تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     03-01-2021

2020ء: ایک عجیب مشکل سال!

2020ء کو انسانی تاریخ میں مشکلات کے سال طور پر یاد رکھا جائے گا۔ کورونا وبا اس سال کی سب بڑی علامت ٹھہری۔ اس وبا نے پوری دنیا کو متاثر کیا، کروڑوں افراد کورونا کا شکار ہوئے اور لاکھوں زندگیاں چھن گئیں۔ جن کے پیارے اس دنیا سے چلے گئے وہ تاعمر اس سال کو بھلا نہ سکیں گے۔ 2019ء کے آخر میں چین کے شہر ووہان سے پھوٹنے والی اس وبا نے دنیا کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ترقی کے مثبت اشاریے منفی میں تبدیل ہوگئے۔ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے چلا گیا۔ امیر ممالک کیلئے بھی یہ معاشی جھٹکے برداشت کرنا مشکل تھا، تیسری دنیا کے ممالک کی معیشتیں تو بالکل ہی بیٹھ گئیں۔ نتیجتاً مزید کروڑوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلے گئے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی اس وبا سے متاثر ہوا۔ ایک لحاظ سے اسے خوش قسمتی سمجھیں کہ جو تباہی دیگر ممالک پہ اتری پاکستان میں حالات ویسے نہیں ہوئے۔ یہاں شرح اموات کا تناسب دیگر ممالک سے کم رہا۔ پاکستان جیسے ملک میں‘ جس کی معیشت پہلے ہی صفر ہو چکی تھی‘ اگر یہ وبا پوری شدت سے پھیل جاتی تو ملک یقینی طور پر دیوالیہ ہو جاتا۔ قدرت کی مہربانی سمجھیں‘ اس نے ہمیں ایک موقع اور فراہم کیاکہ ہم بحیثیت قوم اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔ اگر ہم 2020 میں اپنی معیشت اور سیاست کا جائزہ لیں تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قدرت کی اس مہربانی کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہمارے اخلاق درست ہوئے اور نہ ہی معاملات۔ 2020ء میں ملک کو سب سے پہلے جس سکینڈل کا سامنا کرنا پڑا وہ تھا چینی کے ریٹس میں ہوشربا اضافہ۔ وفاقی حکومت نے تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی کی فرانزک رپورٹ میں حکمران جماعت کے ایک سینئر رہنما اور کچھ وفاقی وزرا کے نام سامنے آئے اور حکومت پر دباؤ بڑھنے لگا۔ تقریباً پانچ ماہ کی تحقیقات کے بعد جون میں وزیراعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی سکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی۔ تاحال قوم منتظر ہے کہ اس مافیا کو کب منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں‘ جنہیں کورونا کے لاک ڈاؤن میں تحریک چلانے کا موقع نہیں مل رہا تھا‘ کیلئے یہ سکینڈل کسی فیول سے کم نہ تھا‘ لیکن معاملات یہاں تک نہیں رکے۔ حکومت میں اور باہر بیٹھے مافیاز نے گندم خریداری سے آٹے کی ترسیل تک ایک اور واردات کر ڈالی۔ زرعی ملک میں آٹا اور اس سے بنی روٹی‘ دونوں مہنگے ہو گئے۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب ملک میں کورونا وبا اپنے عروج پر تھی۔ لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے تھے۔ غریب سے ان کے منہ کا نوالہ چھین کر تجوریاں بھرنے والے مجرموں کا آج تک تعین نہیں کیا جاسکا۔ حکومت اگر عوام کو مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم پر چھوڑدے تو کیا وہ حق حکمرانی باقی رکھتی ہے؟ وزیر اعظم پاکستان ان تمام کارروائیوں کا ذمہ دار مافیاز کو قرار دیتے ہیں۔ یہ انہی کا وعدہ تھاکہ جب وہ برسر اقتدار آئیں گے تو ان مافیاز کو ختم کریں گے۔ آج ان کی حکومت عملی طور پر ان کالی طاقتوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ ان سارے عوامل نے مل کر ایک جانب گورننس کے نظام کو چوپٹ کیا‘ دوسری جانب اپوزیشن کی جماعتوں کو یہ موقع فراہم کیاکہ وہ حکومت کو نااہل اور ناتجربہ کار قرار دے سکیں۔ اس ناتجربہ کاری کی ایک مثال مئی میں کراچی ایئرپورٹ کے قریب پی آئی اے کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کے بعد سامنے آئی۔ اس حادثے میں طیارے کے عملے سمیت 91 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد24 جون کو قومی اسمبلی میں اس طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے 808 پاکستانی پائلٹس میں سے 262 کی ڈگریاں جعلی قرار دے دیں۔ انہوں نے دعویٰ کیاکہ پائلٹس خود امتحان دے کر پاس نہیں ہوئے ان کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔ وفاقی وزیر کے اس بیان کے بعد یورپی یونین نے پی آئی اے کی پروازوں پر 6 ماہ کی پابندی عائد کردی۔ یوں پی آئی اے کو بہت سے قیمتی روٹس سے ہاتھ دھونا پڑا حالانکہ یہ معاملہ انٹرنلی سلجھایا جاسکتا تھا۔ حکومت نے ملکی معاشی حالات کے پیش نظر اگست میں لاک ڈاؤن نرم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں سمارٹ لاک ڈاؤن کے بعد مکمل طور پر اٹھا لیا گیا۔ بڑی دیر سے مضطرب اپوزیشن اسی وقت کے انتظار میں تھی کہ کب لاک ڈاؤن ختم ہو اور وہ حکومت کے خلاف میدان میں اتر سکے۔ 
2020ء کی سب سے بڑی سیاسی پیش رفت ستمبر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی تشکیل تھی۔ پیپلز پارٹی کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اے پی سی منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔ حکومت نے پی ڈی ایم کے جلسوں کو روکنے کے لیے ہٹ اینڈ رن کی حکمت عملی اپنائی ۔ ایک جانب اپوزیشن اتحاد کو جلسوں کی اجازت دی تو دوسری جانب انتظامی رکاوٹیں بھی ڈالیں۔ پی ڈی ایم نے تمام صوبوں میں جلسے کئے۔ ابتدا میں پی ڈی ایم کی توپوں کا رخ صرف اسٹیبلشمنٹ کی جانب رہا، ن لیگ کی جانب سے عسکری قیادت کو ہدف تنقید بنایا گیا۔ پی ڈی ایم کے آغاز میں ہی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ 28 ستمبر کو نیب نے اپوزیشن لیڈر کو منی لانڈرنگ کیس میں حراست میں لیا جو کہ تا حال جاری ہے۔ پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئی سیاسی بحث شروع ہو گئی۔ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق آرمی چیف سے لیگی رہنما محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی۔ ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے میں اور دوسری ملاقات7 ستمبر کو ہوئی۔ اس صورتحال نے نون لیگ کے بیانیے پر سوالات پیدا کئے جسے مسلم لیگ ن کی قیادت نے مسترد کر دیا۔ 18 اکتوبر کو کراچی جلسے کے اگلے روز نواز شریف کے داماد اور مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے معاملے نے سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت کو شرمندگی سے دوچار کیا۔ سندھ حکومت نے الزام عائد کیا کہ آئی جی سندھ کو اغوا کر کے یہ گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو کو معاملے کی تحقیقات کا یقین دلایا۔ کیپٹن (ر) صفدر کو رہا کر دیا گیا۔ اپوزیشن جماعتیں نومبر میں گلگت بلتستان کے انتخابی میدان میں اتریں لیکن کامیاب جلسوں کے باوجود انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ گلگت بلتستان میں بھی تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی۔ اپوزیشن نے تحریک کے حتمی مرحلے میں استعفوں اور لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ سینیٹ الیکشن سے قبل حکومت کا جانا لازمی قرار دیا۔ 
27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں پی ڈی ایم کا بھرپور جلسہ ہوا۔ 29 دسمبر کو پیپلز پارٹی کی سی ای سی کے فیصلوں نے سیاسی صورتحال کا پورا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ پیپلز پارٹی نے ضمنی الیکشن اور سینیٹ انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دن مسلم لیگی سینئر رہنما خواجہ آصف کی آمدن سے زائد اثاثے کیس میں گرفتاری ہوئی۔ یہ 2020ء کی آخری سیاسی گرفتاری تھی۔ نئے سال کا پہلا مطالبہ وزیر اعظم کا استعفیٰ تھا۔ سوال یہ ہے کہ کمزور ہوتا پی ڈی ایم استعفا لے پائے گا یا پھر ایسے مطالبات میں فیس سیونگ تلاش کی جا رہی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved