تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-01-2021

میرا مالک بڑا رحیم و کریم ہے

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے اخبارات اور نیوز چینلز کا بیشتر حصہ اور وقت سیاست کی نذر ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے یہ طلب پر چلنے والی مارکیٹ کا زمانہ ہے سو دکان پر وہی چیز رکھی جاتی ہے جس کی طلب زیادہ ہو۔ اب اس چیز سے کیا بحث کہ طلب ہونی کیا چاہیے تھی؟ اب آپ ہماری دین فہمی کو ہی دیکھ لیں۔ قرآن مجید میں آیات کی غالب تعداد معاملات سے متعلق ہے اور ان کے مقابلے میں عبادات سے متعلق آیات کی تعداد نسبتاً کہیں کم ہیں مگر محراب و منبر کے اونچے مقام سے لے کر مجھ جیسے عامی تک‘ سب کا زور عبادات پر ہے اور کفر کے اکثر فتوے اسی بنیاد پر جاری ہوتے ہیں۔
قارئین معاف کیجیے گا‘ بات دوسری طرف چلی گئی۔ اب شاید ہی کوئی مجلس‘ محفل‘ تقریب یا اجتماع ایسا بچا ہو جس میں بات گھوم پھر کر آخر کار سیاست پر نہ آ جاتی ہو۔ گفتگو کا آغاز کسی بھی موضوع سے کر لیں جونہی اس میں تھوڑا ٹھہراؤ اور سنجیدہ مقام آتا ہے عین اسی وقت سے اس اچھی بھلی گفتگو میں کہیں سے کوئی صاحب سیاسی کنکر مار دیتے ہیں اور پھر باتوں کا رخ سیاست کی طرف چلا جاتا ہے۔ ایک گھمسان کا رن پڑتا ہے اور جب تک محفل جاری ہے یہ پانی پت کی جنگ جاری رہتی ہے۔ فریقین کی ڈھٹائی‘ اپنی اپنی سیاسی جماعت سے غیر مشروط وابستگی‘ دلیل اور جواز سے لاتعلقی اور غلامی کی حد تک اپنی پارٹی قیادت سے وفاداری کے باعث بنا ہار جیت ختم ہو جاتی ہے؛ تاہم یہ خاتمہ صرف تب تک ہوتا ہے جب تک یہ دوبارہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔
اب ایسے میں کالم نگار کیا کرے؟ اگرکالم غیر سیاسی موضوع پر لکھتے ہیں تو نہ صرف پڑھنے والوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے بلکہ ان غیر سیاسی کالموں پر ناپسندیدگی بھرے پیغامات کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ بعض قاری تو باقاعدہ برا بھلا کہنے پر اُتر آتے ہیں۔ ایسے میں کالم نگار قارئین کی اکثریت رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اگلا کالم دوبارہ سیاسی موضوع پر قلمبند کر دیتا ہے؛ تاہم ایمانداری کی بات ہے کہ ان غیر سیاسی کالموں کی پذیرائی کرنے والے گو کہ تعداد میں کم ہیں مگر حقیقی سنجیدہ قاری یہی ہیں جو معاشرے کے ان پہلوؤں کے بارے میں بھی فکر رکھتے ہیں جو فی الوقت سیاسی دھول دھپے کے باعث اڑنے والی گرد میں دبے ہونے کے باعث دھندلے پڑتے جا رہے ہیں۔ آج کا کالم غیر سیاسی ہے اس لیے جس نے اس کالم کو چھوڑنا ہے اسی وقت چھوڑ دے اور اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ میری اور غیر سیاسی موضوعات سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کی تو خیر ہے۔ سیاسی کالموں سے دلچسپی رکھنے والوں کا وقت بہت قیمتی ہے اور مجھے بالکل گوارہ نہیں کہ خواہ مخواہ برباد ہو جائے۔
چند روز قبل وقت کی اہمیت کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا‘ اس پر ایک قاری کا خیال تھا کہ میں ان موضوعات پر لکھ کر بھینس کے آگے بین بجا رہا ہوں اور کسی پر ایسی باتوں کا اثر نہیں ہوتا۔ ان حالات میں ایسے موضوعات پر لکھنا لا حاصل ہے کہ قوم کو ان سنجیدہ معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں؛ تاہم میرا اس بارے میں خیال بالکل مختلف ہے۔میرے نزدیک یہ صحیح اور غلط کا مقابلہ ہے۔ منفی اور مثبت کے درمیان رسہ کشی کا سا معاملہ ہے۔ اگر ایک طرف چکنے گھڑے ہیں تو دوسری جانب والوں کو زیادہ تسلسل اور عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنے مؤقف پر کھڑے رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکمرانوں نے اپنے کان بند کر رکھے ہوں تو حق گوئی کرنے والے کو اپنی آواز مزید بلند کرنی ہو گی نہ کہ خاموشی اختیار کر لیں۔ اگر ایک فریق اپنی بے اعتنائی بڑھائے تو دوسرے فریق کو اپنی بات میں زور پیدا کرنا چاہئے اور اپنا مؤقف بار بار پیش کرنا چاہیے۔ ویسے بھی روزِ محشر حساب کامیابی نہیں بلکہ کوشش کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ کئی پیغمبر ایسے ہوں گے جن کی اُمت کا ایک فرد بھی نہ ہو گا مگر وہ کامیاب ٹھہرائے جائیں گے کہ انہوں نے پیغام دینے اور دعوت پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو گی۔ بھلا میرا رحمن اور رحیم مالک کائنات میں کسی کی محنت کو کیسے ضائع قرار دے سکتا ہے؟ وہ محض اس بات پر کسی کی کوشش‘ جدوجہد‘ دوڑ دھوپ اور سعیٔ مسلسل کو کس طرح نظر انداز کر سکتا ہے کہ اس ساری کاوش کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
ہم سے نتائج کے بارے میں نہیں امتحان کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ہم اس میں پورے اترے یا نہیں؟ خود میرا مالک سورۃ الغاشیہ کی آیات نمبر 21 تا 26 میں فرماتا ہے کہ : ''پس آپ (محمدؐ) نصیحت کریں‘ کہ آپؐ نصیحت کے واسطے ہیں۔ آپ ان پر داروغہ نہیں ہیں۔ پس ان میں سے جو پلٹے گا اور کفر کرے گا۔ اسے بڑے عذاب سے اللہ ہی دو چار کرے گا۔ بے شک اس نے پلٹ کر ہماری طرف ہی آنا ہے۔ اور بے شک اس کا حساب ہم ہی نے لینا ہے‘‘۔ یہ میرا مالک اپنے محبوبﷺ سے مخاطب ہے اور یہ خطاب دراصل اللہ رب العزت کی جانب سے اپنے محبوب ترین بندے سے خطاب کے پردے میں ہم جیسے گنہگاروں اور عام لوگوں کیلئے متعین راستے کی نشاندہی ہے کہ انسان صرف نصیحت کا اختیار رکھتا ہے۔ جہاں اللہ اپنے چنیدہ بندوں کو نبوت عطا کرتے ہوئے پیغمبر قرار دے کرانہیں اپنا پیغام پہنچانے پر مبعوث کرے اور محض اس پیغام کو بندوں تک پہنچانے کو ہی کامیابی قرار دے بھلا وہاں ہم جیسے گنہگاروں سے نتائج کی توقع رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی اور قوم کی مسلسل بے توجہی کے باوجود اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ ادا کرتے رہے۔ بلا کسی مایوسی کے اور بغیر کسی بد دلی کے اپنا کام سر انجام دیتے رہے۔ باوجود اس کے کہ نہ بیٹا ایمان لایا اور نہ ہی بیوی۔ مگر شکستہ دلی تو دور کی بات‘ قوم کے لوگ جب آپ علیہ السلام کو آتا دیکھتے تو یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ وہ آپ علیہ السلام کی بات نہیں سننا چاہتے اپنے منہ پر کپڑا ڈال لیتے تھے‘ مگر آپ نے اپنا کام نہ چھوڑا۔ اب بھلا پیغمبر کی زبان سے زیادہ تاثیر کس کی زبان میں ہو سکتی ہے؟ اللہ کے چنیدہ بندوں سے زیادہ اثر پذیری کس کی بات میں ہو سکتی ہے؟ لیکن جن بدنصیبوں کے مقدر میں ایمان کی روشنی اور سلامتی کا راستہ نہ ہو بھلا ان کے دلوں کے قفل کون کھول سکتا ہے؟ ایسے دلوں کو صرف اور صرف میرے مالک کا اذن ہی کھولتا ہے۔
ملتان سے لاہور والی موٹروے ایم تھری پر شام کوٹ / خانیوال انٹرچینج کی ملتان سے خانیوال جانے والی سائیڈ کا ٹال پلازہ اگر اڑھائی سال میں تعمیر نہیں ہو سکا اور باوجود بارہا یاد دہانیوں کے اربابِ اقتدار کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی اور وہ مسلسل بے حسی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کر رہے تو یہ عاجز یہ جائز بات بار بار لکھنے سے کیوں شرمائے؟ اگر اسی موٹروے پر ریسٹ ایریاز میں سہولتوں کی خراب حالی پر انتظامیہ اپنا فریضہ سر انجام دینے سے مسلسل انکاری ہے تو مجھے اس پر بار بار لکھنے میں کیوں شرمندگی ہو گی؟ اگر حکمران اپنے وعدوں کے برعکس جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے والے مسئلے کو بھول جانا چاہتے ہیں تویہ قلمکار انہیں یاد دہانی کروانے سے کیوں گھبرائے؟ اگر جنوبی پنجاب کا قائم کردہ ہومیو پیتھک قسم کا سیکرٹریٹ بار بار لکھنے کے باوجود کام کرنے میں ناکام ٹھہرے تو اس پر بار بار لکھنے میں کیا حرج ہے؟ اگر وزیراعلیٰ بار بار کی یاددہانی کے باوجود وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی کی بدعنوانی اور کرپشن کی رپورٹ پر کوئی ایکشن لینے کے بجائے اسے دبائے بیٹھے ہیں تو یہ عاجز اس بارے میں بار بار نشاندہی سے کیوں گھبرائے؟
تاہم ہمارا کام لکھنا ہے اور اگر اس میں ڈنڈی ماریں گے تو اللہ کے ہاں جوابدہ ہیں۔ رہ گئی بات حکمرانوں کی بے حسی اور بے توجہی کی‘ تو یہ ان کا مسئلہ ہے اور اس کا جواب اُنہی نے دینا ہوگا۔ ہر شخص کا اپنا دائرہ کار ہے اور میرا مالک ہر شخص سے اسی کے دائرہ کار کے بارے میں سوال کرے گا۔ مجھے تو اپنی جوابدہی کی فکر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved