تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-01-2021

سرخیاں، متن، شب گزیدہ اور عرفان صدیقی

استعفے دے دیے تو حکومت کا کام تمام ہو جائے گا: مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''استعفے دے دیے تو حکومت کا کام تمام ہو جائے گا‘‘ لیکن ہم استعفے اس لئے نہیں دے رہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ حکومت ہماری ریلیوں اور جلسوں سے حواس باختہ ہوکر خود ہی گھرچلی جائے جبکہ ہمیں حکومت کو گھر بھیجنے کی کوئی جلدی بھی نہیں ہے جبکہ استعفے ایک انتہائی اقدام ہوگا اور ہم چونکہ انتہا پسندی کے سخت خلاف ہیں‘اس لئے ہمارے زیادہ تر ارکان میانہ روی کی وجہ سے استعفے دینے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں جبکہ ہم بھی ان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتے۔ آپ اگلے روز بہاولپور میں ریلی سے خطاب کر رہی تھیں۔
نئے جوش و جذبہ سے عوام کی خدمت کروں گا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''نئے جوش و جذبہ سے عوام کی خدمت کروں گا‘‘ کیونکہ پرانا جذبہ تو بالکل ہی کام نہیں کر رہا تھا جس سے حکومت کی کارکردگی متاثر ہو رہی تھی، اس لئے نئے جوش و جذبہ کی تلاش شروع کر دی گئی ہے جس کے دستیاب ہوتے ہی کام شروع کر دیا جائے گا؛ البتہ پہلے اچھی طرح سے اس کی ٹریننگ بھی لینا ہوگی تاکہ حکومت بحران کا شکار نہ ہو جائے اور سیکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آدمی سب کچھ سیکھ کر نہیں آتا چنانچہ کوشش کی جائے گی کہ کوئی آزمودہ جوش و جذبہ ہی کہیں سے میسر آ جائے تاکہ ایک بار پھر ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے اور مزید کسی جوش و جذبہ کی تلاش میں نہ نکلنا پڑ جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں دس ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دے رہے تھے۔
ہم اپنے کارڈ کبھی چھپائیں گے کبھی دکھائیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہم اپنے کارڈ کبھی چھپائیں گے کبھی دکھائیں گے‘‘ کیونکہ کچھ کارڈ تو سراسر دکھانے والے ہیں ہی نہیں‘ اس کے علاوہ جو کارڈز ہیں وہ ساری دنیا پر پہلے ہی ظاہر ہو چکے ہیں کہ استعفے دیتے دیتے ضمنی انتخاب کی تیاریاں ہو رہی ہیں جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ استعفے دینا واقعی ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے جو ویسے بھی کافی کُند ہوچکے ہیں اور ہم محض ایک وضعداری نبھاتے چلے جا رہے ہیں، حتیٰ کہ اب تو ہماری ڈیڈ لائنز پر بھی حکمران خوفزدہ ہونے کے بجائے اُن کا مذاق اڑانے لگ گئے ہیں اور ہمیں اپنی تحریک کا انجام صاف نظر آ رہا ہے جوکسی لحاظ سے بھی خوش کن نہیں کہا جا سکتا۔ آپ اگلے روز دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ بہاولپور ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم کی جیت پیپلز پارٹی
کی جیت ہے: بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کی جیت پیپلز پارٹی کی جیت ہے‘‘ اور یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ پیپلز پارٹی کی جیت پی ڈی ایم کی ہار بنتی چلی جا رہی ہے اور ہر طرف والد صاحب ہی کا طوطی بول رہا ہے جبکہ اب تک تو میں یہی سمجھتا آیا تھا کہ طوطی مؤنث ہوتی ہے لیکن اب‘ جہاں وہ پہلے بولا کرتی تھی اب بول رہا ہے اور اتنے زور سے بول رہا ہے کہ پی ڈی ا یم کی آواز اس کے شور میں ہی کہیں گم ہو گئی ہے کیونکہ استعفے نہ دینے سے لے کر ضمنی اور سینیٹ الیکشن لڑنے تک والد صاحب کا ہی ڈنکا بج رہا ہے اور پی ڈی ایم بھیگی بلی بنی بیٹھی ہے۔ آپ اگلے روز ٹھٹھہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم کے جلسوں اور ریلیوں
کا ٹائر پنکچر ہو چکا ہے: فیاض چوہان
وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں اور ریلیوں کا ٹائر پنکچر ہو چکا ہے اور ہم نے محض ا نسانی ہمدردی کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے پنکچروں کی دکان کھول لی ہے کیونکہ اُن کے ٹائروں نے تو ہر روز پنکچر ہونا ہے جبکہ خاکسار کو ویسے بھی وزارت کے کام سے کافی فراغت تھی کیونکہ جیل خانے تو حسبِ معمول نہایت باقاعدگی کے ساتھ چل رہے ہیں؛ البتہ جیلوں میں قیدیوں کی آئے روز کی بھر مار کے پیش نظر میری مصروفیات میں کسی قدر اضافہ ہو جائے گا اور پنکچر کا تجربہ حاصل کرنے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ حکومت کے بعد کوئی کام تو اختیار کرنا ہی ہے جبکہ ہم ویسے بھی کافی دُور اندیش واقع ہوئے ہیں اور ہماری نظریں مستقبل پر ہی رہتی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں بہاولپور ریلی پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
شب گزیدہ
یہ سیّدہ ہما شاہ کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے جسے الناظر لٹریری آرگنائزیشن پاکستان نے شائع کیا ہے۔ انتساب پیاری آپا شاہدہ صاعقی کے نام ہے۔ تحسینی رائے دینے والوں میں امجد اسلام امجد، عباس تابش، قمر رضا شہزاد ا ور منصور آفاق شامل ہیں۔ اس میں سے میں نے آپ کے لئے اپنی پسند کے یہ شعر نکالے ہیں :
کیسے خود کو جُدا کروں تجھ سے
میرے اندر بھی بے شمار ہے تُو
٭......٭......٭
سکہ بنا کے جب بھی اُچھالا گیا مجھے
میں تیری ہار جیت میں تقسیم ہو گئی
٭......٭......٭
توڑتا جوڑتا ہے روز مجھے
نقص کیا ہے مجھے بتاتا نہیں
٭......٭......٭
خدا کرے کہ کوئی مجھ سے جیت جائے ہُماؔ
خدا کرے کہ کسی سے تو ہار جاؤں میں
٭......٭......٭
ہے ایک آئینہ دکھا چراغ کے آگے
پھر اس کے بعد ہوا کا نشاں نہیں دیکھا
٭......٭......٭
تجھ کو معلوم تو ہیں نا میری اُلفت کے اصول
پھر بھی تُو روز چلا آتا ہے رونے دھونے
اور‘ اب آخر میں ہمارے دوست عرفان صدیقی کا تازہ کلام:
اک سلسلۂ بارشِ بے نم عجیب تھا
اُس شہر کم نصیب کا موسم عجیب تھا
میرا ہے یا عدو کا‘خبر نہ تھی
ہر لشکری کے ہاتھ میں پرچم عجیب تھا
ہر بار قتل گاہ میں پایا گیا ہے وہ
ہر بار اُس کاگریہ و ماتم عجیب تھا
تیغِ ستم کی دھار بہت تیز تھی، مگر
نوکِ قلم کی کاٹ کا دم خم عجیب تھا
جنت بدر ہُوا تو مسلسل سفر میں ہے
ذوقِ برہنہ پائی آدم عجیب تھا
ترکِ تعلقات کی جلدی بھی تھی اُسے
پھر جب ملا تو دیدئہ پُرنم عجیب تھا
گہرا تھا زخم ہی کہ وہ ناسُور بن گیا
یا اُس نمک سرشت کا مرہم عجیب تھا
کچھ بات تھی ضرور کہ آج اُس کی بات کا
ہر لفظ اور لہجۂ مبہم عجیب تھا
وحشت زدہ سا ایک جزیرہ لگا مجھے
اب کے گیا تو شہر کا عالم عجیب تھا
آج کا مطلع
جو بوڑھا ہوں تو کیوں دل میں محبت زور کرتی ہے
میں جتنا چپ کراتا ہوں‘ یہ اتنا شور کرتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved