تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     05-01-2021

رات کا صحن کہانی کی طرف کھلتا ہے

''چار مجموعے‘‘ نامی کتاب ملی تو نام پڑھ کر یقین ہوگیا کہ یہ معین نظامی کے شعری کلیات ہوں گے۔ ایسی سہولت سے نام کا انتخاب صرف حضرت والا ہی کر سکتے تھے۔ کتابوں سے معین کی گہری دوستی ہے‘ اس لیے وہ ان سے سلوک بھی دوستوں جیسا کرنے میں حق بجانب ہے۔ امکان تو یہ بھی تھا کہ وہ اس کا نام صرف ''مجموعے‘‘ رکھ دے مگر خیر گزری کہ اس کا دھیان ادھر نہیں گیا‘ ورنہ یہ امکان بھی تھا کہ کلیات کا نام صرف ''چار‘‘ رکھ دیتا۔ قباحت تو بظاہر تو اس میں بھی کوئی نظر نہیں آتی۔
قریب قریب23‘24 سال پہلے اس نایاب اور قیمتی آدمی سے اورینٹل کالج کے ایک نیم روشن اور خنک کمرے میں پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ معین نظامی اس وقت ڈاکٹر تو ہو چکے تھے اور ان کے باکمال ہونے میں اس وقت بھی کوئی کلام نہیں تھا لیکن اس وقت وہ اتنے مصروف، اتنے نامور اور اتنے خلق بیزار نہیں ہوئے تھے۔ ان کا شعری مجموعہ ''تجسیم‘‘ اس وقت تک شائع نہیں ہوا تھا۔ میں پہلی بار ملتے ہی معین کی شخصیت اور فن کا اسیر ہو گیا۔ فن بھی کسی ایک جہت کا نہیں۔ مختلف الجہات۔ گاہے گاہے مختلف المزاج بھی۔ ہم اس کی نظمیں‘ غزلیں پڑھتے، سنتے اور اس پر رشک کرتے تھے۔ سنہری صبحیں، چلچلاتی لمبی دوپہریں اور برستی شامیں اس لطف کی گواہ ہیں اور کیا خوب گواہ ہیں۔
بیک وقت دو شہ سوارانِ رزم آزما ایک سہمے ہوئے میمنے پر جھپٹتے
کسی ایک کو 
اپنے نیزے سے اس منمناتے ہدف کا جگر چیر دینے کا اعزاز ملتا
وہی مردِ میدان اس تحفۂ پوستیں کا سزاوار ہوتا
جو چیتے کی چھاتی کے چمڑے سے بنتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال اہل حسد، گھر میں جا کر ذرا
اپنی ماؤں سے اپنے نسب کی نجابت کے بارے میں تحقیق کر لیں
اگر خوش نصیبی سے ان کے نسب کی اصالت مسلّم ہوئی 
تو قسم ہے مجھے اس خدا کی جو جبار و قہار بھی ہے
کہ پھر آخری فیصلہ میری شمشیر برّاں کرے گی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمستاں 
زمستاں کی بارش
زمستاں کی بارش میں خوشبو
زمستاں کی بارش میں خوشبو تمہاری
خدا جانے یہ شام تم نے کہاں اور کیسے گزاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معین نظامی معظم آباد کی خانقاہ سے نکل آیا لیکن اس کی ذات میں وہ سفید خانقاہ منجمد اور مجسم ہو گئی۔ یہ سارا خانقاہی نظام دراصل عشق و محبت کے پڑاؤ تھے۔ عشق حقیقی نے جہاں قدم رکھا‘ خانقاہ بنا دی۔ حضرت احسان دانش نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ
پلٹ کے آئے تو دیکھا کہ خانقاہیں ہیں
جنوں میں نقشِ قدم تھا جہاں جہاں اپنا
ذرا اس کلیات میں شامل کتابوں کے نام دیکھیں ''متروک، طلسمات، استخارہ اور تجسیم‘‘ جیسے نام ہی اس کے اندر کے صوفی اور شاعر کو بیک وقت ظاہر کرتے ہیں۔آپ اس شاعری کو کہیں سے بھی پڑھ لیں، آپ کو وہ عمارت نظر آئے گی جس میں علوم، فنون، فارسی ادب، ترک نژاد تصوف، قدیم درویشی روایات، خاندانی نظم و ضبط، اساطیری داستانوں اور صدیوں پرانے ادوار کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ اس سفید خانقاہ کے دالان عود اور لوبان کی خوشبو سے بھرے ہیں اور اس کے ان گھڑ پتھر مرمر کے مخملی فرش کو مات کرتے ہیں۔ یہاں بوریا نشین غالیچوں کو تج کر آتے اور زیادہ پُرآسائش زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں لفظ خرقہ و عمامہ پہنے باہم آہستگی سے گفتگو کرتے ہیں۔ رات اترتی ہے تو اس کے ہر کونے، ہر محراب، ہر زاویے اور ہر طاق میں چراغ روشن ہو جاتے ہیں جن کو ایندھن کی مسلسل ترسیل معین کا دل کرتا ہے۔
چشمۂ خواب روانی کی طرف کھلتا ہے
کیا دریچہ ہے معانی کی طرف کھلتا ہے
پیا س کے ایک کنارے پہ ہے سیرابی بھی
اک سرا دشت کا پانی کی طرف کھلتا ہے
اس کلیات کی نظموں اور غزلوں کا ایک دروازہ پائیں باغ اور ملحقہ عمارات کی طرف کھلتا ہے جہاں تاریخی کردار خلعتیں، پوستینیں، زریں پٹکے اور جڑاؤ خنجر زیبِ تن کیے غلام گردشوں اور روشوں پر چل پھر رہے ہیں۔ گم شدہ واقعات ایک بار پھر سے رونما ہو رہے ہیں اور ہوا ان آوازوں کو کانوں تک پہنچا رہی ہے جو اس نے صدیوں سے محفوظ کر کھی تھیں۔ ''تزک نور جہانی‘‘ ہو '' زبیدہ کہاں ہو‘‘ یا ''مجھے بغداد کہتے ہیں‘‘۔ جو نظم بھی پڑھ لیں ایک نیلگوں غلاف آپ کو ڈھانپ لیتا ہے۔
بنو عباس کا جھنڈا مرے ماتھے پہ کندہ ہے
مرے ہاتھوں میں اب تک ان کی بیعت کی تمازت ہے
میں ان کی راج دھانی ہوں
میں بذل و جود کا ققنوس ہوں
اور آل برمک کی نشانی ہوں
طلسم الف لیلہ کا اکیلا قلمی نسخہ ہوں
میں خود اپنا ہی ثانی ہوں
وقت کے ساتھ ساتھ معین کی تنہائی اور خود کلامی بڑھتی گئی ہے۔ وہ بہت مصروف اور بہت اکیلا ہو گیا ہے۔ اس کی مہار دل کے ہاتھ میں تو بہت پہلے سے تھی‘ اب تو وہ فقط اس کی آنکھ کا اشارہ پہچان کر چل پڑتا ہے۔
یہ خلعت شہی نہیں، ملبوسِ فقر ہے
دل ڈگمگا رہا ہے تو دستار مت اٹھا
زاد سفر میں دل کے سوا اور کچھ نہ رکھ
دنیا کا ساز و رخت ہے بے کار، مت اٹھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس رنج کو بیچ میں نہ لاؤ
اس رنج کی داستاں الگ ہے
اے مجمع علم و فضل و دانش
تم سب سے مرا بیاں الگ ہے
لگتا ہے میں اجنبی ہوں تم میں
لگتا ہے مری زباں الگ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنس نایاب توجہ کی طلب ٹھیک نہیں
ایسا لگتا ہے کہ کچھ دن سے یہ سب ٹھیک نہیں
جانے کیا بات ہوئی کل کہ یہ دل نے سوچا
اس میں اور مجھ میں کوئی حد ادب ٹھیک نہیں
ہجر کا فیصلہ کرتے ہوئے لوگوں نے معین
یہ تو سوچا ہی نہ تھا اس کا سبب ٹھیک نہیں
معین سے اب بہت مدت ملاقات نہیں ہو پاتی لیکن اس کے لیے میرے دل سے محبت بھی پھوٹتی ہے اور داد ا ور دعا بھی نکلتی ہے۔ یہ رباعی اسی کے لیے تو کہی تھی۔
یہ عشق سلامت رہے یہ غم آباد
یہ دائرۂ درد ہو دم دم آباد
رہتا ہے سعودؔ اس میں مرا دوست معین
آباد رہے اس کا معظم آباد

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved