تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     04-01-2021

سوشل میڈیا ایکٹ 2020 ء

یورپی یونین کے ادارے ای یو ڈس انفو لیب کی تحقیقاتی رپورٹ ''انڈین کرانیکلز‘‘ نے پاکستان کے خلاف بھارت کے منظم پروپیگنڈے کو پوری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ اگر یہ رپورٹ پاکستان کے اداروں یا کچھ میڈیا ہائوسز سے پوری سچائی، تحقیق اور ایمانداری سے جاری کی ہوتی‘ تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیاسی راہداریوں کے غلام اسے ایجنسیوں کی گھڑی ہوئی داستان کہتے ہوئے اپنے پسندیدہ چینلز اور اینکرز کی معیت میں اس پر قہقہے برساتے نہ تھکتے بلکہ ایسی رپورٹ سامنے آنے کے بعد پہلے سے بھی زیا دہ شدت اور طاقت سے اپنے ہی ملک اور اس کے سرحدی اور نظریاتی محافظوں کے خلاف دن رات ایک کئے رکھتے۔
سوشل میڈیا پر صوبائیت، لسانی عصبیت، فرقہ پرستی اور سکیورٹی اداروں کے خلاف جو طوفانِ بدتمیزی گزشتہ دس برسوں سے جاری تھا‘ اس میں گزشتہ پانچ برسوں میں وہ شدت آئی ہے جس سے لگتا ہے کہ یا تو پاکستان میں اس ضمن میں قانون نہیں یا یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت میں تو مخالف جماعتوں کے سوشل میڈیا کے لائو لشکر ریاستی اداروں پر اس طرح پل پڑے ہیں جیسے انہیں نہ کسی کا ڈر ہے اور نہ ہی خوف۔ پہلے پی ٹی ایم اور اب پی ڈی ایم کا کندھا استعمال کرتے ہوئے وطن عزیز کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں پر جو حملے ہو رہے ہیں، ان سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی آخری معرکہ سر کرنے کی کوششوں میں مشغول ہے۔
سوشل میڈیا کو ایک بے ضرر تفریح سمجھے والے ظاہری، باطنی اور اندرونی بدخواہوں کی آگ برساتی تحریروں اور کارٹونز کو پڑھنے اور دیکھنے کے بعد محبِ وطن حلقے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں کہ ان کو کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں جنہوں نے پاکستان کو ہائبرڈ وار کا سب سے بڑا نشانہ بنا رکھا ہے؟ ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے حملوں میں بے خوفی کے ساتھ ساتھ روز بروز تیزی آ تی جا رہی ہے اور اس ہائبرڈ وار نے لسانیت، عصبیت اور فرقہ واریت کی آڑ میں قومی یکجہتی پر مہلک اور کاری ضربیں لگاتے ہوئے ملکی قوانین کو پائوں تلے روند رکھا ہے‘ جس سے نجانے کن مصلحتوں کی وجہ سے ابھی تک صرفِ نظر کیا جا رہا ہے۔ اس قدر بے لگام معاشرہ تو کہیں بھی نہیں پنپ سکتا؛ چہ جائیکہ پاکستان جیسی ریاست‘ جو چاروں جانب سے دشمنوں اور نادان دوستوں میں گھری ہوئی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ پانی سر سے اس قدر اونچا ہو جاتا کہ سب اس میں غوطے کھانے لگتے لیکن بھلا ہو ان محب وطن لوگوں کا‘ جنہوں نے دور د ور تک لاتعلق متعلقین کو دہائی دینا شروع کی کہ جناب اٹھیں اور دشمن کی بڑھتی سازشوں اور ان ناپاک ہاتھوں کو روکنے کی کوشش کریں کیونکہ بات اب حد سے بڑھنا شروع ہو چکی تھی اور حد بھی وہ‘ جس کے آگے سوائے تباہی اور بربادی کے دوسری کوئی منزل یا کنارہ نہیں۔ اس خطرے کا احساس ہونے پر پاکستان میں ترمیمی سوشل میڈیا ایکٹ 2020ء کی تیاری شروع ہوئی تھی مگر اب اس ترمیمی بل کی تیاری کو بھی ایک عرصہ ہو چلا ہے مگر اس پر عملی اقدام شاید اب بھی کتابوں اور فائلوں میں ہی کہیں محفوظ ہیں، اور شاید یہ یونہی محفوظ رہتے اگر اچانک ''انڈین کرانیکلز‘‘ کا دھماکا نہ ہوتا۔
اگر حکومتی ذمہ داران کو اپنی بے پناہ سیاسی مصروفیات کی وجہ سے اس طرف دھیان دینے کا وقت نہیں مل رہا تو یاد کرائے دیتا ہوں کہ کچھ عرصہ ہوا‘ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی خصوصی ہدایات پر چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی سربراہی میں ''Revised Social Media Rules‘‘ کی تیاری کیلئے ملک کے ہر طبقۂ فکر سمیت مختلف قومی اداروں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان سب کی سفارشات کی روشنی میں سوشل میڈیا قوانین کے خدوخال اور ضابطے وضع کئے گئے تھے، حتیٰ کہ اس کیلئے نیشنل اور انٹرنیشنل سٹیک ہولڈرز کی رائے بھی لی گئی تھی۔ وزارتِ قانون اور انصاف سے سوشل میڈیا کے ترمیمی قوانین کے خدوخال کی اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد کابینہ نے اس کی باقاعدہ منظوری دی تھی جس کے بعد اس ایکٹ کو وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سپرد کر دیا گیا تھا تاکہ دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت انگیز بیانات، باغیانہ رویے اور اقدامات، جعلی اور بوگس خبریں پھیلانے، توہین آمیز، تشدد انگیز اور قومی سلامتی کے خلاف مواد استعمال کرنے والوں کو قانون کے شکنجے میں لایا جا سکے۔
جیسے ہی یہ رولز سامنے آئے سب سے پہلے مخصوص اینکر حضرات نے ان ترمیمی رولز کو 'ڈراکیونین لاء‘‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے اس کے خلاف بین الاقوامی طور پر شور و غوغا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمیشہ کی طرح ایک نئی تنظیم کا نام سامنے آیا جس نے طوفان اٹھانا شروع کر دیا لیکن ابھی دنیا بھر کو ان قوانین کے خلاف ابھارنے کیلئے ہائبرڈ وار کا آغاز ہواہی تھا کہ ''سری واستو گروپ‘‘ ایک آہنی مکا بن کر ان کے منہ پر پڑا جس نے ان کے تیز اور نوکیلے دانت اکھیڑ کر رکھ دیے اور اس رپورٹ میں تاریخی حقائق کی پے درپے ضربوں نے ان کے پسینے چھڑا دیے کیونکہ ان سب کے ممدوح بھارت پر اپنے سفلی کرتوتوں کی وجہ سے‘ پاناما کی طرح یورپی یونین کے ایک گروپ کی شبانہ روز محنت سے سامنے آنے والی رپورٹ کی صورت میں آسمان سے ایک تازیانہ برسا تھا، جس کی لپیٹ میں آ کر خوابوں کا یہ محل دھڑام سے زمین بوس ہو کر ٹکڑوں کی صورت میں بکھر گیا۔ سوشل میڈیا کو ریاست یا قومی یکجہتی کے خلاف استعمال کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کیلئے سائبر قوانین کا نفاذ صرف پاکستان ہی نہیں کرنے جا رہا بلکہ اس سے پہلے مصر، سعودی عرب، ناروے اور چین سمیت متعدد ممالک نے ایسے قوانین متعارف کر ارکھے ہیں۔
انڈین کرانیکلز کے بعد تو کسی قسم کا شک و شبہ رہ ہی نہیں جاتا کہ بھارت اور اس کے کچھ اتحادی اپنی بھرپور کوششوں اور تعاون سے پاکستان کے خلاف تاریخ کی بدترین مخالفانہ پروپیگنڈا مہم چلانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ یہ سچ اب دنیا کے ہر باخبر ادارے کے کانوں تک پہنچ چکا ہے کہ پاکستان پر لگائے گئے اور بار بار دہرائے جانے والے بھارت اور اس کے اتحادیوں کے تمام الزامات جھوٹ کا پلندہ تھے۔ بدقسمتی سے اپنے ہی ملک کے وقار سے کھیلنے کیلئے کچھ بدبختوں کو بٹھا کر پاکستان اور اس کی فورسز کے خلاف دنیا جہان کے جھوٹ گھڑنے والا بھارت پچھلی ڈیڑھ دہائی سے پروپیگنڈا کے اس کاروبار سے منسلک ہے اور اس حوالے سے لاتعداد سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ ''سری واستو گروپ‘‘ کا پردہ چاک ہونے کے بعد‘ جھوٹے میڈیا آئوٹ لیٹس کی خبروں کی بنیاد پر اپنے ہی ملک اور اداروں کے خلاف پروگرام کرنے والے اینکرز کیا کبھی اپنے ملک اور اپنے عوام سے معافی مانگیں گے؟ انہیں تو شاید اپنی غلطی کا احساس بھی نہیں۔ جگایا اسے جاتا ہے جو سو رہا ہو‘ وہ جو آنکھیں بند کئے جاگ رہا ہو‘ اسے کیا کہیے؟ اب پاکستان کے بدخواہوں کے خلاف وہ قانون حرکت میں آئے گا جسے:'Removal and Blocking of Unlawful Online Content (Procedure, Oversight and Safeguards) Rules 2020 یعنی سوشل میڈیا ترمیمی رولز 2020ء الیکٹرانک کرائم ایکٹ (PECA) 2016ء کے نام سے متعارف کرایا جا رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved