جس ہمہ جہت بحران نے قومی سطح پر معاشی اور معاشرتی نظام کو لپیٹ رکھا ہے اسے محض سیاسی کشمکش کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش میں اصل حقائق ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں کیونکہ اقتصادی مشکلات کی کوکھ سے جنم لینے والے عوامل سیاسیات کے علاوہ اخلاقی اقدار اور معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جس سے قومی ہم آہنگی متاثر ہو سکتی ہے۔جس طرح موجودہ عالمی معاشی بحران نہ صرف ہمارے اداروں کے لیے جھٹکا ثابت ہوا بلکہ وہ ہماری سماجی و سیاسی پالیسیوں کو بھی بحران سے منسلک کر نے کا وسیلہ بن گیا۔اس ضمن میں برطانیہ اور یونان کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں جہاں اقتصادی مسائل کے اثرات نے سیاست اور سماجی زندگی کو دگرگوں کرنے میں اہم کردار ادا کیا‘ تاہم روایتی تصورات کے برعکس چین جیسی ریاستیں بحران کے وقت خود بخود اپنا نہایت اہم سٹیبلائزر ثابت ہوئیں اور شاید انہی غیر متوقع تجربات نے مغربی دنیا کو جمہوریت کی شان و شوکت پہ شک کرنے پہ مجبور کیا۔اب وہ فری مارکیٹ اکانومی اور جمہوری تمدن کی بساط لپیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اہلِ دانش کہتے ہیں کہ ایسے ہمہ جہت بحران کے بعد اصلاحات کی ابتدا سماجی پالیسی کا جائزہ لینے سے ہونی چاہیے تھی لیکن یہاں جن دلائل کو بار بار دہرایا گیا وہ عام علم کے فروغ سے جڑے ہوئے ہیں‘ یہاں تک کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے بھی واضح طور پر اس خیال کا اظہار نہیں کیا کہ بحران کا صرف ایک ہی علاج ہے‘یعنی سادہ طرز زندگی کا احیا۔
بلاشبہ ایک پیچیدہ اور پُرتعیّش معاشرہ قومی وسائل کے زیاں کے علاوہ پیداواری عمل میں حصہ لینے والی افرادی قوت کی افزائش کو فراموش رکھتا ہے اور فطرت کی منشا کے برعکس بہترین انسانی صلاحیتوں کو بھی سفلی خواہشات کا ایندھن بنا لیتا ہے۔اب اگرچہ بحران کی لپیٹ میں آ جانے کے بعد دنیا بھر میں معاشرتی پالیسی کی تشکیلِ نو پر خاص توجہ دینے کے علاوہ اجتماعی زندگی کے اخلاقی پہلوؤں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے لیکن زندگی کی رفتار کو متوازن رکھنے کے لیے درکار قناعت اور سادگی کے حصول کی طرف رغبت دکھائی نہیں دیتی۔سرمایہ دارانہ نظام کی اساس چونکہ کنزیومر سوسائٹی کے لیے سامانِ تعیّش کی فراہمی پہ رکھی گئی‘خاص کر صنعت کے میکنزم میں جہاں سرمایہ داروں کی رگوں میں دولت کا خون گردش کرتا ہے وہاں اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے کے بعد پیداواری طبقہ بھی ایک بے شناخت ہجوم کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔اگر انسانوں کے زیرِ تصرف جدید ٹیکنالوجی اور پُرتعیش اشیا کے حصول کی دوڑ ختم ہو جائے تو سرمایہ دارانہ نظام ازخود ڈوب جائے گا۔ویسے بھی اب عیش و عشرت کی بتدریج کم ہوتی افادیت اور انسانی صحت سے منسلک کئی دیگر مسائل نے سرمایہ دارانہ نظام کو زوال آشنا کر کے عالمی معیشت کی چولیں ہلا ڈالی ہیں ‘ جس سے کئی ممالک کی شرح نمو بُری طرح متاثر ہوئی۔ یوں معاشی اشاریے میں اچانک بگاڑ پیدا ہونے سے بے روزگاری کی سطح مزید بلند ہوتی گئی۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرتی اور معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے مغربی دنیا کے موجودہ عقائد بھی سیاسیات و معیشت حتیٰ کہ تہذیب و تمدن میں اصلاحات کی راہ میں حائل ہیں۔
اس وقت خطرات‘غیر یقینی صورتحال اور عجلت نے انسانی نفسیات اور تہذیب وتمدن کو غیر متوقع صدمات سے دوچار کرکے مغربی معاشروں کے فیصلہ سازوں کو بے چین کرنے کے علاوہ ان سے فوری اور فیصلہ کن ردعمل کے تقاضوں کو بڑھا دیاہے۔یہ آہستہ آہستہ ترقی پذیر معاشرتی مسائل‘جیسے آبادی کے تناسب میں بتدریج تبدیلی یا مزدور منڈیوں کے ڈھانچے میں تغیر وتبدل کی فطری رفتار کو ریگولیٹ کرنے کے برعکس اچانک جھٹکے عام طور پر ہنگامی اصلاحات کی فوری ضرورت کا احساس تو بڑھا دیتے ہیں لیکن بحران سے نمٹنے کا کوئی سیدھا سادہ راستہ نہیں دیتے جو معمول کی تبدیلیوں کو وقت کی رفتارسے ہم آہنگ رکھ سکیں کیونکہ یہاں عجلت میں ایک نارمل زندگی کی طرح اصلاحات کے مختلف آپشنز تیار کرنے یا ان پہ تبادلہ خیال کرنے کی مہلت نہیں ملتی۔بہر حال اہلِ مغرب بحرانوں کے اوقات کو بحران سے قبل اصلاحات کے منصوبے آگے بڑھانے کے مواقع کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں وہ سماجی نظم و ضبط میسر نہیں جو مشرقی معاشروں کا خاصہ ہوا کرتا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بحران کے بعد معاشرتی پالیسی کے میدان میں اچانک اور بنیادی نوعیت کی اصلاحات کا نفاذ ممکن نہیں رہتا‘جبکہ دوسروں کا استدلال یہ ہے کہ بیرونی جھٹکے کے مضمرات کو کم کرنے کی خاطر معاشرتی پالیسی میں فوری تبدیلی لانا عام ردعمل نہیں ہوتا کیونکہ عالمی معاشی بحران ایک ہی وقت میں داخلی و خارجی استحکام کی گنجائش کو محدود کر دیتا ہے اورجب بہت سے ممالک بیک وقت متاثر ہوں تو ایسے بحران سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال اور عجلت کو دیکھتے ہوئے پالیسیاں بدلنے میں دلچسپی تو بڑھ جاتی ہے مگر ساتھ ہی بحران کے تجربے کے ساتھ معاشرتی پریشانیوں سے نمٹنے کی استعداد کم ہوجاتی ہے‘ تاہم ایک عالمی معاشرتی پالیسی کو بروئے کار لا کر ایسے بحرانوں کو سنبھالنے کی گنجائش پیدا کی جا سکتی تھی اور اسی کے آس پاس کا تجزیہ اُس تناظر کی حیثیت رکھتا ہے جس سے قومی سیاسی بحث کو وابستہ رکھا جا سکتا ہے۔
2008ء کا وہ مالیاتی بحران انہی عوامل پر مشتمل تھا جو امریکہ میں رہائش کے مسائل سے شروع ہوا تھا۔پھر 2010ء کے بعد عالمی سطح پر قرضوں کا بحران ‘کساد بازاری اور یورپی یونین کا بحران‘ جو متعدد ماہرین کی نظر میں بے روزگاری کی تیزی سے بڑھتی ہوئی سطح کے ساتھ مربوط معاشرتی مسائل سے جڑا ہوا تھا وہ ایک قسم کے سماجی زوال کا پتہ دیتا ہے۔اُس وقت بھی بہت سی بین الاقوامی تنظیموں نے بحران سے نمٹنے کے بارے میں جو اندازے اور مشورے پیش کئے ان میں بین الاقوامی اور قومی سطح پر سماجی پالیسی میں تبدیلیوں کی تجاویز نمایاں تھیں۔اگر اسی تناظر میں اپنے موجودہ سیاسی بحران کا جائزہ لیں تو ہمارے سیاسی عدم استحکام کے پیچھے بھی سماجی عوامل کار فرما دکھائی دیتے ہیں۔بلاشبہ سیاسی سطح پر تبدیلی کا ابتدائی تقاضا یہی ہونا چاہیے تھا کہ ہم ایک صحت مند معاشرہ برپا کرنے کی راہ ہموار کرتے‘ لیکن ہمارے اربابِ بست و کشاد سماجیات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ہر عمل چونکہ وراثت اور ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے اس لئے اہلِ جبر امیرانہ اعتماد ِنفس کے ساتھ اس محاسبے میں اپنے وجود کو شمار نہیں کرتے اور یہی فرض کر لیتے ہیں کہ زندگی خارجی طاقتوں کے تال میل کا منفعل نتیجہ ہے۔اس لئے وہ حربی قوت کو بڑھانے کے جوش میں معاشرتی تنظیم کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔اگرچہ آج بھی سویلین بالادستی کی ان تحریکوں کی جڑیں سماجی مسائل میں پیوست ہیں لیکن ہم ان کا تدارک صرف سیاسی عوامل میں تلاش کرتے ہیں۔یونانی اہلِ دانش معاشرے کو منظم کرنے کے عمل کو سیاست کا نام دیتے تھے کیونکہ یہی سماجی نظم و ضبط ہی تہذیب کا سرچشمہ ہے جس نے انسان کو قانون کی اطاعت سکھائی۔ارسطو کہتے ہیں کہ سیاست معاشرے کو متشکل کرنے والے طبقات کے درمیان مفاہمت کا آرٹ ہے ‘یعنی اجتماعی زندگی دراصل متضاد قوتوں کے درمیان توازن کا نام ہے۔
جب ہم جدید سیاسی تمدن کی آبیاری کرنے والی پی ڈی ایم کی تحریک کا جائزہ لیں تو یہ ہمیں معاشرے میں فعالیت کی لہریں ابھارنے والی ایسی طاقتور سرگرمی نظر آئے گی جو ہمارے اجتماعی وجود کو قومی وحدت میں پرونے کے علاوہ ہمیں معاشی مشکلات کے چنگل اور عالمی دباؤ سے نجات دلانے کا وسیلہ بن سکتی تھی‘ لیکن افسوس کہ موجودہ سیاسی کشمکش اس حتمی تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے نتائج فریقین کے لیے خوشگوار نہیں ہو سکتے۔ تاہم صورت حال کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ تحریک آگے بڑھی تو پیپلزپارٹی کے لیے کوئی واضح راہِ عمل اختیار کرنا دشوار بنا دے گی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی پی کی قیادت اقتدار سے ہم آہنگ رہنے کا ہنر تو سیکھ گئی لیکن معاشرے کو موبائلائز کرنے کی استعداد کھو بیٹھی؛چنانچہ وہ کسی ایسی سیاسی کشمکش میں فریق بننے کا رسک نہیں لے گی جس کا ہدف طاقت کے مراکز ہوں‘اس لئے جوں جوں بحران گہرا ہوتا جائے گا‘ توں توں پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ متحارب قوتوں کے دو طرفہ دباؤ میں پستی چلی جائے گی۔ایک طرف اقتدار سے وابستگی کے تقاضے انہیں طاقت کے مراکز کے ساتھ تعاون پہ مجبور کریں گے تو دوسری طرف اپوزیشن کے مقبول بیانیہ کی کشش انہیں پی ڈی ایم کی تحریک سے الگ ہونے سے روکے گی۔اب حکومت نے بھی بحران سے نکلنے کی ساری امیدیں پیپلزپارٹی کے طرزِ عمل سے وابستہ کر لی ہیں‘ اربابِ بست و کشاد کو یقین ہے کہ پیپلزپارٹی نے اگر پی ڈی ایم کو چھوڑا تو حکومت مخالف تحریک کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتیں پچھلے اڑھائی سالوں پہ محیط سیاسی جدلیات میں آصف علی زرداری کے ذہنی رویوں کو پہچان چکی ہیں لہٰذا پیپلزپارٹی کی قیادت سے الجھے بغیر وہ سویلین بالادستی کی تحریک کو آگے بڑھاتی جائیں گی اور یہی پیش دستی پیپلزپارٹی کی سرگرانی کے لیے کافی ثابت ہو گی۔