پی ڈی ایم میں کوئی دراڑ نہیں ہے: یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''ہم پوری طرح متحد ہیں اور پی ڈی ایم میں کوئی دراڑ نہیں ہے‘‘ بلکہ زرداری صاحب کی سیاست سے پی ڈی ایم بذاتِ خود ایک بڑی دراڑ کی صورت اختیار کر گئی ہے، جنہوں نے کسی کی ایک نہ چلنے دی اور مولانا صاحب کو بھی چکرا کر رکھ دیا حتیٰ کہ اب وہ استعفوں کا نام تک نہیں لے رہے، کیونکہ حکومت کے گرنے سے صرف نواز شریف کا مطلب سیدھا ہونا تھا اور ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آنا تھا، بلکہ امید ہے کہ اب وہ لانگ مارچ کو بھی خیر باد کہہ دیں گے اور اپنے اپنے گھروں کی رونقیں آباد کریں گے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ آپ اگلے روز ملتان میں ریلی کے پروگرام کی وضاحت کر رہے تھے۔
مولانا فضل الرحمن کی سیاست الٹ گئی، ان
کے ستارے گردش میں ہیں: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''مولانا فضل الرحمن کی سیاست الٹ گئی، ان کے ستارے گردش میں ہیں‘‘ جبکہ ہم اپنا سارا کام ستاروں کے بغیر ہی چلا رہے ہیں، کیونکہ ایک تو ستاروں کو گننا پڑتا ہے اور دوسرے ستارے ٹوٹتے بھی رہتے ہیں بلکہ بعض ستارے دُمدار بھی ہوتے ہیں جبکہ مولانا کی سیاست کو اُلٹانے میں زرداری صاحب کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا اور اس بحران میں اگر پیپلز پارٹی ہمارا ساتھ نہ دیتی تو ہمارے لیے مسائل پیدا ہو سکتے تھے جبکہ انہوں نے استعفوں سے انکار کر کے ہی ہمارا سارا کام آسان کر دیا تھا، حتیٰ کہ انہی کے دبائو کی وجہ سے دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی ضمنی اور سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں نادرا سنٹر کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
میری گرفتاری پر حکومت کی چھٹی ہو جائے گی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''میری گرفتاری پر حکومت کی چھٹی ہو جائے گی‘‘ اس لیے نہ استعفوں کی ضرورت پڑے گی نہ لانگ مارچ کی اور گوہرِ مراد اپنے آپ ہی ہماری جھولی میں چلا آئے گا۔ پہلے تو میں نے سوچا تھا کہ مفتی کفایت اللہ کی طرح گرفتار کرنے والوں کو غچہ دے کر نکل جائوں لیکن پھر سوچا کہ اگر گرفتاری سے حکومت سے گلو خلاصی ہو سکتی ہے تو اس سے سستا اور آسان طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں دیگر اپوزیشن رہنمائوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نمائشی منصوبے بنا کر عوام کو دھوکا نہیں دیں گے:عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''نمائشی منصوبے بنا کر عوام کو دھوکا نہیں دیں گے‘‘ کیونکہ اگر اصلی منصوبے بنا کر اور انہیں نامکمل چھوڑ کر عوام کو دھوکا دیا جا سکتا ہے تو نمائشی منصوبوں کی کیا ضرورت ہے، یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ ایک حکومت کوئی منصوبہ نا مکمل چھوڑتی ہے تو دوسری حکومت آ کر اسے مکمل کرتی، اس کا افتتاح کرتی اور اس پر اپنے نام کی تختی لگاتی ہے جیسا کہ ہم کر رہے ہیں اور یہ درخشاں روایت ابد تک جاری و ساری رہے گی اور یہ قوم اپنی ایسی روایات ہی کی پاسداری کر کے ترقی کی منزلوں کو چھو رہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور کو حقیقی ترقی کا تحفہ دینے کا اعلان کر رہے تھے۔
لانگ مارچ ہر صورت ہو گا، استعفوں کا فیصلہ
بعد میں کریں گے: رانا ثناء اللہ
سابق وزیر قانون پنجاب اور نواز لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ''لانگ مارچ ہر صورت ہو گا، استعفوں کا فیصلہ بعد میں کریں گے‘‘ بلکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ استعفوں کا فیصلہ زرداری صاحب نے کر کے بتا بھی دیا ہے اور لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ بھی وہی کریں گے جیسا کہ انہوں نے ضمنی اور سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کر کے سب کو حیران کم اور پریشان زیادہ کر دیا تھا اور چونکہ مولانا ہر محاذ پر اُن کے سامنے ناکام ہو چکے ہیں‘ اس لیے ہم سوچ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کا صدر زرداری صاحب کو بنا دیا جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
تحریک فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی ہے: عبدالغفور حیدری
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ''تحریک فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی ہے‘‘ کیونکہ استعفوں اور ضمنی و سینیٹ انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ لینا پڑا ہے اور اب لانگ مارچ باقی رہ گیا ہے جس کے بارے میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ اگر یہ مارچ ایک مہینہ نکال گیا تو وہ استعفے کے بارے سوچنا شروع کر دیں گے اور یہی ہماری اصل فتح اور کامیابی کی نشانی ہے اس لیے ہم لانگ مارچ کو ایک ہفتہ تک جاری رکھنے کی بھرپور کوشش کریں گے بشرطیکہ اس دوران حسبِ سابق کوئی یوٹرن نہ لے لیا جائے۔ آپ اگلے روز کراچی میں جمعیت علمائے اسلام سندھ کے سیکرٹری جنرل مولانا راشد محمود کے برادرِ نسبتی کے انتقال پر اظہار تعزیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی غزل:
یوں بھی نہیں کہ راہگزر کے بغیر تھا
سارا سفر ہی رختِ سفر کے بغیر تھا
پایانِ کار کھول کے دیکھا تو سر بسر
سارا کلام عیب و ہنر کے بغیر تھا
نغمہ رہا ہمیشہ ہی سُر تال کے بغیر
نالہ بھی اپنا دیدۂ تر کے بغیر تھا
اپنے ہی سب اندھیرے اجالے تھے روبرو
پورا نظام شام و سحر کے بغیر تھا
ساری وہ آرزوئیں تبھی گھُٹ کے رہ گئیں
دل کا مکاں دریچہ ودر کے بغیر تھا
چلتا ہوا ہے کارِ محبت جو آج تک
یہ کاروبار نفع و ضرر کے بغیر تھا
بے نام سی تھی ایک توجہ بھی ساتھ ساتھ
صرفِ نظر بھی صرفِ نظر کے بغیر تھا
اعراب کے بغیر ہی پڑھنا پڑا سبھی
سارا ہی متن زیر و زبر کے بغیر تھا
زورِ بیان ہی زورِ بیاں تھا یہاں‘ ظفرؔ
ورنہ تو جو بھی تھا وہ اثر کے بغیر تھا
آج کا مقطع
میں روز اپنے کناروں سے دیکھتا ہوں‘ ظفرؔ
کہاں سے دور ہے دنیا، کہاں سے دور نہیں