تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     05-01-2021

مڈل ایسٹ اور گزشتہ سال

گزشتہ سال عرب ممالک پر خاصا بھاری گزرا ہے۔ شام‘ لیبیا اور یمن میں جاری جنگوں سے مکمل طور پر نجات نہ مل سکی ۔ کورونا کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں خاصی متاثر ہوئیں اور ہزاروں غیر ملکی ورکرز کو واپس جانا پڑا۔ تیل کی قیمت عالمی کساد بازاری کی وجہ سے توقع سے کم رہی ‘اس وجہ سے تیل کی دولت سے مالا مال اکثر خلیجی ممالک کو بجٹ خسارے کا سامنا بھی رہا۔ ایران سے خائف دو خلیجی ممالک نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرلئے۔ عرب سپرنگ کے ذریعے سیاسی اور اقتصادی حقوق کا مطالبہ کرنے والی نوجوان نسل سہمی سہمی اور خاموش نظر آئی ‘ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔
سال2020ء کا آغاز ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل سے ہوا۔ وہ بغداد میں امریکی ڈرون حملے کا شکار ہوئے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ جنرل قاسم پورے مڈل ایسٹ میں ایرانی پالیسی کو چلا رہے تھے۔ لبنان میں حزب اللہ کو فعال رکھنے میں بھی ان کا اہم رول تھا۔ شام کے صدر بشار الاسد کی انتہائی مشکل وقت میں مدد کی اور اسی وجہ سے مغربی ممالک کی نظر میں کھٹکتے تھے۔ اس بڑے واقعے کا ڈائریکٹ اثر عراق پر پڑا جہاں ایران کی حامی ملیشیا نے گرین زون میں امریکی سفارت خانے کے آس پاس کئی مرتبہ میزائل حملے کئے۔ کل کا طاقتور اور آج کا لاغر عراق امریکہ اور ایران کے درمیان پھنسا ہوا نظر آیا۔ عراق میں دگرگوں اقتصادی صورتحال کے خلاف متعدد مظاہرے بھی ہوئے۔
کورونا کی وبا اور تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں نے خلیجی ممالک کی اقتصادیات کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قطر کے علاوہ تمام خلیجی ممالک کے بجٹ خسارے میں ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق مڈل ایسٹ میں اس وقت ایک چوتھائی لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یمن میں یہ شرح 80 فیصد ہے۔ خلیجی ممالک کی اقتصادیات میں تیل کے علاوہ سروس سیکٹر کا اہم رول ہے۔ سروس سیکٹر میں بینک‘ ایئر لائن‘ ہوٹل‘ ٹرانسپورٹ‘ شپنگ اور ٹور ازم کی انڈسٹریز شامل ہیں۔ جب بجٹ خسارہ نہیں ہوتا تھا تو ترقیاتی منصوبے خوب بنتے تھے‘ اسی وجہ سے خلیجی ممالک میں شاندار سڑکیں اور عمارتیں بنیں۔ اب یہ منصوبے یا تو بند ہیں یا سست روی کا شکار ہیں۔ ایک خلیجی ملک میں میرے پرانے دوست ‘جو ترقیاتی کاموں سے عرصے سے منسلک ہیں‘ بتا رہے تھے کہ کئی مہینوں سے سرکاری ٹھیکے داروں کو ادائیگیاں نہیں ہو رہیں۔ جو تھوڑا بہت کام ہو رہا ہے وہ ادھار پر چل رہا ہے اور اسی وجہ سے کئی کمپنیاں اپنے دفتروں کو تالے لگا کر اچھے وقتوں کا انتظار کر رہی ہیں۔
مڈل ایسٹ کے اکثر ممالک میں بنیادی اشیائے ضرورت پر سبسڈی ہوا کرتی تھی۔ میں وہاں لمبا عرصہ رہا مگر سات سال میں سعودی عرب میں روٹی کی قیمت نہیں بڑھی۔ خلیجی ممالک میں ٹیکس نہ ہونے کے برابر تھے اسی وجہ سے مغربی ممالک کے پروفیشنل لوگ مڈل ایسٹ میں کام کرنا پسند کرتے تھے۔مگر پچھلے سال اکثر خلیجی ممالک میں جنرل سیلز ٹیکس (GST) لگ گیا ہے۔ اقامہ فیس بھی خاصی بڑھ گئی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1967ء کی شکست کے بعد بھی عربوں میں اتنی سکت تھی کہ اسرائیل کے مقابلے کا سنجیدگی سے سوچیں اور اس بات کا عملی مظاہرہ ہم نے 1973ء کی جنگ میں دیکھا۔ مصر‘ شام‘ عراق اور سعودی عرب خاصے طاقتور عرب ممالک تھے‘ مگر آج کی عرب دنیا بوجوہ خاصی کمزور ہو چکی ہے۔ تین ممالک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے۔ شام کی آدھی آبادی دربدر ہو گئی ہے۔ یمن ہیضے کی وبا کی زد میں ہے‘ وہاں نوزائیدہ بچے ہڈیوں کا ڈھانچا نظر آتے ہیں۔ جنگ کی وجہ سے آج آدھے ہسپتال بند ہیں۔ مڈل ایسٹ پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ اگر آج عرب دنیا کے فرنٹ لائن ممالک کو کہا جائے کہ اسرائیل کے خلاف ایک اور جنگ کی تیاری کرو تو انہیں اس کام کے لیے دس سال درکار ہوں گے ‘جبکہ اسرائیل اس کام کے لیے آج بھی چاق و چوبند ہے۔ یہ وجہ بنی کہ چار عرب ممالک گزشتہ سال اسرائیل کی تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے پر رضا مند ہوئے۔ 
عرب ممالک لمبا عرصہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہے‘ پھر پہلی عالمی جنگ کے وقت برطانیہ نے عربوں کو ترکی کے خلاف بغاوت پر اکسایا‘ مگر عربوں کے تعاون کا صلہ برطانیہ نے اسرائیل کی صورت میں دیا۔ اس غلطی کا احساس بعد میں عربوں کو ضرور ہوا‘ لیکن بہت دیر کے بعد۔ ایران کی مخاصمت کی وجہ سے عرب ترکی کے قریب ضرور ہوئے لیکن یہ دوستی بھی عارضی ثابت ہوئی۔ گزشتہ سالوں میں اخوان المسلمین‘ قطر اور لیبیا کے حوالے سے غلط فہمیوں میں اضافہ ہوا۔ چونکہ ترکی کو یورپی یونین میں ممبر شپ نہیں مل سکی لہٰذا صدر طیب اردوان کی خواہش تھی کہ اسلامی دنیا میں ترکی کے سابقہ کردار کو بحال کیا جائے‘لیکن جی سی سی کی حد تک ترک صدر کی خواہش پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی۔ ترک حکومت کے چند اداروں کا خیال ہے کہ 2016ء میں ہونے والی فوجی بغاوت کی مالی امداد عرب امارات کے چند اشخاص نے کی۔ 2018ء میں استنبول میں ایک عرب صحافی کا قتل مزید تلخیاں پیدا کرنے کا سبب بنا۔ ترکی اور قطر کی دوستی دوسرے خلیجی ممالک کو اچھی نہیں لگی‘ اس وجہ سے عرب امارات اور سعودی عرب کے لیے ترک برآمدات میں 16 فیصد سے 20 فیصد کمی گزشتہ سال دیکھی گئی۔
ترک عرب مخاصمت کی اور بھی وجوہات ہیں۔ گزشتہ سال ترکی نے طرابلس میں قائم لیبیا کی حکومت کی عسکری مدد کی اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ بن غازی میں متوازی حکومت قائم ہے۔ مصر اور دو بڑے خلیجی ممالک بن غازی میں قائم جنرل حفتر کی حکومت کے سپورٹرہیں۔ 2020ء میں مصر اور ترکی کے مابین مسابقت کے لیے ایک اور فرنٹ کھل گیا۔ پتا چلا کہ مشرقی بحیرہ روم میں انرجی کے ذخائر ہیں۔ ترکی‘ مصر‘ اسرائیل اور یونان سب ان ذخائر کی جانب للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگے۔ چونکہ ترکی‘ مصر کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے‘ لہٰذا مصر نے اسرائیل ‘ یونان اور قبرص کے ساتھ ایک گروپ بنا لیا اورکہا کہ ہم بحیرہ روم کے انرجی ذخائر کے بارے میں تعاون کریں گے۔ میں نے 1974ء کا پورا سال مصر میں گزارا‘ اس کے بعد بھی دو مرتبہ سرکاری دورے پر جانے کا اتفاق ہوا‘ چند عشرے پہلے مصر مشرقِ وسطیٰ کا اہم ترین ملک ہوتا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ مصر کی رضا مندی کے بغیر مڈل ایسٹ میں نہ جنگ ممکن ہے اور نہ ہی امن۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصر کو بہت امریکی امداد ملی لیکن عام شہری کے شب و روز نہیں بدلے‘ اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مصر اہم ضرور ہے‘ لیکن عرب دنیا کا لیڈر نہیں رہا۔میں اپنے دعوے کے ضمن میں یہ دلیل دوں گا کہ مصر لیبیا کو اپنا بیک یارڈ یا پچھواڑا سمجھا کرتا تھا‘ لیکن آج لیبیا میں ترکی کی پوزیشن زیادہ سٹرانگ ہے۔ بحیرہ روم کے انرجی وسائل کے سلسلے میں بھی ترکی کے مقابلے میں مصر کو دوسرے ممالک کا گروپ بنانا پڑا۔ جنرل السیسی سینائی میں دہشت گردی پر پوری طرح قابو نہیں پا سکے۔ اظہار ِرائے پر قدغن ہے‘ انسانی حقوق کی صورتِ حال زیادہ اچھی نہیں۔ پاکستان کی طرح آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ سوڈان اور ایتھوپیا نیل کے پانی کا زیادہ حصہ چاہتے ہیں اور دریائے نیل مصر کی شہ رگ کی مانند ہے۔
گزشتہ سال نے شام‘ لیبیا اور یمن کی ناکام ریاستوں میں شمولیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔مڈل ایسٹ کے خوبصورت ملک لبنان میں بگڑی ہوئی اقتصادی صورتِ حال اور حکومتی کارکردگی کے خلاف مظاہرے جاری رہے۔ مجموعی طور پر 2020ء مشرق وسطیٰ کے لیے مسائل کا سال رہا۔ خدا کرے کہ نیا سال گزشتہ سال سے بہتر ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved