سالوں میں کیا کارکردگی دکھائی؟ اگر کرکٹ کی زبان میں اس کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو جو صورتحال نظر آتی ہے‘ یہ ہے کہ اچھے کپتان کی سربراہی میں ساری ٹیم بہت خوب کھیلی۔ اس دوران چینی نے ملکی تاریخ میں پہلی بار سینچری بنائی، انڈوں نے اس ملک میں پہلی بار ڈبل سینچری بنائی، ڈالر کی اوسط ڈیڑھ سو سے اوپر رہی۔ آٹے اور آلو جیسے ماٹھے کھلاڑیوں نے نصف سینچریاں کھڑکائیں۔ پٹرول نے بھی بہترین آل راؤنڈ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ٹماٹر کی اوسط سو رنز فی اننگز رہی اور ادرک جیسے گمنام اور فارغ کھلاڑی نے تو سر ڈان بریڈمین کا ریکارڈ بھی توڑ دیا اور ایک سیریز میں ہزار سکور کرکے سب کو ششدر کر دیا۔ 
تریا ہٹ، راج ہٹ اور بالک ہٹ‘ تین ضدوں کے بارے میں ایک کہاوت ہے اور کہاوتیں زمین سے جڑے ہوئے حقائق سے جنم لیتی ہیں۔ عورتوں کی ضد، بادشاہوں کی ضد اور بچے کی ضد۔ ہمیں فی الوقت راج ہٹ سے پالا پڑا ہے۔ حکمرانوں کا سارا زور صرف اور صرف کرپشن کے خلاف یکطرفہ مہم پر ہے جس کی ساری ساکھ اور اعتبار ہی دراصل اس بات کے کارن ختم ہو چکا ہے کہ کرپشن کے خلاف حکومتی توپوں کا رخ صرف اور صرف اپوزیشن کی طرف ہے۔ مجھے ان گرفتار شدگان اور بھگوڑوں سے رتی برابر نہ ہمدردی ہے اور نہ ہی ان کی صفائی مقصود ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ گزشتہ حکمرانوں کے وہ تمام ساتھی جنہوں نے پی ٹی آئی کے چشمے میں اشنان کر لیا ہے وہ تو سب پاک صاف ہو گئے ہیں اور جنہوں نے اس چشمہ صفائی میں ڈبکی لگانے سے انکار کیا‘ وہ سب کرپٹ، بدعنوان اور بے ایمان ہیں‘ حتیٰ کہ وہ سب بھی دھل دھلا کر نیکوکاروں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں جن کو خان صاحب ٹیلی ویژن پروگراموں میں نام لے لے کر بدعنوان اور کرپٹ قرار دیتے تھے۔
لاحاصل احتساب اور کرپشن کے خلاف بیانیے کا حشر نشر عوام گزشتہ اڑھائی سال کے دوران دیکھ چکے ہیں؛ تاہم اس راج ہٹ کے نتیجے میں جہاں عوام کی آسانی اور سہولت کے سارے دروازے بند ہو گئے ہیں وہیں احتساب کے ڈر سے کوئی سرکاری افسر کام کرنے پر راضی نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ خوف و ہراس کی فضا میں رشوت کا ریٹ بڑھ گیا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، خط غربت سے نیچے رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ، پولیس، پٹوار کے نظام میں مزید خرابی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں مزید انحطاط۔ ضروریات زندگی کی عام آدمی کی پہنچ سے مسلسل بڑھتی ہوئی دوری۔ اگر خان صاحب کا خیال ہے کہ ان تمام خرابیوں کے باوجود عوام میں ان کی مقبولیت کا گراف اوپر گیا ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اس اڑھائی سالہ دور حکومت میں خان صاحب نے اپنی کارکردگی کے بنیاد پر پٹی ہوئی اپوزیشن کو جس محنت شاقہ سے عوام میں دوبارہ مقبول بنانے کی کوشش کی ہے اس کا اندازہ انہیں آئندہ الیکشن میں ہو جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved