تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     07-01-2021

زرعی پیداوار اور کولڈ سٹوریج

بھارتی پنجاب میں نریندر مودی کی 'کارپوریٹ سرکار‘ کے کسانوں پر ٹھونسے جانے والے تین نکاتی ایجنڈے کے سبب پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کے کسان گزشتہ دو ماہ سے دہلی کی جانب جانے والی تمام شاہراہوں پر اس سخت جاڑے کے موسم کی بے پناہ سختیاں برداشت کرتے ہوئے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ بھارتی کسان بار بار امیت شاہ جیسے سفاک وزیر داخلہ کے احکامات پر پولیس کی شیلنگ، آنسو گیس اور سب سے بڑھ کر اس سخت سردی میں واٹر کینن کی تیز اور سرد بوچھاڑوں کے بے دریغ استعمال کا شکار ہو چکے ہیں مگر وہ اپنے مطالبات کے تسلیم کیے جانے تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس وقت میڈیا پر دہلی سے ملحقہ علاقوں میں ہزاروں بھارتی کسان‘ بچوں‘ بزرگوں اور خواتین کی بھاری تعداد کے ہمراہ اپنا گھر بار چھوڑ کر سخت سردی اور بارش میں کھلے آسمان تلے ٹھٹھرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بھارت کی مودی سرکار اپنے ملک کے کسانوں کیلئے کیا قانون نافذ کرنا چاہتی ہے‘ اس پر بحث میرے اس کالم کا حصہ نہیں لیکن بھارت کے کسانوں کی اس ہڑتال کے دوران مشہور کرکٹر سردار نوجوت سنگھ سدھو کی ایک دستاویزی رپورٹ نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا ہے۔ سدھو جو کانگریس کے رہنما بھی ہیں‘ بھارت بھر کے کسانوں اور عوام کے حق میں اناج اور سبزیوں کی بے لگام مہنگائی روکنے کیلئے ایک مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے مطا بق ''حکومت ہر پانچ دیہات میں اگر سرکار کا ملکیتی ایک کولڈ سٹوریج تعمیر کر دے‘ جس میں ان دیہاتوں کے کسانوں سے خریدی گئی سبزیاں اور اجناس وغیرہ سٹور کی جائیں اور جیسے ہی محسوس ہو کہ مارکیٹ میں ان اشیا کی قلت ہونے والی ہے تو ان اجناس کو بازاروں اور منڈیوں میں لا کر پھیلا دیا جائے‘‘۔ کسانوں کی یہ فصل کیسے خریدی جائے‘ اس کا کیا طریقہ کار ہو گا، اس حوالے سے بحث کی جا سکتی ہے لیکن یہ ایک ایسا نکتہ ہے‘ میرے خیال میں‘ جس پر اگر پاکستان میں عمل کیا جانے لگے تو حکومت اپنے عوام کو مہنگائی کے طوفان اور اشیا کی کمیابی یا یکایک چیزوں کے مارکیٹ سے غائب ہو جانے سے نجات دلا سکتی ہے۔ اس پر اربابِ اختیار کو ضرور غور کرنا چاہیے۔
کسان سبزیوں کی فصل‘ جس کا تعلق ہر امیر اور غریب کے باورچی خانے سے جڑا ہے‘ تیار ہونے کے بعد جب اس فصل کو کھیت سے اتارنے کے بعد بیچنے کیلئے باہر نکلتا ہے تو عمومی طور پر ہوتا یہ ہے کسانوں سے آڑھتی اور کولڈ سٹوریج والے ٹماٹر‘ آلو‘ مٹر‘ گوبھی اور دوسری کچھ سبزیاں دس سے پندرہ روپے فی کلو کے حساب سے خرید لیتے ہیں اور جیسے ہی دیکھتے ہیں کہ ان اشیا کی قلت ہو گئی ہے تو بازار میں لا کر اسی فصل کو‘ جسے انہوں نے دس‘ پندرہ روپے کلو میں خریدا ہوتا ہے‘ پچاس سے سو روپے اور کچھ عرصے بعد دو سو سے تین سو روپے تک بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا ایک مظاہرہ حال ہی میں ٹماٹر کی قیمتوں کے سلسلے میں دیکھنے کو ملا۔اگرچہ دس دن قبل کچھ جگہوں پر کم معیار کے ٹماٹر کی قیمتیں 70، 80 روپے تک دیکھنے کو ملیں لیکن دوبارہ یہ ایک سو روپے فی کلو تک جا پہنچے۔ اب کسان کی دن رات کی محنت اور اس فصل کی تیاری پر کئے جانے والے اخراجات کا سب سے زیا دہ فائدہ کس کو ہوا؟ یقینا ان منافع خوروں کو، کیونکہ کسان سے تو ٹماٹر دس سے پندرہ روپے فی کلو کے حساب سے خریدا گیا تھا۔ اسی طرح کا طریقہ کار آلو‘ لہسن، ادرک اور دوسری سبزیوں کے حوالے سے اختیار کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ادرک کی قیمت اگر ہزار روپے فی کلو تک جا پہنچی تھی تو اس کا یہی سبب تھا۔اب اگر ہمارے ملک کی تمام صوبائی حکومتیں بالخصوص پنجاب میں سردار عثمان بزدار کی حکومت اشیائے خور و نوش کی بے لگام مہنگائی ختم کرنا چاہتی ہے تو اس کیلئے اگر ہر پانچ‘ دس دیہات کے لیے ایک کولڈ سٹوریج بنا دیا جائے اور کسانوں سے ان کی پیداوار سٹور کرنے کا معمولی معاوضہ وصول کرنے کے بعد ان اشیاء کی قلت ہونے سے پہلے انہیں مارکیٹ میں پھیلا دیا جائے تو ٹماٹر، آلو اور ادرک سمیت تمام سبزیاں پچیس‘ تیس روپے فی کلو بہ آسانی شہریوں کو فراہم کی جا سکتی ہیں۔ اس حوالے سے پنجاب میں گندم خرید کر فلور ملوں کو دیے جانے کی مثال سب کے سامنے ہے۔ پاسکو کے بڑے بڑے گودام صوبے بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں‘ یہ صرف پلاننگ اور وژن کی بات ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ آٹا جب بھی نایاب یا مہنگا ہوا ہے‘ اس میں حکومتِ وقت‘ چاہے جو بھی ہو، جس پارٹی کی بھی ہو‘ کی نا لائقی یا بددیانتی کارفرما ہوتی ہے۔ شکوہ کس سے کریں؟ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بعد‘ 73برس تک ہم پر حکومت کرنے والوں سے یا اپنے آپ سے‘ جو اُن حکمرانوں کو منتخب کرتے ہیں جنہوں نے کھربوں روپے کی سڑکیں بنا دیں اور پُل، موٹر ویز، میٹرو اور اورنج ٹرینوں کے منصوبوں پر اس ملک و قوم کے کئی کھرب ڈالر بہا دیے؟ یا اُن سے گلہ کریں جنہوں نے محض اپنے کک بیکس کے لیے مہنگے معاہدے کیے اور ملک و قوم کو غربت کی دلدل میں دھکیل کر اپنے لیے ارب ہا ڈالرز کے پہاڑ بنا لئے؟ یا ان سے جنہوں نے اس ملک کے مقدر میں آئے قرضے اور امداد کی نہریں اپنے اپنے ٹھکانوں‘ محلوں‘ بنگلوں‘ فارم ہائوسز اور بیرونی ممالک کے اکائونٹس میں بہا دیں؟ تحریک انصاف کی حکومت کو بھی ڈھائی برس ہو چلے ہیں مگر مہنگائی کا طوفان ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ یہ مہنگائی اس طرح رک بھی نہیں سکتی کیونکہ کوئی بھی اس مہنگائی کو روکنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتا۔ بات صرف موجودہ حکومت کی نہیں ہے‘ 72 برسو ں سے ہم پر حکومت کرنے والے طالع آزما اور سیاست دان‘ سب اس مہنگائی کو غریب اور متوسط طبقات کی گردنوں پر مسلط کرنے کے مجرم ہیں۔ اپنا گند کسی کو بھی نظر نہیں آتا، ہمیشہ دوسرے کے لباس پر پڑی ہلکی سی چھینٹ کو ہی طعن و تشنیع کا موضوع بنانا ہمارے سیاست کے کھلاڑیوں کا وتیرہ بن چکا ہے، اپنی آنکھ کا شہتیر کسی کو محسوس نہیں ہوتا بس دوسرے کی آنکھ کا تنکا پکڑنا مروجہ روایت ہے۔ مہنگائی کسی بھی جماعت نے کم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی کی‘ ہر دور میں ہی آلو‘ پیاز‘ ٹماٹر اور سبزیاں غریب اور درمیانے طبقے کی قوتِ خرید سے دور ہوتی رہی ہیں۔ پرانے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے‘ اگر کسی کو شک ہے یا کوئی مصر ہے کہ نواز شریف یا زرداری دور میں اشیا کی قیمتیں کبھی اس قدر بلند سطح پر نہیں پہنچی تھیں تو اس سے صرف اتنی گزارش ہے کہ کسی بھی بڑی سرکاری لائبریری یا اخبارات کی آرکائیو برانچ میں جا کر پانچ، دس پندرہ حتیٰ کہ بیس‘ تیس سال پرانے اخبارات کی فائلیں نکال کر پڑھ لیں۔ علم ہو جائے گا کہ ہر دور میں مہنگائی ہی عوام کا مقدر رہی ہے اور ان پر حکومت کرنے والے سیاسی آقائوں کا پسندیدہ مشغلہ۔ کوئی دور ایسا نہیں گزرا جب اُس وقت کی آمدن کے اعتبار سے باورچی خانے کی اشیاء عوام کی قوتِ خرید سے باہر نہ ہوئی ہوں۔پہلے ٹماٹر‘ پھر پیاز اورآلو‘ بعدازاں ادرک اور لہسن سمیت تمام بنیادی سبزیاں سال میں کم از کم تین مرتبہ عام لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہو جاتی ہیں۔ ان ''عام لوگوں‘‘ میں پچاس ہزار روپے ماہانہ تک کمانے والا بھی شامل ہے‘ جس کے تین‘ چار بچے اور رہنے کیلئے کرائے کا گھر ہے۔ غریب کی سب سے بڑی عیاشی دو وقت کی روٹی اور اس کے ساتھ سالن کا حصول ہے۔ آلو‘ پیاز اور ٹماٹر‘ ادرک کے بعد موج اڑانے کیلئے ہفتے میں ایک بار گوشت‘ چاہے برائلر مرغی یا بڑا گوشت ہی ہو‘ اگر کسی کے نصیب میں آ جائے تو اس کی جیب کیلئے یہ بہت ہی دھن جگرے کا کام ہے۔
آج کے دور میں مہنگائی ایک سائنس ہے اور اس کا حل پلاننگ اور دور اندیشی سے نکلے گا۔ حکومت، وزیراعظم بالخصوص نیشنل فوڈ سکیورٹی کی وزارت کو چاہیے کہ کسانوں سے ان کی اجناس وغیرہ خریدنے کے لیے پاسکو کی طرز پر ہر پانچ دس دیہات کیلئے بنائے جانے والے کولڈ سٹوریج کے اس آئیڈیا پر غور کرے۔ اس کیلئے سب سے پہلی اور بڑی شرط یہ ہو کہ کسان کی فصل کا وزن پورا کرنا ہو گا اور ادائیگیاں بھی بروقت کرنا ہوں گی‘ اس سے کسان بھی خوشحال ہو گا اور عوام کو بھی سہولت میسر آئے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved