2020ء کیسا رہا؟ پوری دنیا وبا کی لپیٹ میں آ گئی، لاکھوں لوگ اپنی جانوں سے چلے گئے‘ کروڑوں بیمار ہوئے‘ کروڑوں بیروزگار ہوئے۔ کتنے ہی افراد اس سال جنگ کی لپیٹ میں آئے‘ کتنے ہی غاصبوں کے ظلم کا نشانہ بنے۔ کتنے آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے رخصت ہو گئے لیکن آزادی کا سورج دیکھنا نصیب نہیں ہو سکا۔ کتنے ہی زلزلوں‘ طوفانوں اور دیگر آفات میں اجل کا لقمہ بن گئے؛ تاہم شر کے ساتھ خیر بھی ہوتا ہے، جہاں اتنا کچھ برا ہوا‘ وہاں بہت کچھ اچھا بھی ہوا۔ اب نیا سال شروع ہوچکا ہے تو سب کو نیا سال بہت مبارک ہو! 2021ء بہت سی امیدوں کے ساتھ آیا ہے‘ امکان بھی یہ ہے کہ اس سال میں ہم بہت سی خوشیاں اور کامیابیاں سمیٹیں گے۔
اب زندگی گزارنے کے ضابطے بدل گئے ہیں‘ اب زندگی (کا حقیقی لطف) اور انسان چھ فٹ کے فاصلے پر ہیں، باہر جائو تو ماسک پہنو‘ کسی سے ہاتھ ملانے سے اجتناب کرو، کورونا کی وبا سے کوئی وفات پا جائے تو اس کے گھر جا کر تعزیت نہیں کر سکتے، لواحقین کو دلاسہ اور تسلی نہیں دے سکتے مگر اس وبا میں بھی سبق پنہاں ہے‘ کیا ہم نے وہ سبق حاصل کیا؟ یہ وبا ہمیں مشینی زندگی سے دور لے گئی‘ ہم سب کافی عرصہ گھروں میں محصور رہے۔ اب بھی بہت سے لوگ قرنطینہ میں ہیں اور کچھ کوشش کر رہے ہیں کہ گھر پر ہی رہیں۔ اس دوران کیا کیا جائے؟ وہ لوگ جو گھروں میں ہیں‘ ان کو اپنی زندگی کو ازسر نو ترتیب دینی چاہیے اور جو لوگ کام وغیرہ پر جا رہے ہیں‘ وہ بھی اپنے معمولات میں تبدیلی لائیں اور اللہ کے ذکرکو زندگی کا حصہ بنائیں۔ پہلے سپارے کی اختتامی آیات یعنی سورۃ البقرہ کی آیت 138 کا ترجمہ کچھ یوں ہے: کہو اللہ کا رنگ اختیار کرو‘ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا؟ اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں۔ لفظ ''صبغۃ اللہ‘‘ میرے دل کو چھو گیا۔ ہمیں یہی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ ہمیں ہدایت دے۔ اس وبا کے دوران ہمیں خود پر اللہ کا رنگ چڑھانا چاہیے۔ ہمیں حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوئی کمی نہیں چھوڑنی چاہیے، نماز‘ قرآن اور زکوٰۃ جیسے فرائض کے ساتھ نفلی روزے بھی رکھنے چاہئیں۔ اس کے ساتھ صدقہ و خیرات کا بھی التزام کرنا چاہیے۔ صدقات بلائوں کو ٹال دیتے ہیں۔ وبا کا دور ہو یا عام زندگی‘ انسان کو پل کا بھی نہیں پتا کہ کب بلاوہ آ جائے‘ لہٰذا ہمیشہ تیار رہنا چاہیے اور اپنے اعمال ایسے رکھنے چاہئیں کہ دنیا اور آخرت‘ دونوں میں سرخرو ہو سکیں۔
چونکہ آج کل تمام بچے کورونا کی سبب چھٹیوں کی وجہ سے گھروں پر ہیں تو ان کی دینی تربیت پر توجہ دینا بھی بہت ضروری ہے۔ ان کو نماز کی تلقین کی جائے اور قرآن تجوید اور تفسیر سے پڑھایا جائے۔ اس کے ساتھ ان کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہی دی جائے۔ بچوں کو نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے حوالے کتابیں فراہم کی جائیں اور دیگر انبیاء کرام ، امہات المومنین اور صحابہ کرام کی زندگی کے حالات وواقعات سے بھی بچوں کو آگاہ کیا جائے‘ اس طرح والدین ان کی کردارسازی میں بہترین حصہ ڈال سکتے ہیں۔ بچے بھی ان تعلیمات کی وجہ سے جدید دور کی خرافات سے خود کو دور رکھیں گے اور ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کریں گے۔ بچوں کی یہ چھٹیاں ویب سٹریمنگ، ٹی وی، انٹرنیٹ اور گیمز کھیلنے کے لئے نہیں ہیں‘ ان کی شخصیت سازی پر توجہ دیں تاکہ وہ دو جہانوں میں فلاح پا سکیں۔ وبا کے دوران معمولاتِ زندگی کے حوالے سے ایک چارٹ مرتب کریں اور پھر اس کو فالو کریں۔ وقت پر اٹھیں‘ وقت پر سوئیں۔ ورزش کریں یا چہل قدمی‘ متوازن غذا کھائیں۔ اس کے ساتھ تمام لوگوں کے ساتھ ٹیلی فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے رابطے میں رہیں اور ان کی خیر خیریت معلوم کرتے رہیں‘ خاص طور پر بڑے بزرگوں کو وقت دیں۔ بہت سے نوجوان معمولاتِ زندگی کی طرف لوٹ گئے ہیں لیکن اکثر بڑے‘ بزرگ اب تک گھروں میں ہیں کیونکہ وہ اس وقت خطرے کی زد میں زیادہ ہیں۔ ان کو وقت دیں اور ان کے ساتھ باتیں کریں، ٹی وی بھی دیکھیں‘ کوئی ہرج نہیں لیکن اس کے ساتھ ہلکے پھلکے مشاغل بھی اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، بہت سے مشاغل گھر میں بھی اپنائے جا سکتے ہیں جن میں باغبانی، کیلی گرافی، مصوری، کرافٹ اور کوکنگ وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ یہ چیز بھی بہت ضروری ہے کہ بچوں کو نظریۂ پاکستان کے حوالے سے آگاہی دی جائے کہ دو قومی نظریہ کیا ہے‘ پاکستان کیوں بنایا گیا، اور اس کا قیام کیوں ضروری ہو گیا تھا، اس ملک کی تعمیر میں حصہ ڈالنے والے اکابرین کے حوالے سے بھی نئی نسل کو آگاہی دی جائے۔ مذہبی عقائد کے حوالے سے بھی بچوں کو مکمل آگاہی ہونی چاہیے اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کا بھی علم ہونا چاہیے کہ ہمارے نظریات کیا ہیں‘ یہ وطن کیوں بنااور اس کی ترقی میں ہم کیسے حصہ لے سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں بچوں کی ذہن سازی کرنا ہوگی اور میرے خیال میں اس سے اچھا موقع ہمیں دوبارہ میسر نہیں آئے گا کہ ہم بچوں کے افکار پر کام کرسکیں۔ کورونا کی وبا نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم سب مل کر بیٹھیں اور کچھ وقت ساتھ گزارسکیں۔ اس دوران اگر رشتوں میں پیار محبت بڑھ جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔
اب نئے سال کا آغاز ہوگیا ہے تو ہمیں سب کچھ بہتر ہونے کی امید کرنی چاہیے۔ نئے پھول کھلیں گے‘ نئی بہار پھر سے آئے گی اور بہت سے دکھ‘ درد اور زخم مندمل ہو جائیں گے۔ جانے والوں کی یاد کبھی ذہنوں سے نہیں نکلتی اور یہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی البتہ نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ اس سے بڑھ کر خوش نصیبی کیا ہو سکتی ہے کہ آپ وبا کے عروج میں بھی محفوظ رہے‘ آپ کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوتا رہا، آپ کے پاس آرام دہ چھت ہے اور آپ کے پیارے آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر بیماری آئی بھی تو اللہ نے آپ کو صحت بخش دی۔ اگر ہم میسر نعمتوں کا شمار کریں تو باقی پوری زندگی خدا کا شکر ادا کرنے میں گزار دیں کہ اس نے ہمیں کتنے لوگوں سے بہتر بنایا ہے، کتنی ایسی نعمتوں سے نوازا ہے جس کے لیے آج بھی کروڑوں لوگ ترس رہے ہیں۔ کورونا کی وبا میں پیاروں کی موت‘ بیماری اور معاشی تنگی نے بہت سے لوگوں کو اندر سے توڑ بھی دیا ہے، ان کو ہمارے ساتھ کی ضرورت ہے۔ ہمدردی کے دو بول ہوں یا مالی مدد یا صرف تسلی و دلاسہ‘ ایک دوسرے کی مدد کریں۔
وزیراعظم عمران خان نے نئے سال کی شروعات پناہ گاہ میں غریب و نادار افراد کے ساتھ کھانا کھا کر کی۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ انہوں نے سال کا آغاز ایک بھلے اور نیک کام سے کیا ہے۔ وہ دردِ دل رکھتے ہیں‘ اگر اسی جذبے کے ساتھ وہ آگے چلیں گے تو ضرور عوام کی داد رسی میں کامیاب ہوں گے؛ تاہم انہیں ان لوگوں سے کنارہ کشی کرنا ہو گی جن پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن گزشتہ برس اپنے اجلاسوں میں مصروف رہی، اس سال بھی ان کا یہی ارادہ لگتا ہے کہ جلسے دھرنے کرنے ہیں اور کورونا مفت تقسیم کرنا ہے۔ اپوزیشن کو اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ درپیش مسائل کا حل ایوانوں میں نکلے گا یا سڑکوں پر۔نئے سال کے آغاز پر میں صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی توجہ ان کے ایک وعدے کی جانب مبذول کروانا چاہتی ہوں، انہوں نے ایک مینٹل ہیلتھ ایپ بنانے کا ذکر کیا تھا‘ جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ اس کے لئے موبائل ایپ‘ ویب سائٹ اور ٹیلی فونک سروس کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ کورونا کی وبا اور موت کے پہرے میں سانس لیتے عوام ماہرینِ نفسیات سے رہنمائی لے سکیں۔ اس سروس سے ڈپریشن اور ذہنی امراض میں مبتلا بہت سے افراد کا بھلا ہو گا۔دنیا امید پر قائم ہے‘ اس لئے سال کا آغاز ایک نئے جذبے اور امنگ کے ساتھ کریں۔ دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو صبغۃ اللہ (اللہ کے رنگ میں رنگا ہوا) بنا دے اور ہم سب دین کی ترویج و اشاعت اور ملک کی ترقی کے لئے کام کریں، آمین!