تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-01-2021

ہم ایسے گئے گزرے ہرگز نہیں

مرزا تنقید بیگ کو جب بھی کوئی ایسی ویسی خبر پڑھنے یا سُننے کو ملتی ہے وہ کلیوں کی طرف کِھل اٹھتے ہیں اور چہرہ پھولوں کا سا شاداب دکھائی دینے لگتا ہے۔ کل انہوں نے ایک خبر پڑھی تو ہمیں یاد کیا۔ ہم سمجھ گئے تو انہوں نے ضرور کچھ نہ کچھ ایسا پڑھ لیا ہے جو ترقی یافتہ معاشروں کی سبکی کیلئے کافی ہے۔ معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔ مرزا حسبِ معمول ''شکار‘‘ کی تلاش میں اخبار پڑھ رہے تھے کہ انہیں ایک ایسی خبر مل گئی جس میں اُن کے مطلب کا نکتہ تھا۔ یہ خبر امریکی ریاست مسوری کے ایک شخص کے بارے میں تھی جو آج کل شخصی ارتقا کے حوالے سے لیکچر دینے میں مصروف ہے۔ ڈاؤ لِنزے کو 1999ء میں ایک پُراسرار بیماری لاحق ہوئی‘ اُس نے معالجین سے رابطہ کیا تو انہوں نے متعدد ٹیسٹ کرائے تاکہ بیماری کو علامات کے علاوہ غیر ظاہر شدہ خصوصیات کی بنیاد پر بھی سمجھنا آسان ہو۔ ڈاؤ لِنزے کے نصیب میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ معالجین درجنوں ٹیسٹ کرانے کے بعد بھی کم و بیش گیارہ سال تک یہ معلوم نہ کرسکے کہ اسے آخر کون سی بیماری لاحق ہے! امریکا جیسے ملک میں اعلیٰ پائے کے ڈاکٹرز گیارہ سال کی محنت کے بعد بھی معلوم نہ کرسکیں کہ بندے کو بیماری کون سی لاحق ہے! یہ تو کمال بلکہ غضب ہوگیا۔ اب ڈاؤ لنزے کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ اٹھ کھڑا ہوا کہ اُسے یہ کیسے معلوم ہو کہ اُسے ہوا کیا ہے۔ اُس نے جن ماہرین سے رابطہ کیا تھا وہ خاصے نامور تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ سب قابل ہیں تو ہوں گے مگر مجھے کیا‘ بات تو جب ہے کہ میری مشکل دور کریں۔ گویا بقولِ عبیداللہ علیمؔ ؎
جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا!
ہم تو سمجھتے تھے کہ میرزا نوشہ ہی کو معلوم نہ ہوسکا کہ اُن کے دل کو ہوا کیا تھا۔ اور جب یہی معلوم نہ تھا کہ عارضہ کون سا لاحق ہے تو علاج کیسے کرتے؟ مجبور اور عاجز ہوکر اُنہیں کہنا پڑا تھا ؎
دلِ ناداں! تجھے ہوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے
ڈاؤ لنزے کے معاملے میں امریکی ڈاکٹرز کی اہلیت کا بھرم کھل گیا بلکہ مرزا کے نزدیک تو اُن کی اہلیت کا ملمّع ایک ہی رگڑ سے اُتر گیا۔ ڈاؤ لنزے بیچارہ عجیب الجھن میں پھنس گیا۔ وہ سوچنے لگا کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا سے یہ جانے بغیر ہی جانا پڑے کہ آخر ہوا کیا تھا!
ہم جب مرزا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اُن کا کھلا کھلا چہرہ دیکھ کر دل کو طمانیت سی محسوس ہوئی۔ جب اُنہوں نے ڈاؤ لنزے والی خبر لہک لہک کر سُنائی تو ہم نے دل ہی دل میں امریکی ڈاکٹرز کا شکریہ ادا کیا کہ اُن کی اہلیت میں رہ جانے والی تھوڑی سی کسر کی بدولت مرزا کے دل کو تھوڑی سی خوشی تو ملی۔ موڈ اچھا ہو تو مرزا ہمارے لیے نعمت ثابت ہوتے ہیں، بصورتِ دیگر اُنہیں جھیلنے کیلئے اللہ سے توفیق کی دعا کی جاتی ہے۔ مرزا ہمیں دیکھتے ہی چہکنے لگے ''لو میاں! تم ایک بار پھر غلط ثابت ہوگئے۔ یہ جو تم کہتے ہو نا کہ اہلِ مغرب نے ہر شعبے میں مہارت کا ایسا معیار قائم کیا ہے جو باقی دنیا کیلئے نمونہ ہے تو جان لو کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ ہم خواہ مخواہ اپنے نظامِ صحتِ عامہ کو روتے ہیں۔ اب ہمیں معلوم ہوا کہ تمہارے اور تم جیسے دوسرے بہت سوں کے اندازے اور دعوے بالکل غلط ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ع
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
ثابت ہوگیا کہ امریکا میں بھی صحتِ عامہ سے متعلق نظام میں وہی عوارض پائے جاتے ہیں جو ہمارے ہاں بہ کثرت دکھائی دیتے ہیں‘‘۔ جب مرزا بول رہے ہوں تو ٹوکنا اپنی موت کو دعوت دینے کے برابر ہوتا ہے! جب مرزا اپنے '‘نکاتِ عالی‘‘ کی پوری بالٹی ہم پر انڈیل چکے تب ہم نے عرض کیا کہ امریکی معاشرے میں بھی انسان ہی پائے جاتے ہیں اور انسان خطا کا پتلا ہے یعنی غلطی کسی بھی انسان سے سرزد ہوسکتی ہے۔ اگر کسی ایک کیس میں امریکی ڈاکٹرز کو معلوم نہ ہو پایا کہ کسی شخص کو بیماری کون سی لاحق ہے تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امریکا میں صحتِ عامہ کا نظام مخدوش حالت میں ہے اور ہم اُس کا موازنہ صحتِ عامہ کے اپنے نظام سے کریں۔ وہ کہاں اور ہم کہاں؟ یہ سننا تھا کہ مرزا بھڑک اٹھے ''یہی تو سب بڑا مسئلہ ہے تم جیسوں کا۔ ترقی یافتہ معاشروں سے ایسے مرعوب ہو کہ اُن کی کسی خامی اور خرابی کو بھی احترام کی نظر سے دیکھتے ہو، الٹے سیدھے دلائل کی مدد سے اُس کے دفاع پر تُل جاتے ہو۔ اپنے ہاں کوئی ڈاکٹر درست تشخیص نہ کر پائے تو تم جیسے لوگ تنقید کے ڈونگرے برساتے ہوئے آسمان سر پر اٹھالیتے ہو اور اگر ترقی یافتہ معاشروں میں بھی ایسا ہی کچھ ہو تو 'غلطی انسان ہی سے سرزد ہوتی ہے‘ اور 'انسان تو خطا کا پتلا ہے‘ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہو‘‘۔ مرزا سانس لینے کیلئے دم بھر کو رُکے تو ہم نے دست بدستہ عرض کیا کہ دنیا بھر میں ڈاکٹروں سے غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ تشخیص کی کوشش ہی کی جارہی ہوتی ہے کہ مریض چل بستا ہے۔ اگر امریکی ڈاکٹرز کسی بیماری کو پہچان نہ سکے تو کون سی قیامت آگئی؟ یہ سُنتے ہی مرزا بدک گئے،پھڑکتے ہوئے بولے ''بات ڈاکٹرز کی اہلیت میں رہ جانے والی کمی یا خامی پر رُک جاتی تو کچھ نہ تھا‘ ڈاؤ لنزے نے وہ کیا جو ڈاکٹرز کو شرمندہ کرنے کیلئے کافی تھا۔ اُس نے طِب کی بڑی بڑی کتب پڑھیں۔ کیس سٹڈیز کی مدد سے ایک سال کے اندر معلوم کرلیا کہ اُس کے ایڈرینل گلینڈز میں ٹیومر ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ بڑے بڑے ڈاکٹرز کو معلوم نہ ہو پایا وہ ایک عام نوجوان نے کیسے جان لیا۔ اور پھر معاملہ محض جان لینے تک نہیں رُکا۔ ڈاؤ لنزے نے اپنے چند دوستوں کی مدد سے اپنی سرجری کا بھی انتظام کیا اور ٹیومر سے نجات پائی‘‘۔ یہ سن کر ہم واقعی حیران رہ گئے۔ ہمارے ہاں بھی یہی ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز معمولی سی خرابیٔ صحت پر بھی کئی ٹیسٹ کرواتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح معلوم ہو ہی جائے کہ بندے کو ہوا کیا ہے! ایسے میں عوام ڈاکٹرز پر زیادہ بھروسا کرنے کے بجائے اپنا علاج خود کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ ڈاؤ لنزے نے بھی ڈاکٹرز کی زبان سے کوئی حوصلہ افزا بات نہ سُننے پر طِب کی بڑی کتب کھنگال ڈالیں۔ اور پھر ع
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
کے مصداق علاج بھی خود ہی کرنے نکل پڑا۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کی خصوصیت ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے علاقے میں پاکستانی بھی رہتے ہوں اور اُس نے اُن سے بہت کچھ سیکھ لیا ہو! آپ مرزا کی باتوں پر دھیان نہ دیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں کے ہر فرد کو ہم مثالی تصور کرتے ہیں۔ وہ بھی انسان ہی تو ہیں اور انسان سے کب کون سی غلطی سرزد ہو، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے کو دیکھ کر صرف شرم محسوس ہوتی ہے‘ ہمارے ہاں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو دل کو طمانیت کے احساس سے ہم کنار کرتا ہے۔ اب یہ خود سے اپنا علاج کرنے والا معاملہ کیا کم ہے؟ آج مغرب میں ایسی بہت سی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں جنہیں رفع کرنے کیلئے اُن معاشروں کے لوگوں کو ہم سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ہمارے اِن خیالات کو پڑھ کر مرزا تنقید بیگ یہ سوچتے ہوئے تھوڑا بہت سکون ضرور محسوس کریں گے کہ کسی نہ کسی درجے میں ہم اُن کے ''نظریات‘‘ کو قبول کرنے پر مائل تو ہوئے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved