تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     06-01-2021

’’نالائقی‘‘

1912 ء میں ٹائی ٹینک نامی بحری جہاز کی تباہی تو دنیا بھر کے لیے ایک اساطیری المیہ ہے۔ اس کی تباہی کی داستان افسانوں میں ڈھلی‘ شاعروں کی زبان پر چڑھی پھر سینما سکرین پر اتری اور اَمر ہو گئی۔ ہم جیسوں کے لیے اس کہانی کا انجام تو کب کا ہو چکا مگر جن کا یہ جہاز تھا انہیں اس المیے نے سو برس بعد بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ ہماری طرح انہوں نے اس حادثے کی ذمہ داری قدرت پر ڈالی ‘کوئی کمیشن بنایا نہ سیاسی رہنماؤں نے حادثے میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی قسمیں کھائیں۔ بس پاگلوں کی طرح اس حادثے کی اصل وجہ کا سراغ لگانے کی کوشش کرتے رہے۔ جو لوگ سمندری راستوں کے ماہر تھے وہ یہ سمجھتے رہے کہ آخر ایک بڑا برفانی تودہ اس جہاز کے راستے میں آیا توآیا کیسے؟ جو لوگ جہازوں کی آمدورفت کا حساب رکھتے تھے اس کھوج میں رہے کہ بحر اٹلانٹک میں ٹائی ٹینک کے ارد گرد موجود جہاز اس کے پاس بروقت کیوں نہیں پہنچے۔ کچھ اس کام پر لگے رہے کہ جس زاویے سے جہاز کے ساتھ آئس برگ ٹکرایا تھا‘ اس نے جہاز کے ڈھانچے کو توقع سے زیادہ نقصان کیوں پہنچایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سبھی نے اپنی اپنی رپورٹیں جمع کرا دیں‘ مگر جہاز کے ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کی رپورٹ ماہرین کو مطمئن نہ کر پائی۔ انہیں حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے جہاز کا ملبہ درکار تھا جو اٹلانٹک کی گہرائی میں پڑا تھا۔ 1985ء میں دنیا اس قابل ہوئی کہ غوطہ خور سمندر میں دو میل گہرائی تک پہنچ کر اس ملبے کو دیکھ سکیں۔ 1997ء میں ایک امریکی تفتیش کار نے خود غوطہ لگا کر جہاز کو دیکھا اور بتایا کہ جہاز کا فولادی ڈھانچہ جس جگہ سے خراب ہوا تھا وہاں لگی لوہے کی چادریں آئس برگ کے ٹکرانے سے پھٹی نہیں بلکہ اپنی جگہ سے اکھڑ گئی ہیں۔
اس نے سمندر کی تہہ سے کچھ ریوٹ(Rivet) بھی نکلوا لیے۔ یہ لوہے کے وہ کیل ہوتے ہیں جو جہاز کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑے رکھتے ہیں۔ تفتیش کار وں نے ان ریو ٹ کا تجزیہ کیا تومعلوم ہوا کہ یہ غیر معیاری لوہے سے بنے ہیں۔ ایک تفتیش کار نے ہمت پکڑی اور جہاز بنانے والی کمپنی کا چھیاسی برس پرانا ریکارڈ کھنگالنے چل پڑی۔ اس نے سراغ لگایا کہ جہاز ساز کمپنی کو ٹائی ٹینک کی تیاری کے دوران Rivets کی کمی کا سامنا تھا جس کے لیے اس نے ایک ایسے کارخانے سے ان کی خریداری کا معاہدہ کرلیا جو اس میدان میں نسبتاً نیا تھا۔ دوسری بات جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ اس نے ان Rivets کے معیار کی جانچ پڑتال بھی ختم کر دی اور نئے Rivets جہاز کے عین اس حصے میں استعمال کیے جہاں آئس برگ ٹکرایا تھا۔
غیر معیاری Rivets آئس برگ کا دھچکا برداشت نہ کر پائے اور اکھڑ گئے۔ لوہے کی چادروں کے درمیان خلا پیدا ہوگیا جہاں سے پانی جہاز کے اندر آنے لگا اورجہاز ڈھائی گھنٹے کے اندر ڈوب گیا۔ اگر اس جگہ بھی معیاری Rivets استعمال کیے جاتے تو آئس برگ ٹکرانے سے جہازمیں اتنا بڑا شگاف نہ پڑتا کہ یہ صرف ڈھائی گھنٹے میں ڈوب جائے۔ یہ رپورٹ سامنے آئی تو پتا چلا کہ ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کی وجہ آئس برگ نہیں بلکہ اس کمپنی کی نالائقی تھی جس نے یہ جہاز بنایا تھا۔
ٹائی ٹینک کی تباہی میں کارفرما نالائقی نے دنیا کو ایک بار پھر بتا دیا کہ ہم لوگ جن واقعات پر حادثے یا سازش کا حکم لگا کر خاموش ہو جاتے ہیں دراصل کسی نہ کسی کے نکمے پن کا نتیجہ ہوتے ہیں۔آپ تاریخ کے بڑے بڑے واقعات میں فتح و شکست یا کامیابی و ناکامی کے اسباب کا مطالعہ کرتے جائیں آپ کومعلوم ہوجائے گا کہ ہر ناکامی یا شکست کے پیچھے دراصل کوئی نالائق تھا جسے اپنا کام پوری طرح نہیں آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ قومیں اپنی پوری توجہ اپنے لوگوں کو ہنر مند اور محنتی بنانے پر مرکوز رکھتی ہیں۔ اچھی ریاستیں اور حتیٰ کہ اچھی کمپنیاں بھی یہ امر یقینی بناتی ہیں کہ ان کا انتظام چلانے والے بہترین سے بہترین لوگ ہوں۔ مردم شناسی کہنے کو تو ایک خداداد صلاحیت ہے جوحکمرانوں کی بہترین قابلیتوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے لیکن آج کے دور میں اسے باقاعدہ سائنس کا درجہ مل رہا ہے۔ افراد کی بھرتی کے لیے ان کی صلاحیتوں کی جانچ پڑتال کے ایسے ایسے طریقے وضع کیے جارہے ہیں کہ انسان کے اندر موجود مخفی صلاحیت بھی سامنے آجاتی ہے اورکہیں گہرائی میں چھپی نالائقی بھی اپنا وجود ظاہرکردیتی ہے۔ اس نکتے کو مزید سمجھنے کے لیے ذرا اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لیے مقابلے کے امتحان کے نظام پر ہی نظر ڈال لیں۔ انگریز نے کارِ جہانبانی کے لیے افسرمنتخب کرنے کا جو نظام بنایا وہ ایسی چھلنی تھا جس میں سے کوئی نالائق گزر ہی نہیں سکتا تھا۔ جدید ریاستوں میں تو مسلسل تربیت کا نظام اتنا مؤثر ہے کہ کسی شخص کے لیے اس نظام سے گزرے بغیر ترقی ہی ممکن نہیں اور کسی ایک جگہ اس نے قابلیت نہ دکھائی تو وہ ترقی کا اہل ہی نہیں رہے گا۔ نالائقی کو بالکل بھی برداشت نہ کرنے کا یہ نظام ترقی یافتہ ملکوں میں تو اتنا مضبوط ہے کہ وہاں اگرآپ کو وہ کام نہیں آتا جس کاآپ نے دعویٰ کیا ہے تو پھرآپ کی نوکری یا کاروبار زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ ہاں اگرآپ نالائقی کو اپنا طرّہ امتیاز بنا کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو پھراس کرّہ ارض پرآپ کو پاکستان سے بہتر کوئی ملک نہیں ملے گا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عوام و خواص کے لیے یہ سہولت موجود ہے کہ اپنا کام جانے بغیر بھی ماہرین میں شمارکیے جائیں اور ریاست کے باوقار مناصب تک پہنچ جائیں۔ یہاں سرکاری طور پر ماہر زراعت ہونے کے لیے یہ قطعی ضروری نہیں کہ آپ نے کبھی کھیت میں کام کیا ہو یا لیبارٹری میں مغز ماری کی ہو۔ یہاں آپ اپنی جھوٹی سچی سائنسی قابلیت کا دعویٰ کرکے ملک کو ریکوڈک کیس کی طرح اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا دیں‘ کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا۔ اس مملکت خداداد میں لیاقت‘ ہنرمندی یا مہارت بے معنی الفاظ و تراکیب سے زیادہ کچھ نہیں‘ البتہ ذاتی وفاداری‘ قانون کے تکلف میں پڑے بغیرہر حکم مان لینا اورعملیت پسندی کے نام پر اخلاق ودیانت کو بالائے طاق رکھ دینا ہی میرٹ یا اہلیت قرار پاچکا ہے۔ حالت اس درجہ خراب ہے کہ اب نالائقی ہمارے سرکاری نظام میں اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ سوائے مکھی پرمکھی مارنے کے کچھ نہیں ہوتا۔ معاملہ اتنا خراب ہوچکا ہے کہ انگریزکا دیا ہوا بھرتی کا نظام بھی نالائقوں کے ہاتھ چڑھ کر مزید نالائق بھرتی کیے چلے جارہا ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ دنیا بھر میں بھارتی‘ بنگلہ دیشی حتیٰ کہ نیپالی اور افغانی بھی پاکستانیوں کو پیچھے چھوڑتے جاتے ہیں۔ ہماری معیشت‘ ہمارے سفارت کار‘ ہمارا نظامِ قانون ‘ ہمارا نظامِ صحت‘ ہماری پولیس‘ غرض سبھی کچھ وہ دیمک چاٹ گئی ہے جسے نالائقی کہتے ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی نالائقی اور نکمے پن کا احساس عوامی سطح پر اتنا شدید ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو ایسے اداروں میں پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں جن کے امتحانات دوسرے ملکوں کے نظامِ تعلیم کے تحت لیے جاتے ہیں کیونکہ دنیا پر بھی ہمارے نظام تعلیم کی بے وقعتی واضح ہوچکی ہے؛ البتہ کسی کو کوئی احساس نہیں تو ہماری حکومتوں کو نہیں کہ آج اپنے بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کوئی معقول بندوبست کردیا جائے۔ مصیبت یہ ہے کہ ''عظیم قوم کے عظیم رہنما‘‘ لایعنی دعووں کے سوا کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ خیر‘ ان سے گلہ بھی کیا کہ یہ بھی اتنے ہی نالائق ہیں جتنے ہم سب اور ان میں سے اکثر کو تو منتخب ہونے کا شرف بھی حاصل ہے تو ایسے منتخب نالائقوں سے شکوہ جائزلگتا بھی نہیں۔ اب توبس اتنی سی امید باقی ہے کہ یہ نظام چلتا رہے تو شاید ہمارے نصیب میں کوئی ایسا صاحبِ اختیارآجائے جو اس طرف بھی توجہ کرلے‘ ورنہ برباد تو ہم خود کو کیے ہی جارہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved