تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     03-01-2021

ایک ٹوٹا ہوا دن

زندگی میں بعض دن ناقابل بیان ہوتے ہیں اور کچھ واقعات ناقابل توجیہہ۔ یہ دونوں باتیں اگر ایک دن اور ایک وقت میں اکٹھی ہو جائیں تو اسے کیسے بھلایا جا سکتا ہے اور وہ تو دن نہیں ایک پورا ہفتہ تھا۔ سات دنوں پر محیط۔ 27دسمبر 2007 کا دن میری زندگی کے ان دونوں پہلوؤں کو ہمیشہ کے لیے یکجا کر گیا۔ بیان اور توجیہہ مقصود نہیں کہ یہ دونوں لفظوں کے دائرے سے باہر محسوس ہوتے ہیں۔ میں اس دن کو صرف یاد کررہا ہوں جسے حالیہ گزرنے والے 27دسمبر 2020 کے دن نے تازہ کردیا ہے۔
اس دن ہم کراچی تھے اورایک قریبی عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے گلشن اقبال، کراچی میں اردو یونیورسٹی کے قریب شادی کے گھر میں مقیم تھے۔ 27دسمبر کی رات مغرب کے بعد بارات تھی اور چونکہ دولہا اور دلہن دونوں طرف کے لوگ قریبی رشتے داروں میں تھے اس لیے گہماگہمی اور خوشی بھی دہری تھی۔ ہم چونکہ شہر سے باہر کے مہمان تھے اس لیے ہمارے ذمے کوئی کام بھی نہیں تھا۔ ظہر کے بعد جب فارغ تھا، میں نے سوچا کہ قریب ہی نیپا کے آڈیٹوریم میں جو ادبی تقریب ہے وہاں حاضری لگوا لی جائے۔ کراچی کے بہت سے دوستوں سے ملاقات ہوجائے گی اورفارغ وقت بیکار بھی نہیں ہوگا۔ نیپا آڈیٹوریم میں گہماگہمی تھی اور حسب توقع شہ نشین پررونق افروز مشاہیر اور ہال میں موجود ادبی شخصیات سے ملاقاتیں بھی ہوگئیں۔ بھرپور حاضری اور دلچسپ تقریب۔ مزے کا وقت گزرا۔ دو تین گھنٹے اسی طرح گزرے تھے کہ مغرب سے کچھ پہلے ایک دم دل بے چین ہوگیا۔ نہ تقریب پر توجہ رہی نہ مزید بیٹھنے کو جی چاہ رہا تھا۔ جیسے ایک دم جی اچاٹ ہوگیا ہو۔ اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کی خواہش تیزتر ہوتی گئی۔ مجھے اندازہ تھا کہ اگر کسی کو بتا کر گیا تو بہت سے دوست روک لیں گے اورچونکہ ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا ہے اس لیے کوئی معقول عذر پیش کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ میں کسی کو بتائے بغیر اپنی نشست سے اٹھا اور عمارت سے باہر آگیا۔ ہر چیز معمول کے مطابق تھی۔ میں کچھ دیر سڑک کنارے پیدل چلتا رہا۔ پہلے سوچا کہ گھر زیادہ دور نہیں ہے سو پیدل ہی چلا جائے‘ لیکن پھر کسی نامعلوم وجہ سے رکشہ روکا اور اس میں سوار ہوگیا۔ رکشہ موڑ کاٹ کر گھر کی طرف روانہ ہوا ہی تھاکہ مجھے عقب سے کچھ شور کی آواز آئی لیکن وجہ معلوم نہیں ہوئی۔ شور کی آواز جلد ہی توڑ پھوڑ کی آوازوں میں تبدیل ہوگئی۔ رکشہ ڈرائیور نے رفتار تیز کی اور میں پانچ سات منٹ میں گھر پہنچ گیا۔ 
کراچی کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ بہت عرصے سے سیاسی، گروہی اور نسلی زلزلوں کی فالٹ لائن پر واقع ہے۔ کوئی بھی بھونچال اس کی زمین آناً فاناً الٹ سکتا ہے۔ سو میرے ذہن میں یہی گمان گزراکہ یہ غالب گروہوں میں کسی کی وقتی ہنگامہ آرائی ہے لیکن گھر پہنچا تو ٹی وی سکرین کے سامنے سب جمع تھے‘ جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی تصویرمنجمد تھی اور لیاقت باغ راولپنڈی میں ان کے قتل کی خبر چل رہی تھی۔ جمال احسانی کے الفاظ میں: ع
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
یہ بڑا قومی المیہ تھا اور اس کے مضمرات پر بہت سے مضامین لکھے گئے ہیں‘ لیکن میں اس وقت اس سے ہٹ کر ذاتی تجربے کے حوالے سے بات کررہا ہوں۔ جس دن‘ جس ماحول اور جس وقت میں ہم شادی کے گھر میں جمع تھے اس میں فوری توجہ والے مسائل اتنے ان گنت تھے کہ کسی اور طرف دیکھنا ممکن نہیں تھا۔ جلد ہی ہرطرف سے توڑ پھوڑ، گھیراؤ جلاؤ کی خبریں آنے لگیں۔ گھر کے باہر بھی ایک شور تھا اور محلے اور اردو یونیورسٹی کے سنگم پر کئی گاڑیاں جل رہی تھیں۔ دکانوں کے شٹر بند ہوچکے تھے۔ سڑکوں پریا سناٹا اور خوف رقص کرتا تھا یا وحشت ناچ رہی تھی۔ آپ تصور کیجیے‘ بارات کی روانگی کا وقت ہو، سب لوگ تیار ہوچکے ہوں۔ خواتین تیار ہونے مشاطہ گھرگئی ہوئی ہوں‘ شادی کا کھانا کچھ تیار ہوچکا ہو‘ کچھ تیار ہورہا ہو‘ مہمانوں کی طرف سے مسلسل کالز موصول ہورہی ہوں کہ ہم کیسے شادی ہال میں پہنچیں، راستے سب بند ہوچکے ہوں اور غیر محفوظ ہوں‘ دلہن کو کسی طرح گھر لانے کا دشوار مرحلہ سامنے ہو تو کیا حالت ہوئی ہو گی۔ پھر گھر کے باہر مسلح ٹولیاں پھر رہی ہوں، گاڑیوں کو آگ لگائی جارہی ہو‘ غیریقینی صورتحال ہو اور خوف اور دہشت ایسی کہ شادی ہال پہنچنا درکنار، گھر سے نکلنا بھی ممکن دکھائی نہ دے رہا ہو اور میزبانوں اور مہمانوں دونوں کی سمجھ میں کچھ نہ آرہا ہو کہ اب کیا جائے اورکیا ہوگا؟ مجھے زندگی بھر میں ایسی خوفناک اور غیریقینی صورتحال یاد نہیں ہے اور بے بسی کی وہ کیفیت بھی یاد نہیں۔ بے گناہ لوگوں کو لٹتے دیکھنا، ان کی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو جلتے دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ سانحے سے الگ ایک سانحہ ہوتا ہے۔ ہرلمحہ خوفناک خبریں آرہی تھیں۔ پورے ملک میں صورتحال بہت بری تھی لیکن سندھ اور کراچی میں جو بھیانک صورتحال تھی اس کا تصور دور سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس دن کراچی میں بہت سی تقریبات خاص طور پر شادیوں کی تقریبات تھیں جو سب کی سب پامال ہوکر رہ گئیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر نقصان شاید کراچی میں کم ہی ہوا ہو اور میرے علم میں نہیں کہ سرکاری طور پر اس نقصان کی تلافی کی گئی ہو۔ پٹرول کے ٹینکر جل رہے تھے۔ مال سے بھرے کنٹینر لٹ رہے تھے۔ دکانیں توڑی جا رہی تھیں۔ کوئی سڑک ایسی نہ تھی جو محفوظ ہو۔ اگر کوئی گھر سے نکلا تھا تواب اس کے گھر واپسی کے سب راستے بند ہوچکے تھے اور وہ قریبی پناہ گاہ ڈھونڈ کر غیرمعینہ مدت کیلئے وہیں ٹھہر گیا تھا۔ جسے کوئی پناہ گاہ نہ مل سکی وہ اسی پریشانی میں تھا۔ قیامت کا وقت تھااور کسی سے کوئی مدد مانگی نہیں جاسکتی تھی کہ قانون خود مدد کا طلبگار تھا۔ جتنی منظم ہنگامہ آرائی تھی اور جس پیمانے پر تھی وہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان تھا۔
بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ شادی ہال پہنچنا تو درکنار، یہ شادی گھر کے اندر بھی مختصر لوگوں کے ساتھ ہوجائے تو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ پورے خاندان کے دلوں پر شدید اثر تھاکہ بہت تیاریوں اور ارمانوں کے ساتھ جس دن کی تیاری کی گئی تھی وہ ملیامیٹ ہوکر رہ گیا تھا لیکن میزبانوں کے حوصلے، ہمت کی داددینی چاہیے کہ اس ناگہانی کابھی خوشدلی سے سامنا کیا گیا اورظاہر ہے کہ پورا خاندان ہرممکنہ مدد اور حوصلہ بڑھانے کیلئے موجود تھا۔ دولہا کے گھرکے ساتھ والی گلی میں ایک اورعزیز کے گھر بارات لے جانے، نکاح اورکھانے کا فوری بندوبست کیا گیا لیکن حالات اتنے نازک تھے کہ سامنے والی سڑک کے بجائے چند گاڑیاں عقبی راستے سے اس گھر میں پہنچیں جہاں مشورے کے مطابق یہ تقریب منعقد ہوئی۔ اللہ کا شکر ہے کہ ناگہانی کے باوجود تمام کام انجام پاگئے‘ لیکن اب مسئلہ کراچی سے باہر کے مہمانوں کا تھا جن کی حیثیت اچانک بدل کر پناہ گزینوں کی ہوگئی تھی۔ اگلے چند دن خوف و دہشت کا وہ غلاف ملک پر خاص طورپر کراچی پر چھایا رہا۔ مسجد بیت المکرم گلشن اقبال کی نواحی سڑکیں ویران تھیں اور اگر کوئی شخص دور سے نظر بھی آجاتا تھا تو اس کے پاس جانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ وہ دن شاید کبھی بھلائے نہ جاسکیں۔
میں اب بھی سوچتا ہوں تو کوئی توجیہہ نہیں کرپاتا کہ کیا وجہ تھی‘ میں نیپا آڈیٹوریم میں بیٹھے بیٹھے بے چین ہوا اور تقریب سے نکل آیا۔ سچ یہ کہ کسی غیبی قوت نے مدد کی۔ ایک دو منٹ کا بھی فرق بہت بڑا فرق ڈال سکتا تھا۔ میرے گزرنے کے بعد نیپا چورنگی بالکل بند ہوگئی اورایک طرف سے دوسری طرف جانا ناممکن ہوگیا۔
زندگی میں کچھ ایسے واقعات اور بھی ہیں جن کی تشریح مجھے ممکن نہیں لگتی لیکن 27دسمبر 2007 کا دن اس معاملے میں منفرد ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved