معمول یہ تھا کہ اپنے عہد میں قرأت کے امام ابوالحسن کسائی کے سامنے ننھا مامون قرآن پڑھتا چلا جاتا ، جس آیت پر غلطی کرتا اس پر امام کسائی اپنا جھکا ہوا سر اٹھاکر اسے دیکھتے اور مامون اس آیت میں اپنی غلطی درست کرکے دہرا دیتا۔ آیت کی دہرائی کا یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا جب تک امام معمول کے مطابق اپنا سر نہ جھکا لیتے۔ ایسا بہت کم ہوتا کہ امام کو خود بول کر اسے سمجھانا پڑے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان بغیر ایک لفظ کے یہ مکمل ابلاغ امام کسائی کا ہی خاصہ تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی امام کسائی ہیں جن سے قران مجید کی سات میں سے ایک قرأت منسوب کی جاتی ہے۔ ایک روز جب مامون تلاوت کے دوران سورۃ الصف کی ان آیات پر پہنچا ’وہ کچھ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیںاور اللہ کو یہ بات ناپسند ہے کہ جو تم کہو وہ نہ کرو‘ (مفہوم) تو امام کسائی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔شہزادے نے سمجھا کہ شاید کوئی غلطی ہوئی ہو۔ اس نے ایک بار پھر آیت دہرائی تو استاد کو اپنی طرف ہی دیکھتے ہوئے پایا۔ مامون کو غلطی کی سمجھ نہ آئی کیونکہ وہ بالکل ویسے ہی پڑھ رہا تھا جیسے امام نے اسے سکھایا تھا۔ تیسری بار اس نے یہ آیت پھر دہرائی تو استاد نے گہری نظروں سے دیکھ کر سر جھکا لیا۔بغیر کسی غلطی کے استاد کی طرف سے یہ فہمائش مامون کے ذہن کی الجھن بن گئی۔ اس نے کچھ سوچا اور اپنی الجھن ایک سوال کی شکل میں لے کر اپنے باپ ہارون الرشید کے پاس جا پہنچا۔ آداب بجا لانے کے بعد پوچھا: ’ابا حضور ! کہیں ایسا تو نہیں کہ امام کسائی کا کوئی کام آپ کے پاس احکام کا منتظر ہو‘۔ نامور باپ کو یہ سوال کچھ ناگوار گزرا لیکن اس نے کہا: ’ایسا تو کوئی کام نہیں البتہ انہوں نے محل میں شاہی خاندان کے بچوں کے اساتذہ کے مشاہرے میں اضافے کا کہا تھا ، ان کی یہ درخواست فوری طور پر منظور بھی کرلی گئی تھی اور گزشتہ دو ماہ سے اس پر عمل ہورہا ہے‘۔ مامون نے ادب سے ایک قدم آگے بڑھایا ، باپ کے دامن کو بوسہ دیا اور عرض کی: ’کیا آپ کو یقین ہے کہ ایسا ہوچکا ہوگا؟‘ ۔ خوش گمانی اور بدگمانی کی انتہاؤں پر رہنے والا ہارون بیٹے کی بات سن کرغصے میں آگیا اور پوچھا: ’کیا ابوالحسن نے شہزادے کو استعمال کرنا چاہا ہے؟‘۔ بیٹے نے اپنے استاد کا نام پہلی بار اس انداز میں اپنے باپ سے سنا تھا ورنہ ہارون ہمیشہ امام یا استاذالقرأ کہہ کر ان کا ذکر کرتا تھا۔ باپ کو غصے میں دیکھ کر ہونہار بیٹے نے تفصیل بیان کی کہ آج کس طرح سورۃ الصف کی دوسری اور تیسری آیات پراستاد نے گہری نظروں سے اسے دیکھا تھا، حالانکہ اس نے آیات کی تلاوت بالکل ٹھیک کی تھی۔ یہ سن کر ہارون نے بیٹے کی نکتہ سنجی کی داد دی اور ساتھ ہی متعلقہ محکمے کو حکم دیا کہ اساتذہ کی تنخواہوں کا رجسٹر فوری طور پر حاضر کیا جائے۔ جب رجسٹر آیا تو معلوم ہوا کہ خلیفہ کے حکم کے باوجود بیورو کریسی نے منظوری کی دستاویز خزانہ والوں تک نہیں پہنچائی تھی۔ ہارون کو جب یہ صورت معلوم ہوئی تو اس نے بیٹے کی عقل مندی کی داد دی اور امام کسائی کو تحائف بھجوا کر اپنی سرکاری مشینری کی غلطی کا ازالہ کیا۔ اس واقعے کو بارہ سو برس گزر چکے ہیں لیکن بارہ صدیوں میں بھی حکمران یہ نہیں سمجھ پائے کہ ان کا کام صرف حکم جاری کرنا ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کرانا بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ بڑے بڑے دعوے اور فوری طور پر کام کرنے کے احکامات تو جاری ہوجاتے ہیں لیکن یہ سب بیوروکریسی کی فائلوں کا پیٹ بھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ جو کام خود صاحب لوگوں کے دل کو لگے اس میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جاتی اور جو کام نہ کرنا ہو اس کے لیے اتفاق رائے، پالیسی سازی اور کمیٹیوں کی تشکیل جیسے مسلّمہ بہانے موجود ہیں۔ ان بہانوں سے مسائل حل تو ہوتے نہیں البتہ الجھتے ضرور چلے جاتے ہیں۔ان الجھے ہوئے مسئلوں میں سر فہرست دہشت گردی ہے۔ اس مسئلے کی پیدائش ہمارے ملک کے مختلف اداروں کی الگ الگ ترجیحات کے باہمی تعامل سے ہوئی۔ بلا شبہ اس میں دنیا کے بعض دوسرے ملکوں کا ہاتھ بھی رہا لیکن اصل میں قصور ہمارا ہی ہے۔ ہم نے انہیں اتنی چھوٹ دی کہ وہ لوگ سات سمندر پار سے آکر ہمارے ہاں وہ کھیل کھیلیں جو وہ اپنے ملکوں میں نہیں کھیل سکتے۔ اب بھی جبکہ ہمارے چالیس ہزار لوگ دہشتگردی کے اس عفریت کا شکار ہوچکے ہیں ہم مشاورت ، مذاکرات ، اتفاق رائے اور پالیسی سازی کی بے معنی اصطلاحوں میں الجھ کر اپنا وقت ضائع کرنے کے سواکچھ نہیں کررہے۔ ہماری ریاستی بے فکری اور غفلت کا اندازہ یوں لگایئے کہ خود ہمارے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بتاتے ہیں کہ کوئٹہ میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کی تحقیق و تفتیش کے لیے ہمارے اداروں نے کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ دہشتگردی کے بارے میں کوئی بھی فلسفہ بگھارا جائے لیکن اس حوالے سے بنیادی سوال ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جب ہمارا دستور ہر شہری کو زندگی کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم قاتلوں کو مختلف نام دے کر چھوڑ دینے کے بہانے تراش لیتے ہیں۔ اگر ایک شخص کراچی میں قتل ہو تو اسے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ قرار دے کر خاموش ہوجاتے ہیں، کوئی خیبر پختونخوا میں بم دھماکے کا نشانہ بن جائے تو دہشتگردوں پر الزام رکھ کر چپ ہوجاتے ہیں، پنجاب میں قتل ہونے والے کے فرقے کا تعین کرکے پولیس خاموش رہتی ہے اور بلوچستان میں کوئی مسخ شدہ لاش ملے تو اسے شورش پسندوں کے کھاتے میں ڈال کر حکمران ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں۔ انسانی جان کے زیاں کو مختلف علاقوں میں مختلف نام دے کر ہمارے ریاستی ادارے اور حکومت سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا کام کرلیا اور ان کی ذمہ داری پوری ہوگئی۔ ان کا یہی رویہ ہے جس کی وجہ سے ریاستی مشینری اور عوام میں یہ ابہام پھیلتا ہے کہ قانون کے نفاذ کا کوئی ارادہ ہماری ہیئت حاکمہ میں سرے سے موجود ہی نہیں اور ڈرون حملوں سے لے کر کراچی میں ہونے والی ٹاگٹ کلنگ تک کا ہر معاملہ کسی نہ کسی سیاسی تنازعے کا شاخسانہ ہے، جسے سیاسی طور پر نمٹانا ہی قرینِ صواب ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے داخلی امن و امان کے حوالے سے ضرور کچھ ایسی باتیں کی ہیں جو خوش کن ہیں لیکن یہ صرف باتیں ہی ہیں۔ اس وقت تک صورتحال یہ ہے کہ چودھری صاحب کی ہر سخت بات کا نتیجہ دہشتگردی کی ایک بڑی کارروائی کی صورت میں نکلتا ہے۔ انہوں نے وزارت سنبھالی تو کوئٹہ میں آگ بھڑک اٹھی، کراچی میں لیاری جلنے لگا ، ابھی تین دن پہلے جب انہوں نے اپنی داخلہ پالیسی کے خدوخال بیان کیے تو خیبر پختونخوا کے ایک مدرسے میں فرقہ واریت کے نام پر خون کی ہولی کھیلی گئی اور گلگت میں غیر ملکی سیاحوں کو ایک ہوٹل میں گھس کر بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ایک نئی حکومت کو گزشتہ بارہ سالوں سے جاری دہشتگردی کے لیے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا لیکن یہ بہرحال کہا جاسکتا ہے کہ دہشتگردی کرنے والے حکومت کی تبدیلی کو محض افراد کی تبدیلی ہی سمجھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ یہ لوگ بھی ذرا زیادہ معقول باتوں کے سوا کچھ نہیں کریں گے۔ اگر عمل کرنا ہو تو پھر دیوانوں کی طرح ہر واردات کو مختلف عنوان دینے کے رجحان سے گریز کرتے ہوئے اس کے ذمہ داروں کو پیچھا کرنا ہوگا،چاہے یہ بلوچستان کے پہاڑوں میں ہیں، خواہ مذہب کے نام پر امریکہ سے نبرد آزما ہیں، کسی پر تشدد مذہبی تشریح کے نفاذ کے لیے کوشا ں ہیں یا کراچی میں کسی سیاسی جماعت کی گود میں بیٹھ کرتاک تاک کر نشانے لگاتے ہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا اس وقت تک چودھری نثار کی باتیں صرف باتیں ہی ہیں۔ عمل کے بغیر باتیں اللہ کو پسند ہیں نہ اس کی مخلوق کو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved