چین کی اعلیٰ تعمیر و ترقی اور اس کے کامیاب نظامِ حکومت نے اقوام عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے کہ کس طرح تمام تر شدید مشکلات کے برعکس چین نے سماجی و معاشی محاذوں پر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا اور دنیا کو اپنی کرشماتی ترقی کے سحر میں جکڑ لیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ابتدائی طور پر معاشی طور پر محروم ایک سخت سوشلسٹ سوسائٹی کے طور پر دیکھا جانے والا چین اب منفرد گورننس ماڈل کے ذریعے دنیا میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے جہاں سوشلزم کے تحت ایسا نظامِ حکومت تشکیل دیا گیا جس میں ہر طبقے کو بیش بہا سماجی و معاشی فوائد حاصل ہوئے ہیں جبکہ عالمی ماہرین مذکورہ نظام کی تہہ تک پہنچنے کیلئے تفصیلی مطالعہ میں مصروف ہیں کہ کس طرح چین کے طرزِ حکمرانی کو عظیم کامیابی ملی؟ دراصل چین کے مذکورہ نظام میں حکومتی شعبوں کی بہتری پر زور دیا گیا۔ یکم اکتوبر 1949ء کو طویل خانہ جنگی کے اختتام پر عوامی جمہوریہ چین نے آزادی حاصل کرنے کے بعد کرشماتی گورننس ماڈل میں اصلاحات کا آغاز چیئرمین کمیو نسٹ پارٹی مائوزے تنگ نے کیا۔ مائوزے تنگ کو جدید چین کا بانی سمجھا جاتاہے۔ چین کے لوگ افیون کے نشہ کی لت میں مبتلا تھے لیکن مائوزے تنگ نے اپنی قوم سے یہ لت چھڑوا کر اسے دنیا کی ایک محنتی قوم بنادیا۔ ان کے بعد جتنے رہنما آئے‘ انہوں نے اپنی پالیسیوں کے باعث چین کو ترقی کے نئے سے نئے راستے پر گامزن کیا اور ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی جاری رکھی کہ چین کی ترقی پسندانہ پالیسیا ں منجمد نہ ہو نے پائیں تا کہ جو نئے چیلنجز آئیں‘ ان کا مقابلہ کیا جاسکے اور یہی وجہ ہے کہ چین آج اس مقام پر کھڑا ہے۔
درحقیقت چین کی کمیونسٹ پارٹی‘ جسےCCPبھی کہتے ہیں‘نے ریاست کے سماجی، سیاسی اور معاشرتی شعبے میں اصلاحات پر عملدرآمد کرانے میں ریاست کی رہنمائی کی اور موجودہ کامیاب حکومتی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں چین کو ایک مضبوط، اعتدال پسند خوشحال معاشرے اور جدید سوشلسٹ ملک میں ڈھالنے کا عزم ظاہر کیا گیا اور کامیابی و کامرانی کا یہ سفر آج بھی جاری و ساری ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے یکم جولائی 1921ء کو صرف 58 افراد کے ساتھ ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھی جس کی بدولت عوام کو جاگیردارانہ اور نو آبادیاتی تسلط سے نجات ملی اور آج تقریباً ایک صدی بعد پارٹی اراکین کی تعداد 9کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کو عمومی طور پر درجہ بندی کرتے ہوئے تین مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سب سے اعلیٰ سطح پر نیشنل کانگریس‘ دی سینٹرل کمیٹی اور پولیٹ بیورو سٹیڈنگ کمیٹی جو پی بی ایس سی سمیت چین کی اعلیٰ لیڈر شپ پر مشتمل ہوتی ہے۔ دوسری سطح پر سیکرٹریٹ سینٹرل کمیٹی، دو سپیشل کمیشنز، ملٹری کمیشن اور نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے سینٹرل کمیشن، سی سی ڈی آئی(CCDI) پارٹی کی پالیسی بنانے میں بڑا کردار ادا کرنے والے گروہوں کا احاطہ کرتی ہے۔ تیسرے درجے پر چین کے انتظامی مسائل کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ CCP کی تجویز پر مقامی حکومتی نظام پراونشل، میونسپل ملکی قصبوں کی سطح پر منقسم ہے۔ سی سی پی ڈھانچے کو تمام سٹرکچر یونٹس میں زیر بحث لایا جاتا ہے۔ چینی ریاست نے لیجسلیٹو، انتظامی اور عدلیہ کے شعبوں میں گورننس کی درجہ بندی کر رکھی ہے۔ یہ گروہ مجموعی کام اور سینٹرل کمیٹی کی پالیسی پر عملدرآمد کروانے کاذمہ دار ہے۔ لیجسلیٹو برانچ نیشنل پیپلز کانگرس کے قانونی منصوبوں کا نفاذ عمل میں لاتی ہے۔ انتظامی سطح پر ریاستی کونسل کے ذریعے تمام حکومتی پہلوئوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جس کا سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے اور حکومتی وزراء اپنی اپنی وزارتوں کے لئے جوابدہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ جوڈیشنل برانچ کا بھی حکمرانی میں وسیع کردار ہے مگر یہ آئین کی تشریح نہیں کر سکتی لہٰذ یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دہرا گورننس ماڈل اجتماعی اصولوں، اتفاقِ رائے پر مبنی فیصلوں پر ہی قائم ہے۔ جہاں تمام جماعتیں اور سرکاری عہدیدار براہِ راست مختلف درجوں پر فیصلہ سازی میں شامل ہیں۔
چینی طرزِ حکمرانی کی ایک انوکھی اور منفرد خصوصیت''انتخاب‘‘ کے بجائے ''انتخاب تک رسائی‘‘ حاصل کرنا ہے۔ چینی قیادت مغربی جمہوری انتخابی نظام کی مانند الیکٹرول سسٹم کی پیروی نہیں کرتی کیونکہ چینیوں کے مطابق انتخابات چینی متنوع معاشرے کی ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔ ان کا انتخابی نظام ان کی مخصوص ثقافتی روایات سے عبارت ہے۔ جس میں کسی فرد کی قابلیت و صلاحیت کی بنا پر ہی انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے تا کہ ملکی ترقی کے وژن کو آگے بڑھایا جایا جا سکے۔ مغربی پروپیگنڈے کے برعکس یہ نقطہ نظر مطلق العنانیت کا محاسبہ نہیں کرتا کیونکہ اس نے معاشرے میں لبرل معاشرتی اقدار کو فروغ دیا ہے۔ اٹھارہ سال سے زائد عمر کے افراد‘ قطع نظر کہ اُن کی جنس، قومیت یا سماجی اقتصادی حیثیت کیا ہے‘ وہ پارٹی رکنیت کے اہل ہیں۔ CCP کی یہ خوبی ہے کہ یہاں نوجوانوں، خواتین اور مختلف اقلیتوں کی نمائندگی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ پارٹی میں احتساب اور نظم و ضبط کا بھی ایک کڑا معیار ہے، کسی بھی سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے اراکین یا کوتاہی کے مرتکب پارٹی عہدہ داروں کو فی الفور معطل کرنے سمیت تادیبی کارروائی کی جاتی ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے بیجنگ میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کررکھا ہے جہاں پارٹی کے اراکین کومتعلقہ شعبوں میں وزیر‘ مشیر بنانے اور چین کے لئے نئی قیادت تیار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ تربیت مکمل ہونے کے بعد ان کو سر ٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس اس انسٹیٹیوٹ کا سر ٹیفکیٹ نہ ہو تواسے وزیر یا مشیر بنانے کے قابل نہیں سمجھاجاتا۔ یہاں تک کہ چین کے آنے والے صدر کو پانچ سال پہلے ہی صدر بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔بلاشبہ چینی کمیونسٹ پارٹی نے گورننس کا ایک مؤثر، ٹھوس اور جامع نظام متعارف کروایا اور ایسی مضبوط قیادت فراہم کی جس نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا؛ چنانچہ تمام تر مغربی اعتراضات کے باوجود چینی طرزِ حکمرانی ایک آئیڈیل نظام ہے جس کے تحت قیادت کا بنیادی مقصد عوام کے ساتھ مل کر ایک خوشحال، مضبوط، جمہوری اور ثقافتی اعتبار سے ترقی یافتہ اور جدید سوشلسٹ ملک کا قیام ہے اور یہی CCPکی عوام میں مقبولیت کی بنیاد ہے۔
ایسے وقتوں میں جب جدید لبرل جمہوریتوں کو انسانی ترقی کے مسائل کو حل کرنے میں اپنی واضح ناکامی پر ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ کس طرح چین نے خود کو خطِ افلاس سے نکال کر خوشحال قوم میں لا کھڑا کیا ہے‘ یہ اپنے آپ میں اتنا بڑا اقتصادی کرشمہ ہے جس پر دنیا بھر کے معاشی ماہرین انگشت بدنداں ہیں‘ لہٰذا مغربی بے معنی پروپیگنڈے سے قطع نظر‘ چین عالمی تجارتی محاذ کی قیادت کر رہا ہے جو صرف اس کی منفرد حکمرانی اور ترقیاتی ڈھانچے کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ چین کی مسلسل کوشش ہے کہ ایک بڑے ذمہ دار ملک کی حیثیت سے گورننس کے عالمی نظام کے تحفظ، وبائی صورتحال سے دوچار معیشت کی بحالی، بین الاقوامی امن و استحکام کے تحفظ سمیت اہم عالمی و علاقائی امور میں بھی فعال کردار ادا کیا جائے اور ترقی کے ثمرات کو تمام ممالک کے عوام تک پہنچایا جائے۔ عالمگیر وبائی صورتحال میں چین کا انسدادِ وبا کا کامیاب ماڈل دنیا کے لیے ایک مثال بن چکا ہے۔ اتنی برق رفتاری، انسان دوستی اور اتنے قلیل عرصے میں کبھی تاریخ میں کسی قوم‘ کسی تہذیب نے ایسی ترقی نہیں کی جو آج چین کا خاصہ سمجھی جاتی ہے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 100 ویں سالگرہ پر وہ چین کو 2021ء میں ایک ''جدید اور خوش حال معاشرے‘‘ میں ایسے بدلنا چاہتے ہیں کہ کوئی غربت کا شکار نہ رہے۔ اس فوری ہدف کے ساتھ ساتھ وہ عوامی جمہوریہ چین کو عالمی طاقت بنانے پر کمربستہ ہے جبکہ 2035ء تک چین امریکا اور یورپ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دُنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہوگا۔ چین دنیا میں خام ملکی پیداوار کے حساب سے چوتھا ملک ہے اور بڑی تیزی سے مزید ترقی کر رہا ہے اور اب یہ بات شک سے بالاتر ہے کہ اگر چین ایسے ہی ترقی کرتا رہا تو جلد ہی اسے دنیا کی ایک عظیم طاقت تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ چین نے کرشمانہ طور پر ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔ اگر ایک جانب وہ دوسری بڑی اقتصادی قوت ہے تو اس کے ساتھ دفاعی شعبے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے‘ یہی وجہ ہے کہ موجودہ عالمی تناظر میں وہ امریکا کو پیچھے چھوڑ کرعالمی سپر پاور کا منصب سنبھالنے جا رہا ہے۔ بلاشبہ چین نے عالمی و علاقائی تناظر میں سفارتی شعبے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس عرصے میں چین کی جانب سے ون بیلٹ ون روڈ یعنی 'دی بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹو‘ جیسے عظیم منصوبے کا خیال پیش کیا گیا جو مشترکہ مفاد کی ایک بہترین مثال ہے۔ یقینادی بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹو اور سی پیک منصوبے سے خطے میں امن و استحکام اور ترقی کو مہمیز ملے گی۔