اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے ضمنی الیکشن اور بعد ازاں امکانی طور پر سینیٹ الیکشن میں بھی حصہ لئے جانے کے فیصلے نے سڑکوں پر احتجاج کرتی جماعتوں کی پارلیمنٹ واپسی کا اشارہ دے دیا ہے۔ حکومت پی ڈی ایم کے اس فیصلے پر شادیانے بجا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہناکہ پی ڈی ایم اتحاد فارغ ہو چکا ہے ہمیں اب اس سے کوئی خطرہ نہیں‘ اس بات کا اعتراف ہے کہ حکومت پی ڈی ایم اتحاد سے خطرہ محسوس کر رہی تھی۔
سیاست، دراصل اندازوں کا کھیل ہے۔ کسی بھی سیاسی چال کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیا نتائج پیدا کرے گی۔ سیاست دو جمع دو، چار کا کھیل نہیں، بلکہ یہ دو جمع دو کبھی پانچ اور کبھی صفر بھی ہو جاتے ہیں۔ پی ڈی ایم اتحاد بننے سے قبل اس میں شامل تمام سیاسی جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) اپنے تئیں حکومت کے خلاف تحریک اور جدوجہد کی کوششوں میں مصروف رہیں۔ پیپلز پارٹی نے پارلیمان کے اندر اور باہر احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب میں دو بار حکومت مخالف کمپین کا آغاز کیا لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اسی دوران پیپلزپارٹی مقتدر حلقوں کے ساتھ بیک ڈور رابطوں میں بھی مصروف نظر آئی کہ اسے راستہ فراہم کیا جائے۔ مسلم لیگ ن کی جیلوں میں پھنسی قیادت کے پیش نظر، پیپلز پارٹی حکومت مخالف تحریک میں غالباً سولو فلائٹ لینا چاہتی تھی اور طاقتور حلقوں کو اس بات کا یقین دلانا چاہتی تھی کہ وہ واحد حقیقی اپوزیشن جماعت ہے جو حکومت کا متبادل بن سکتی ہے۔ ایسے میں حکومت نے بھی پیپلزپارٹی کو نون لیگ کی نسبت کمزور حریف سمجھتے ہوئے غیرمحسوس انداز میں اس کا ساتھ دیا۔ سندھ میں گورنر راج، تحریک عدم اعتماد کی باتیں، اندرون سندھ پیپلز پارٹی مخالف دھڑوں سے رابطے اور وزیر اعظم سمیت وزراء کے دورے، دراصل پیپلز پارٹی کی اپوزیشن سیاست کو تقویت بخشتے رہے۔ لیکن ان تمام حربوں کے باوجود پیپلز پارٹی واحد اپوزیشن جماعت بننے کا تاثر دینے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ قیادت پر بڑھتے ہوئے کرپشن کیسز نے پارٹی کو پریشان کئے رکھا۔
دوسری طرف تمام تر مشکلات کے باوجود 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ اس نے یہ بھی ثابت کیاکہ وہ اب بھی پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ 'ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے سے الیکشن میں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن نے الیکشنز کے بعد خود کو مزاحمتی بیانیے سے مفاہمتی بیانیے پر بھی شفٹ کیا۔ مسلم لیگ ن کے پیش نظر سب سے اہم معاملہ کیسز میں پھنسی اپنی قیادت کو جیلوں سے باہر نکالنا تھا۔ پارٹی کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے اسمبلی کے فورم پر ایک وسیع تر معاشی مفاہمت کا خیال پیش کیا۔ یہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے تمام جماعتوں کے مل کر کام کرنے کی تجویز تھی‘ لیکن حکومت نے اس تجویز کو این آر او سے تعبیر کیا۔ وزیر اعظم اور وزراء نے میڈیا پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ اپوزیشن جماعتیں معاشی مفاہمتی نظریے کی آڑ میں این آر او مانگ رہی ہیں لہٰذا یہ حکومت‘ جو احتساب کے لیے وجود میں آئی ہے‘ کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے گی۔ حکومتی تیور دیکھتے ہوئے مسلم لیگ کی قیادت سر جوڑ کر بیٹھ گئی۔ سب سے پہلے عدالتی محاذ پر ریلیف لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس دوران طاقتور حلقوں سے رابطے بھی جاری رکھے گئے۔ اس کے نتیجے میں میاں شہباز شریف میاں محمد نواز شریف اور اپنی بھتیجی مریم نواز کو عدالتی پراسیس کے ذریعے جیل سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ ن نے تعاون جاری رکھا اور آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملے پر بھی ایک پیج پر رہے۔ اس کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ مریم نواز بھی اپنے والد کی ساتھ یا بعد میں لندن چلی جائیں گی جہاں وہ ان کی دیکھ بھال کر سکیں‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ وزیراعظم کے اس بیان کہ ''اب انہیں مزید ایسے کاموں پر مجبور نہ کیا جائے‘‘ کے بعد صورتحال کچھ بدل سی گئی اور مریم نواز لندن نہ جا سکیں۔ مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انہیں لگتا ہے‘ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہیں پاکستان میں رکھا گیا ہے۔ لیکن اس امید پر کہ شاید والد کی تیمارداری کیلئے لندن جانے دیا جائے‘ انہوں نے طویل عرصے تک خاموشی اختیار کیے رکھی۔ میاں شہباز شریف لندن سے وطن واپس آئے تو ان پر کرپشن کیسز کھول دیئے گئے جو ان کی گرفتاری پر منتج ہوئے۔
اپوزیشن کے ایک تیسرے بڑے پلیئر مولانا فضل الرحمن پہلے دن سے ان اسمبلیوں کو غیر جائز قرار دیتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ ان کے اپنے بیٹے اور بھائی سمیت ان کی پارٹی ٹکٹ پر جیتے ہوئے ایم این ایز اور سینیٹرز بھی اسی پارلیمان کا حصہ ہیں۔ اسی لیے مولانا نے 2019ء کے اواخر میں میں حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا اعلان کیا‘ جس کی میاں نواز شریف نے بھرپور تائید کی تھی۔ مولانا کا آزادی مارچ پنجاب میں داخل ہوا تو توقع کی جا رہی تھی کہ مسلم لیگ ن کے کارکن جوق در جوق اس کارواں کا حصہ بنیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ مولانا کا قافلہ لاہور پہنچا تو وہ شہباز شریف اور ان کے کارکنوں کا انتظار ہی کرتے رہے پھر اسی حالت میں اسلام آباد روانہ ہوگئے۔ مولانا اسلام آباد پہنچے تو انہی دو بڑی جماعتوں کے لیڈران انہیں سمجھانے میں لگے رہے کہ آگے نہ جائیں۔ مولانا کو امید دلائی گئی کہ فی الحال وہ واپس چلے جائیں‘ دوسرے مرحلے میں انہیں بھرپور موقع فراہم کیا جائے گا‘ لیکن اس موقع کی صورت نکلتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ ان تمام عوامل کے پیش نظر اپوزیشن کی ان جماعتوں کو یہ سمجھ آیاکہ تنہا میدان میں اتر کر نتائج پیدا کرنا آسان نہیں۔ مختلف نظریات، سوچ اور پرانی سیاسی رقابت کے باوجود بحالی جمہوریت اور ہائبرڈ سسٹم سے نکلنے کے لیے پی ڈی ایم پلیٹ فارم بنا لیا گیا۔ پی ڈی ایم کی اٹھان‘ لب و لہجے اور زبان نے جہاں ایک طرف عوام کو اپنی طرف پوری طرح متوجہ کر لیا تھا وہاں حکومت کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی۔ ایسے میں وہ تمام مجرب نسخے استعمال کیے گئے جن کے ذریعے پی ڈی ایم کے اس اتحاد میں دراڑ ڈالی جا سکے۔ یہ سب آسان اس لیے تھاکہ پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پوری طرح سے اس بات پر فوکس کئے ہوئے تھیں کہ اس اتحاد کے نتیجے میں ملنے والے فوائد سے پورا پورا انفرادی فائدہ اٹھا سکیں۔ یہی وہ راستہ تھا جس پر حکومت اور اس کے ہمدرد حلقوں کی جانب سے ورکنگ کی گئی اور پی ڈی ایم میں الگ الگ فائدوں کی سوچ پیدا کی گئی۔ ان میں سب سے کمزور پوزیشن پیپلزپارٹی کی تھی جسے کچھ حاصل کرنے کے لیے کچھ کھونا بھی تھا۔ سندھ حکومت اور سینیٹ چھوڑنے کے بعد پیپلز پارٹی کو اس سے کچھ زیادہ چاہیے لیکن اگر سب کچھ کھوکر بھی واپس وہی ملتا ہے تو پھر یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مسلم لیگ ن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں لیکن پانے کے آپشن زیادہ ہیں۔ اس لئے پیپلزپارٹی نے وکٹ کو سنبھال کر کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ پیپلز پارٹی کی سی ای سی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جماعت ضمنی اور سینیٹ الیکشن کا حصہ بنے گی۔ ن لیگ اور مولانا کو ادراک ہے کہ پیپلز پارٹی کے بغیر استعفے دینا بڑی سیاسی غلطی ہوگی‘ لہٰذا وقتی طور پر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ مرحلہ وار پیپلزپارٹی کی دونوں تجاویز مان لی گئی ہیں‘ لیکن پیپلز پارٹی کو بھی اس امر پر رضامند کر لیا گیا ہے کہ پارلیمان میں واپسی کے ساتھ سڑکوں پر موجود دباؤ برقرار رکھا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو حکومت پر دباؤ بھی دُگنا ہو جائے گا۔ ایسے میں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حکومت کی غیر فعال ترکیبیں جاری رہیں تو اپوزیشن کی یہ سیاسی حکمت عملی دو جمع دو پانچ بھی بن سکتی ہے۔