اسے ہماری بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ ہمارے معاشرے میں ماورائے عدالت قتل یعنی پولیس مقابلوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اکثر عام شہریوں کو مقابلے میں پار کرنے کے بعد ان کو مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیسز چلتے رہتے ہیں اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، نتیجتاً مجرم آزاد ہو جاتے ہیں اور مرنے والوں کے لواحقین کو کبھی انصاف نہیں مل پاتا۔ کراچی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کر دیا جاتا ہے‘ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ واقعہ تب پیش آتا ہے جب ان کی بہن بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔ اپنے والد کے انتقال پر میر مرتضیٰ بھٹو نے مبینہ طور پر ''الذوالفقار‘‘ کی بنیاد رکھی اور ہتھیار اٹھا لئے۔اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ایما پر وہ وطن واپس آگئے مگر بہن بھائی ‘دونوں میں بن نہ پائی اور دوریاں بڑھتی رہیں۔ اس میں کوئی تیسرا ہاتھ ملوث تھا یا ذاتی رنجشیں تھیں‘ حالات بگڑتے ہی چلے گئے۔ مرتضی بھٹو نے اپنی الگ پارٹی قائم کرلی اور 20 ستمبر 1996کو ایک پریس کانفرنس میں پولیس پر سنگین الزامات عائد کئے۔ اسی روز شام کو کراچی میں انہیں ایک پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔ یہ سب کچھ ان کی رہائش گاہ کے نزدیک ہوا، ان کے بچوں فاطمہ اور ذوالفقار جونیئر نے گولیوں کی آوازیں خود اپنے کانوں سے سنیں۔ بعد ازاں پولیس نے یہ مؤقف اختیار کیا چونکہ ان پر میر مرتضیٰ بھٹو کے قافلے سے فائرنگ ہوئی اس لیے اسے جوابی فائرنگ کرنا پڑی۔ وزیراعظم کا اپنا بھائی پولیس کے ہاتھوں قتل ہوگیا لیکن کچھ نہیں ہوا۔ آج تک میرمرتضیٰ بھٹو کے خاندان والوں کو انصاف نہیں ملا۔ اس قتل کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی گئی مگر قتل کروانے والے اور قتل کرنے والے ہمیشہ کی طرح بچ نکلے۔ ہر دور میں بہت اعلانات کیے جاتے ہیں کہ ہم سب ٹھیک کرلیں گے‘ پولیس میں اصلاحات لائی جائیں گی لیکن آج تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دہشت گردی میں کمی آ گئی لیکن پولیس گردی میں اضافہ ہوتا گیا۔ 2014ء میں طاقتور وزیراعلیٰ شہباز شریف کے دور میں پنجاب پولیس نے منہاج القران اور پاکستان عوامی تحریک کے نہتے کارکنان پر گولیاں برسائیں۔ اس سانحے کو سال سات سال مکمل ہو چلے ہیں لیکن متاثرین اب بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ پولیس نے نہتے مظاہرین پر سیدھے فائر کئے جس سے لوگوں کے منہ پر گولیاں لگیں۔ عوامی تحریک کی ایک خاتون کارکن‘ جو حاملہ تھی‘ کو پولیس نے منہ پر فائرنگ کر کے قتل کیا۔ اس وقت لوگوں نے حکمرانوں کو جو بدعائیں دی تھیں‘ ان کی گونج آج تک میرے کانوں میں ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا کا استعمال نیا نیا شروع ہوا تھا، لوگوں نے بہت آواز بلند کی‘ اس وقت کے پنجاب کے وزیر قانون اور وزیراعلیٰ کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ نہتے کارکنوں پر گولیاں چلانا کہاں کی گورننس ہے؟ کیا پولیس کو یہ ٹریننگ دی جاتی ہے کہ حکومت وقت کو خوش کرنے کے لئے وہ ان عوام کو مار دیں جن کے وہ محافظ ہیں۔عمومی طور پر اس طرح کے کیسز میں ہوتا یہ ہے کہ وڈیوثبوت ہونے باوجود گواہ منحرف ہوجاتے ہیں کیونکہ ہمارا سسٹم ہی ایسا ہے۔ ظاہری سی بات پولیس کے خلاف کون گواہی دے گا؟ اس لئے وڈیو ثبوت ہونے کے باوجود قاتل بچ نکلتے ہیں۔ جنوری 2017ء میں ایس ایس پی ملیر رائو انوار کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے چار دہشت گرد مارے ہیں‘ ان میں ایک نقیب اللہ محسود تھا جو ایک عام اور شریف النفس شہری تھا۔ اس وقت تک پاکستان میں سوشل میڈیا ایک بہت بڑی قوت بن چکا تھا‘ لوگوں نے انصاف کی دہائی دینا شروع کردی۔ رائو انوار روپوش ہوگئے اور پھر خود ہی ایک دن عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔ کراچی کی انسدادِ دہشتگردی عدالت نے نقیب اللہ کو دہشت گردی کے مقدمات میں بے گناہ قرار دیا اور کہا کہ اس کا اسلحے‘ بم بارود یا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ نقیب کے والد انصاف کی حسرت لئے دنیا سے چلے گئے‘ مگر ابھی تک انصاف نہیں ہو سکا۔
پولیس گردی کا ایک المناک واقعہ ساہیوال میں پیش آیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ 19جنوری 2019ء کو ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4افراد ہلاک ہوئے۔ مرنے والوں کے زخمی بچوں کو پولیس اہلکار ایک قریبی پیٹرول پمپ پر چھوڑ کر چلے گئے۔ ایک بچہ اور دو بچیاں‘ ہاتھ میں فیڈر لئے گم سم کھڑے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر کون ہے جو اپنے اشکوں کو کنٹرول کر سکا ہو۔ اکتوبر 2019ء میں تمام نامزد ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی مگر شاید وزیراعظم کارِ حکومت میں اتنے مصروف ہیں کہ ان کو پتا نہیں چل سکا کہ ایک معصوم خاندان کو انصاف نہیں ملا۔ اس کیس میں بھی مقتولین کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کا تعلق داعش سے تھا۔ اپنے لوگوں کو بچانے کیلئے جھوٹے ثبوت ، جھوٹے گواہ یہاں تک کہ جھوٹی ایف آئی آرز تک گھڑ لی جاتی ہیں۔
ذہنی طور پر معذور شخص صلاح الدین کو کون بھول سکتا ہے جس نے مبینہ طور پر اے ٹی ایم مشین سے چوری کی تھی اور کیمرے کی طرف دیکھ کر منہ بھی چڑایا تھا۔ پولیس نے اسے گرفتار کیا اور دو دن بعد پولیس حراست میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا‘ پولیس ریفارمز کی بات شروع ہو گئی لیکن بینظیر کا دور ہو، نواز شریف کا دور ہو، پرویز مشرف کا دور ہو یا عمران خان کی حکومت، پولیس کلچر نہیں بدل سکا۔ زیرِ حراست تشدد، ماورائے عدالت قتل، بھتہ خوری، ناکوں پر بے جا تنگ کرنا، شہریوں کی بروقت مدد نہ کرنا‘ یہ معاملہ ویسے کا ویسا رہا جیسا تھا۔ جو ادارہ خود انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہو‘ وہ کیا عوام کی حفاظت کرے گا۔ صلاح الدین کیس میں کیا ہوا؟ اُس کے والد سے پولیس اہلکاروں کا معافی نامہ لکھوا لیا گیا۔ اس ملک میں یہی ہوتا ہے کہ طاقتور کمزور سے راضی نامے یا معافی نامے پر دستخط کرا لیتا ہے اور کیس ختم۔ نہ مدعی نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا۔
پولیس کا موجودہ نظام دورِ سامراج کی نشانی ہے۔ انگریزوں نے برصغیر کے عوام کو محکوم رکھنے کیلئے یہ محکمہ تشکیل دیا تھا مگر اب تک اس میں اصلاحات نہیں لائی جا سکیں اور یہی وجہ ہے کہ بھارت‘ پاکستان اور بنگلہ دیش‘ تینوں ممالک میں پولیس کے محکمے کا حال کم و بیش ایک جیسا ہی ہے۔ جعلی پولیس مقابلوں میں شہریوں کو مارنا، رشوت خوری، زیر حراست لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا، ریمانڈ کے نام پر تو قتل تک کر دینا، عام باتیں ہیں؛ تاہم جیسے ساری پولیس اچھی نہیں‘ ویسے تمام پولیس بری بھی نہیں۔ خاص طور پر موٹروے پولیس، اسلام آباد پولیس اور اسلام آباد کی ٹریفک پولیس کا نظام باقی ملک کی نسبت کافی بہتر ہے اور یہ ادارے اچھا کام کر رہے ہیں مگر اب اسلام آباد میں بھی یکدم کرائم ریٹ بہت بڑھ گیا ہے‘ چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے‘ دن دہاڑے ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ نئے سال کی شروعات ایک سانحے سے ہوئی ہے‘ اس سے ایک بار پھر ماورائے عدالت قتل، جعلی پولیس مقابلوں اور پولیس ریفارمز کی بحث نے جنم لیا ہے۔اسلام آباد پولیس کی انسدادِ دہشت گردی فورس نے ایک نوجوان اسامہ ستی کی گاڑی پر سترہ بار فائر کیا جس سے اس کی ہلاکت ہوگئی۔ پولیس کے مطابق‘ ڈکیتی کی واردات کے بعد کالے شیشوں والی ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی گئی اور نہ رکنے پر فائرنگ کی گئی۔ پولیس نے اپنی عدالت خود لگا کر اسامہ کو ڈکیت بنانے کی ناکام کوشش کی حالانکہ وہ نہتا تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی کچھ اور کہانی سنا رہی ہے۔ مقتول کے والد کے مطابق اسامہ کا پولیس والوں کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا اور اسے سبق سکھانے کی دھمکی دی گئی تھی۔ پولیس قواعد کے تحت گولی اس وقت ہی چلائی جا سکتی ہے جب سامنے سے فائرنگ ہو‘ ورنہ صرف گاڑی کے ٹائروں پر فائر کئے جا سکتے ہیں۔حکمرانوں کی ناک تلے اگر 22 سالہ نوجوان قتل ہو جائے تو ان کے سارے دعوے ہوا میں اڑ جاتے ہیں جو انہوں نے ریاست مدینہ اور پولیس ریفارمز کے حوالے سے کئے تھے۔ سانحہ ساہیوال، صلاح الدین قتل کیس پر وزیراعظم نے بہت سے بیانات دیے تھے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ اگر اسامہ کے خاندان کو انصاف مل گیا تو شاید پرانے وعدوں کا بھی کفارہ ادا ہو جائے۔