تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     06-01-2021

کان کنوں کا قتلِ عام

تین جنوری کو ملک بھر کے ٹی وی چینلز پر مچھ میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے گیارہ کان کنوں کے قتل عام کی خبریں جیسے ہی بریکنگ نیوز کی صورت میں سننے کو ملیں تو حسبِ معمول حکومتی اراکین کے مذمتی بیانات آنا شروع ہو گئے کہ دشمن نے انسانیت سوز اور بزدلانہ حملہ کیا ہے۔ مجھے ہمیشہ سے ان الفاظ سے اختلاف رہا ہے کیونکہ جب ہمارا دشمن اپنے دہشت گردوں کے ذریعے ہماری سکیورٹی فورسز، ہمارے مزدوروں، کان کنوں اور سول آبادیوں کو نشانہ بناتا ہے تو اس کا یہ عمل یقینا انسانیت سوز تو ہوتا ہے لیکن خود کو بری الذمہ قراردیتے ہوئے اسے بزدلانہ حملہ کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کے برعکس یہ کہنا چاہیے کہ دشمن ہماری تمام تدبیروں کو پھلانگتے ہوئے ہم پر حملہ آور ہوا ہے۔ دشمن کے اس وار کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں اپنی خامیوں کو دور کرنا چاہئے تاکہ ایسے انتظامات کیے جا سکیں کہ آئندہ دشمن ایسا کوئی وار نہ کر سکے۔ جہاں کوتاہیوں کی بات کی جاتی ہے تو وہاں یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ ہمارے سکیورٹی اداروں نے نجانے دشمنوں کے کتنے ایسے پلان اپنی جانوں پر کھیل کر ناکام بنا ئے ہیں‘ اگر وہ وقوع پذیر ہو جاتے تو ان سے ہونے والی تباہی ہمیں ہلا کر رکھ دیتی۔ اس حوالے سے سکیورٹی ادارے قابلِ تحسین ہیں۔
بولان کا علا قہ طویل عرصے سے دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ہماری معیشت سے وابستہ اس اہم ترین حصے کو دشمن نے 3جنوری کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دو مقاصد کیلئے اپنا ٹارگٹ بنایا۔ پہلا مقصد ایرانی فوج کے جنرل قاسم سلیمانی کی پہلی برسی پر اپنے مقابل کو پیغام دیا اور دوسرا پاکستان میں اپنی بھر پور مو جودگی کا اعلان کیا۔اس اعلان سے پاکستان کو خارجہ پالیسی میں متوقع تبدیلوں سے بھی خبردارکیا گیا ہے۔ اپنے نقشوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چمالانگ، مارگٹ، مارواڑ، ہرنائی اور دکی میں انتہائی سخت اور الرٹ سکیورٹی حصار قائم کرنا ہو گا ورنہ بی ایل اے اور دوسری کالعدم دہشت گرد تنظیمیں یہاں کام کرنے والے کان کنوں پر مزید حملے بھی کر سکتی ہیں۔ سوات کے غریب محنت کشوں کا بہیمانہ قتل تو ابھی کل کی بات ہے۔ جس علاقے میں یہ واردات کی گئی اس سے لگتا ہے کہ دشمن نے اس کی با قاعدہ منصوبہ بندی کی اورمچھ کے علا قے گشتری سے کان کنوں کو ان کے کوارٹروں سے اٹھا کر پہلے ان کی پہچان کی اور پھر ان میں سے گیارہ مزدوروں کو الگ کرتے ہوئے قریبی پہاڑیوں میں لے گیا‘جہاں ہاتھ پائوں باندھ کر ان کو تیز دھار آلے سے ایک ایک کر کے ان کو قتل کر دیا گیا۔ ان کی دردناک چیخوں سے درہ بولان دیر تک گونجتا رہا۔ ان گیارہ کان کن شہدا میں مشتاق حسین بھی شامل ہے جس نے 1053نمبر لے کر بلوچستان بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے کان کنی کرتا تھا۔
مچھ میں اس وقت کوئلے کی کل62 کانیں ہیں‘ جن میں سے اس وقت52 فعال ہیں۔ کوئٹہ کے جنوب مشرق میں صرف60 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ضلع کچھی کے مشہور درہ بولان میں واقع یہ علا قہ ایک دشوار گزار پہاڑی علا قہ ہے جہاں کام کرنے والے 35 ہزار سے زائد افراد براہِ راست کان کنی سے وابستہ ہیں ۔غریب، مجبور ،مفلس گیارہ محنت کش کان کنوں کا قتلِ عام محض گیارہ انسانوں کا قتل نہیں بلکہ ہمارے پورے معاشرے‘ ہمارے قانون اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے وقار کا قتل ہے۔ ان گیارہ محنت کشوں کا خون ہم سب سے سوال کرتا رہے گا کہ دہشت گرد دشمن کی طرف سے آپ بے خبر کیسے ہو گئے؟ کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ ایک سال قبل تین جنوری کا دن خون آشام بھیڑیوں کا بغداد ایئر پورٹ پر امریکا کی مچائی ہوئی سفاکی کا جشن منانے کا دن ہے ۔ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا ایک برس مکمل ہونے پر جب ایران، عراق، شام، لبنان میں اس کا سوگ منا یا جا رہا تھا تو ہلیری کلنٹن کے اعتراف کے مطا بق‘ امریکا کی دولت اسلامیہ کے سفاک دہشت گردوں نے پاکستانی شہریوں کو خون میں نہلا کر رقصِ ابلیس کا مظاہرہ کیا۔ بغداد ایئر پورٹ کے قریب امریکی ڈرون حملے میں ایران کی سپیشل فورسز کے کمانڈر سلیمانی اور اس کے ساتھیوں کے قتل کو گشتری کی پہاڑیوں میں تازہ کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اسرائیل اور پاکستان کے دشمن ممالک اپنے مہروں کے ذریعے پاکستان اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے برادرانہ تعلقات کو اپنے خنجروں کی تیز دھاروں سے کاٹنے اور پامال کرنے کی کوشش کریں گے؟
دولت اسلامیہ نامی دہشت گرد تنظیم‘ جس نے گیارہ غریب محنت کشوں کو بیدردی سے ذبح کرنے کی ذمہ داری بڑے فخر سے قبول کی ہے‘ کو کس نے جنم دیا تھا؟ اس کا انکشاف تو ہلیری کلنٹن اپنے ایک انٹر ویو میں کر چکی ہیں۔ بد قسمتی دیکھئے کہ ہلیری اگر ڈیپ سٹیٹ کا الزام پاکستان پر لگائے تو وہ درست لیکن جب وہ یہ کہے کہ داعش اور دولت اسلامیہ جیسے دہشت گرد امریکا نے تشکیل دیے تو وہ اسرائیلی کنٹرولڈ میڈیا کی نظروں میں جھوٹ ہو جاتا ہے۔ ان دہشت گردوں کے سر پرست کتنے بھی طاقتور کیوں نہ ہوں‘ اس نے ہمارے ملک پر حملہ کر کے ہمارے گیارہ شہریوں کو ہی قتل نہیں کیا بلکہ ہماری حمیت، ہمارے قانون، ہماری خود مختاری اور ہمارے تمام حفاظتی حصار کو چیلنج کیا ہے۔ یہ گیارہ کان کن کوئی سائے نہیں تھے کہ چند قدم چلنے کے بعد غائب ہو جائیں‘ یہ ہمارے جسم کا حصہ اور پاکستان کی پہچان تھے۔ اس ملک کی سربلندی‘ سالمیت اور حفاظت کیلئے جو قربانیاں ہزارہ دے رہے ہیں وہ بیش قدر ہیں۔ اس ملک کی سرحدوں کے ہر حصے پر انہوں نے اپنے خون سے آبیاری کرتے ہوئے سرحدوں کو نئی زندگی اور توانائی دی ہے۔
اب تک دشمن کی جانب سے دہشت گردی کی بہیمانہ وارداتوں میں کبھی ہمارے وکلا‘ کبھی سکیورٹی فورسز کے افسر اور جوان‘ کبھی معصوم شہری اور کبھی بے گناہ مزدور شہید ہوتے رہے ہیں۔ اگر کہیں خفیہ اطلاعات پر سکیورٹی ادارے بروقت کارروائی کریں تو ''سری واستو گروپ‘‘ کے چیلے میں آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ بلوچستان میں کھمبیوں کی طرح اگنے والے ڈیجیٹل چینلز کے بھیس میں منظم نیٹ ورکس کام کر رہے ہیں جو پل پل کی خبریں اور اطلاعات ریاست مخالف قوتوں کو فراہم کر کے آسان ٹارگٹ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں کو تمام تر ثبوتوں سمیت گرفتار کیا جائے تو نام نہاد تنظیمیں یہ کہتے ہوئے شور مچانا شروع کر دیتی ہیں کہ حکومت میڈیا کو نشانہ بنا رہی ہے۔ 
ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات دہشت گردوں کا بلوچستان میں مچھ کے علاقے پنڈل گڈ نامی لیز پر پہنچنا اور پھر وہاں بنائے گئے رہائشی کوارٹروں میں جا کر ان کوارٹروں میں موجود کان کنوں کو شناخت کے بعد قریبی پہاڑیوں میں لے جا کر ان کے ہاتھ پائوں اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انہیں بے دردی سے ذبح کر دینا آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا۔ یہ خون انصاف مانگتا ہے۔ یہ خون اس ملک کی طرف بڑھنے والے دشمن کے ان ہاتھوں کو کچلنا چاہتا ہے، اس کیلئے ہر اُس حد تک جانا ہو گا جو کسی بھی ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اگر موقعِ واردات کا جائزہ لیا جائے تو یہ جگہ ہائی وے سے تقریباً دس کلو میٹر دور پہاڑوں کے اندر واقع ہے۔ دہشت گردی کی یہ خوفناک کارروائی ایسے ہی نہیں کی جا سکتی۔ اس کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی اور کئی کئی دن تک ریکی کی گئی ہو گی جس میں مقامی مدد بھی شامل ہو سکتی ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کی گاڑیاں وہاں تک کیسے پہنچیں؟ کیا یہاں قانون کے نفاذ کے ذمہ دار اداروں کے اہلکار تعینات نہیں تھے؟ اگر تھے تو اتنے انتظامات کے باوجود دشمن اپنے مذموم ارادوں میں کیونکر کامیاب ہو گیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا ہمیں جواب تلاش کرنا ہے تاکہ آئندہ ہم دشمن کی سازشوں کو نہ صرف ناکام بنا سکیں‘ بلکہ اسی پر پلٹا بھی سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved