سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے دورِ اقتدار میں سڑکیں اور پل زیادہ بناتی ہے اور ٹرانسپورٹ کلچر پر زور رکھتی ہے۔ نوازشریف پہلی بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے اسلام آباد‘ لاہور موٹروے منصوبے کا آغاز کیا، اس کے علاوہ ییلو کیب سکیم شروع کی جس کے تحت ملک بھر میں ہزاروں چھوٹی‘ بڑی نئی ایئرکنڈیشنڈ گاڑیاں آسان اقساط پر دی گئیں۔ اس سے قبل نہ تو ملک میں کوئی عالمی معیار کی سڑک تھی اور نہ ہی جدید ٹرانسپورٹ کا تصور تھا۔ ایئرکنڈیشنڈ پبلک ٹرانسپورٹ تو دور کی بات‘ اس وقت پورے دروازے کھڑکیوں والی بس بھی غنیمت سمجھی جاتی تھی۔ راولپنڈی سے لاہور تک کا سفر سات سے آٹھ گھنٹوں میں طے ہوتا تھا، راستے میں گاڑی کا خراب ہونا اور دو سے تین بار ٹائر پنکچر ہونا معمولی بات تھی، لیکن جب موٹروے بنی اور نئی ایئرکنڈیشنڈ بسیں آ گئی اور ایک غیر ملکی کمپنی نے راولپنڈی سے لاہور کیلئے اپنی جدید سروس کا آغاز کر دیا تو پھر وفاقی دارالحکومت سے صوبائی دارالحکومت تک کاسفرچار گھنٹے کا ہو گیا اور ہمارے جیسے عام مسافروں کو بھی آرام دہ بسوں میں سفر کرنے کا موقع ملا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں ایئر کنڈیشنڈ گاڑی ہزاروں میں ایک ہوتی تھی، لیکن 1993ء میں ایک سکیم کے تحت ملک میں جدید ٹرانسپورٹ کلچر کی بنیاد رکھی گئی۔ دوسری جانب جب لوگوں کو موٹروے پر محفوظ اور آرام دہ سفر کی سہولت ملی تو اس کے بعد عوام نے کھٹارہ بسوں میں سفر کرنا ہی ترک کر دیا اور مجبوراً ٹرانسپورٹرز کو پرانی ناکارہ گاڑیاں تبدیل کرکے نئی بسیں چلانا پڑیں۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں جدید ٹرانسپورٹ چلنے لگی۔ اُن دنوں راولپنڈی سے جڑواں شہر اسلام آباد میں داخل ہونے کے لئے فیض آباد چوک میں ٹریفک کئی کئی گھنٹے تک جام رہتی تھی، اس چوک میں انٹرچینج کی تعمیر سے جڑواں شہروں کے درمیان سفر کرنے والے شہریوں کی گھنٹوں ٹریفک جام کے عذاب سے جان چھوٹ گئی۔
نواز لیگ کی دوبارہ حکومت آئی تو ملک بھر میں سڑکوں کا مزید جال بچھایاگیا، لاہور سمیت مختلف بڑے شہروں میں ''فش بیلی‘‘، فلائی اوورز اور انڈر پاسز کی تعمیر، اور چوکوں‘ چوراہوں کی کشادگی کر کے اہم سڑکوں کو سگنل فری بنایا گیا جس سے اندرون شہر بھی ٹریفک کے بہائو میں بڑی حد تک بہتری آئی۔ لاہور‘ راولپنڈی اور ملتان میں میٹرو بس سروس کے آغاز سے شہریوں کو سستی لوکل ٹرانسپورٹ میسر آئی۔ اس وقت اپوزیشن نے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو یہ کہہ کرمسترد کر دیا کہ سڑکیں اور پل ترقی نہیں جبکہ میٹرو بس سروس کو بھی جنگلا بس کا نام دے کر اس منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔2018ء کے انتخابات سے قبل پاکستان تحریک انصاف کو‘ جو اس وقت خیبر پختونخوا کی حکمران جماعت تھی‘ عوام کی جانب سے ترقیاتی کاموں کی ڈیمانڈ کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد پشاور میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا کام شروع کیا گیا، علاوہ ازیں پشاور میٹرو بس (بی آر ٹی) منصوبے کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ اس سب میں خیر کا پہلو یہ تھا کہ عوامی ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اپنی ترجیحات کو تبدیل کیا اور ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جس سے نہ صرف لوگوں کے مسائل حل ہونے لگے بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی میسر آئے۔ 2018ء کے انتخابات میں عوام نے تحریک انصاف کو وفاقی حکومت کا مینڈیٹ دیا‘ جس نے ابتدا سے ہی اپنی پالیسی میں ترقیاتی بجٹ کو نظر انداز رکھا اور وفاقی و صوبائی‘ کسی بھی سطح پر کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکا، بلکہ پہلے سے جاری منصوبوں کی رفتار بھی قدرے سست ہو گئی۔
دو روز قبل راولپنڈی سے لاہور تک کا سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ چونکہ یہ سفر ایک گروپ کے ساتھ تھا اور لاہور آنے کے لئے سپیشل بس بک کی گئی تھی‘ اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ موٹروے کے بجائے جی ٹی روڈ کے راستے لاہور جایا جائے۔ اس فیصلے کی ایک وجہ موٹروے پر شدید دھند تھی جس کے باعث اکثر مقامات پر کئی کئی گھنٹے موٹروے کی بندش ہے۔ اس کے علاوہ دوستوں کا خیال تھاکہ جی ٹی روڈ پر جہاں چاہیں گے‘ وہیں بس روک لیا کریں گے، لیکن جب راولپنڈی سے بس روانہ ہوئی تو کچھ دیر بعد بارش شروع ہو گئی جس میں شدت آتی گئی۔ موسلادھار بارش کے باعث سڑک پر پھسلن کا خطرہ بڑھ گیا، گاڑیوں کی رفتار کم ہونے لگی جس سے اس مرکزی شاہراہ پر بسوں، ٹرکوں اور دیگر ٹرانسپورٹ کی قطاریں لگ گئیں۔ ہم تقریباً صبح ساڑھے دس بجے راولپنڈی سے روانہ ہوئے تھے اور اندازہ تھا کہ تین‘ ساڑھے تین بجے تک لاہور پہنچ جائیں گے لیکن اتنے وقت میں تو ہم بمشکل کھاریاں تک ہی پہنچ سکے، گزرتے وقت کے ساتھ سواریوں کی تھکن بڑھنے لگی اور ہرکوئی موٹروے کے سفر کو یاد کرنے لگا۔ بارش اور رش کے باعث ہم نے ساڑھے چار گھنٹے کا سفر نو گھنٹوں میں طے کیا، اس سفر نے تین دہائیوں پرانے سفر کی یاد تازہ کر دی۔
اگر موٹروے کے راستے آتے توبارش کے باوجود زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے میں اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جاتے اور باقی چار گھنٹوں میں کئی کام نمٹا سکتے تھے، یعنی وہی بس اور اتنا ہی سفر‘ ہم نصف وقت میں طے کر لیتے۔ فرق صرف سڑک کا ہے یعنی جی ٹی روڈ کا تعمیراتی معیار موٹروے کے مقابلے میں کہیں کم ہے اور کئی مقامات پر سڑک آج بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے یا کہیں تعمیراتی کام جاری ہے۔ موٹروے راولپنڈی سے لاہور تک سگنل فری ہے اور کہیں بھی بریک نہیں لگانا پڑتی جبکہ جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ سڑکوں کی کراسنگ، سٹاپ، شہری حدود میں ٹریفک جام، کہیں ریلوے پھاٹک تو کہیں ٹریفک پولیس کے ناکے پر رکنا پڑتا ہے۔ یہ فرق صرف سڑک کا ہی نہیں بلکہ موٹروے کا انفراسٹرکچر زیادہ بہتر ہے جو محفوظ، آرام دہ اور باسہولت سفر کی ضمانت ہے جبکہ جی ٹی روڈ پر سڑک کہیں بہتر ہے اور کہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔
وزیراعظم عمران خان نے برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے‘ جہاں تمام شاہرائوں کا معیار ہماری موٹروے سے بھی اچھا ہے، انہوں نے دنیا کے بیشتر ممالک کا وزٹ کر رکھا ہے اور تمام ترقی یافتہ قوموں کے جدید انفراسٹرکچر سے بخوبی واقف ہیں اپنے ملک کے پسماندہ علاقوں کے مسائل کا بھی انہیں بخوبی ادراک ہے۔ وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ بہتر انفراسٹرکچر ترقی کی بنیاد بھی ہے اور ضمانت بھی۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ترقیاتی کام ہوں گے تو عام آدمی کو روزگار بھی ملے گا اور اس سے معاشی حالت بھی بہتر ہو گی۔ اس لیے انہیں ترقیاتی منصوبوں اور شاہراہوں کی تعمیر و توسیع اور مرمت وغیرہ کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اس وقت راولپنڈی رنگ روڈ کی تعمیر سمیت جی ٹی روڈ پر واقع تمام شہروں کے بائی پاس فوری طور پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے‘ کئی مقامات پر شاہراہوں کو کشادہ کیا جانا چاہئے، جی ٹی روڈ پر چوراہوں کو سگنل فری کیا جانا چاہئے اور سڑکوں سے تجاوزات کو ختم کرنا چاہئے، غیر ضروری ناکوں اور پھاٹکوں کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ شہری حدود میں چھوٹی گاڑیوں کیلئے سروس روڈز تعمیر کی جانی چاہئیں اور خستہ حال سڑکوں کی تعمیر و مرمت ترجیحی بنیادوں پر کی جانی چاہئے، اس سے لوگوں کا قیمتی وقت بچے گا اور ایندھن کی بچت بھی ہوگی ۔
جدید انفراسٹرکچر کی مثال پلاننگ سے تعمیر ہونے والی جدید ہائوسنگ سوسائٹیاں بھی ہیں جن میں رہائش پذیر افراد کشادہ سڑکوں، پختہ گلیوں، بہتر سیوریج سسٹم، گرین بیلٹ اور دیگر سہولتوں کے باعث پُرسکون زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں جبکہ پرانی گنجان آبادیوں کے رہائشی تجاوزات اور بے ہنگم ٹریفک کے عذاب میں ہی پھنسے رہتے ہیں۔ غرض جہاں انفراسٹرکچر بہتر ہے وہاں شہریوں کی زندگی پُرسکون ہے اور ترقی کی جانب گامزن اور جن علاقوں میں پرانی سڑکیں، تنگ گلیاں اور تجاوزات کی بھرمار ہے وہاں کے مکین ہر وقت مسائل سے ہی دوچار رہتے ہیں، لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ جس طرح تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاروں کو سہولتیں دی جا رہی ہیں اسی طرح عوام کی فلاح وبہبود اورسہولت کیلئے شاہراہوں کے منصوبوں کی حکمت عملی کومزید بہتر بنایاجائے تاکہ ملک کاانفراسٹرکچر بہتر ہوسکے، یہی ترقی اورحقیقی تبدیلی کی بنیاد ہوگی۔