تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-01-2021

ماہرین کا سبز باغ

گزرے ہوئے زمانوں کے بارے میں تو ہم کچھ زیادہ نہیں جانتے مگر ہاں! آج کل کے ماہرین عادی مجرموں کی سی خصوصیات کے حامل ہیں یعنی معاشرے کا سُکون اُن سے برداشت نہیں ہوتا۔ مختلف شعبوں کے ماہرین اپنے علم اور عمل کی آڑ لے کر ایسا بہت کچھ کہتے رہتے ہیں جو ذہنوں میں الجھن کا گراف بلند کرنے کا باعث بنتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ماہرین نے خود کو گروپس میں تقسیم کرلیا ہے اور اِن گروپس نے آپس میں مُک مُکا کرلیا ہے۔ ایک گروپ کسی چیز کو درست قرار دیتا ہے تو کچھ دن بعد دوسرا گروپ اُسے غلط ٹھہراتا ہے۔ کچھ دن بعد پہلا گروپ بھی اُسی چیز کو غلط ٹھہراتا ہے تو پھر کچھ دن بعد دوسرا گروپ اُسے درست قرار دینے پر تُل جاتا ہے! 
ماہرین کا پسندیدہ ترین طریقِ واردات ہے کھانے پینے کی اشیا کے بارے میں رائے زنی کرنا۔ کئی پھلوں کے رَس میں وہ جادو کی سی تاثیر بیان کرتے ہیں۔ اندازِ بیان سے لوگ اس مغالطے میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ماہرین کے بیان کردہ پھل کا رَس پینے سے اُن کی بیماری ایسے رفع ہوجائے گی جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔ ایسا کچھ ہوتا نہیں، ہاں جیب ضرور ہلکی ہوتی رہتی ہے۔ بجلی کی سی رفتار سے اثر ہو بھی تو کیسے؟ کھانے پینے کی اشیا کوئی جادوئی آئٹم تو ہیں نہیں کہ دو چار گھونٹ پیتے ہی سب کچھ درست ہو جائے۔ ماہرین جب کھانے پینے کی کسی چیز کے فوائد گنوانے پر آتے ہیں تو ''چھوڑنے‘‘ کی کوئی حد مقرر نہیں کرتے! ماہرین کے سرکس کا مقبول ترین اور عجیب الخلقت آئٹم ہے چائے! اور چائے میں بھی اِن کی ہاٹ فیورٹ ہے سبز چائے۔ سبز چائے کو ماہرین نے ایک ایسے آئٹم کے طور پر پیش کیا ہے جو اپنے اندر دنیا بھر کی بیماریوں کو رفع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اِن کا بس چلے تو ہر دوا میں سبز چائے کا عرق لازمی شامل کروایا کریں۔ شوگر، بلڈ پریشر، اختلاجِ قلب، اختلاجِ معدہ، دماغی کمزوری، جوڑوں کا درد، پٹھوں کا کھچاؤ ... کون سا عارضہ ہے جو سبز چائے کی تاثیر کے دائرے سے باہر ہے؟ اب ماہرین نے کہا ہے کہ (کوئی سی بھی) چائے کے بے شمار فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ 85 سال سے زائد عمر کے افراد میں چائے پینے سے دماغی صحت کا معیار بلند کرنے میں مدد ملتی ہے۔ غور کیا آپ نے؟ 20، 30 یا 40، 50 نہیں بلکہ 85 سال! اب اگر کوئی ماہرین کی رائے پر یقین رکھنے اور اُسے درست ثابت کرنے کا واقعی شوقین ہے تو 85 سال تک جیے اور چائے پی کر بتائے کہ بات بنی یا نہیں!
امریکا کی یونیورسٹی آف کاسل سے تعلق رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ روزانہ پانچ کپ چائے پینے سے دماغ کی فعالیت بڑھتی ہے، بالخصوص معمر افراد میں۔ ماہرین بضد ہیں کہ دن میں پانچ بار چائے پینے والوں کا دماغ تیزی سے اور بہتر کام کرنے لگتا ہے۔ ایسے لوگوں کے reflexes بہتر ہو جاتے ہیں یعنی وہ کسی بھی صورتحال میں تیزی سے ردِ عمل دینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ بہت خوب! ماہرین ذرا یہ تو بتائیں کہ 85 سال کے انسان میں ایسی کون سی امنگ باقی رہ پاتی ہے جس کی خاطر دماغی طاقت درکار ہو؟ جب قویٰ مضمحل اور حواس مختل ہوچکے ہوں تب انسان کو دماغ کی تیزی کا کیا اچار ڈالنا ہے؟ کوئی اِن سے ذرا یہ پوچھے کہ تمہارے تجزیے یا مشورے کو درست ثابت کرنے کیلئے کوئی اگر 85 سال تک جیے تو اِس دوران جو کچھ اُسے جھیلنا پڑا‘ اُس کے اثرات زائل کرنے کیلئے کون سی دوا استعمال کی جائے! ہر گھر میں چند ماہرین ہوتے ہیں جو بزرگ کہلاتے ہیں۔ جاں نثار اخترؔ کے والد یعنی جاوید اختر کے دادا مضطرؔ خیر آبادی نے خوب کہا ہے ؎ 
مصیبت اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا!
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں اوسط طبعی عمر کا پورا کرنا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرا ہے۔ معاملات کی نوعیت ایسی ہے اور مختلف حوالوں سے ذہنی الجھن اس قدر بڑھ چکی ہے کہ قدم قدم پر خیال آتا ہے ؎ 
کہتے ہیں زندگی ہے یہی کوئی چار دن
لیکن یہ چار دن تو قیامت کے ہو گئے
لوگ کہتے ہیں زندگی دیکھتے ہی دیکھتے تمام ہو جاتی ہے، جیسے سورج طلوع اور غروب ہو۔ زندگی کے بہت تیزی سے گزرنے کا معاملہ صرف اُن کیلئے ہے جن کا احساس مرچکا ہو یا کمزور پڑچکا ہو۔ حسّاس طبیعت رکھنے والوں کا تو یہ حال ہے کہ فی زمانہ پچاس سال کا آدمی 80 سال کا دکھائی دینے لگا ہے۔ ہم نے جوانوں میں کئی بوڑھے دیکھے ہیں۔ اور پھر یوں بھی ہے کہ اگر کسی کے دماغ نے جوانی کی حالت میں بھی کام نہ کیا ہو اور ڈھلتی عمر میں بھی کام کا ثابت نہ ہوا ہو تو 85 سال کی عمر میں کیونکر فعال ہوگا! ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جو ہم پر ہر طرف سے دباؤ بڑھا رہا ہے۔ اوسط یعنی طبعی عمر گھٹتی جارہی ہے‘ طرح طرح کے عوارض لاحق ہوکر انسان کو اندرونی شکست و ریخت سے دوچار کرتے رہتے ہیں۔ دل و دماغ پر دباؤ تیزی سے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ طب کی دنیا کے یعنی اصل ماہرین یہ سوچ سوچ کر حیران و پریشان ہیں کہ دماغی توازن کو بگڑنے سے روکنے کے کیا کریں، کیا بنائیں، دنیا کو کیا دیں۔ ایسے میں کچھ نام نہاد ماہرین یہ کہہ کر زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں کہ محض سبز چائے پینے سے جہان بھر کی بیماریاں اُڑن چُھو ہو جاتی ہیں۔ اگر ایسا ہوا کرتا تو پھر رونا کس بات کا تھا۔سیمابؔ اکبر آبادی نے کہا تھا ؎ 
دعا دل سے جو نکلے کارگر ہو
یہاں دل ہی نہیں، دل سے دعا کیا!
کام اُس سے چیز سے لیا جاسکتا ہے جو سلامت رہ گئی ہو۔ صرف اُس چیز کی قوت بڑھائی جاسکتی ہے جو موجود ہو۔ زمانے کی روش ایسی ہے کہ بھری جوانی میں بے دماغی و بے ذہنی عام ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ قویٰ اور حواس‘ دونوں کو تیزی سے غیر مؤثر کرنے کے درپے ہے۔ وقت ہمیں بہت تیزی سے اُس مقام تک لے جارہا ہے جہاں اول تو دماغ باقی ہی نہ رہے گا اور اگر کسی طور برقرار رہ بھی گیا تو کسی کام کا نہی رہے گا۔ نئی نسل نے بیشتر معاملات میں دماغ کو بروئے کار لانا، اُس کی مدد سے اپنے معاملات کو درست کرنا ترک کردیا ہے۔ ایسے میں دماغ ایک متروک آئٹم ہوکر رہ گیا ہے۔ کسی سے کہیے کہ بھائی! ذرا دماغ پر زور دو تو وہ حیرت سے دیکھتا ہے کہ اکیسویں صدی میں یہ کس صدی کا آدمی ہے جو دماغ کو بروئے کار لانے کا مشورہ دے رہا ہے! ہم یہ نہیں کہتے کہ ماہرین ہر معاملے میں غلط ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ استثنا تو ہر شعبے میں، ہر معاملے میں ہوتا ہی ہے! ہاں! ماہرین کی آرا کے حوالے سے ہم اتنا ضرور کہیں گے کہ جو اِس طلسمات میں گیا پھر سلامت واپس نہ آیا! ہم نے بہت سوں کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ اپنے دماغ کی فعالیت بڑھانے کیلئے ماہرین کی آرا پر دھیان دینے کے نتیجے میں رہی سہی دماغی قوت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے! اب تو ڈھنگ سے جینا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرا ہے۔ لوگ ڈھلتی عمر میں دنیا چھوڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور تب تک بھی دماغ تو ہاتھ سے جا ہی چکا ہوتا ہے۔ ایسے میں کوئی اگر بڑھاپے کی منزل تک پہنچ بھی پائے تو کون سا دماغ بچا ہوگا جس کی کارکردگی کو بہتر بنانا ممکن ہوگا! ماہرین چائے اور بالخصوص سبز چائے کو صریح جادوئی آئٹم قرار دے کر (مختلف عوارض کے ستائے ہوئے) بھولے بھالے لوگوں کو سبز باغ دکھانا چھوڑ دیں۔ حالات کی نوعیت دیکھتے ہوئے ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ اُن کا ایسا کرنا بھی انسانیت کی بہت بڑی خدمت شمار کیا جائے گا۔ ویسے ماہرین کی روش دیکھتے ہوئے کہنا ہی پڑے گا ؎ 
تو اور خیالِ خاطرِ اہلِ وفا کرے
امید تو نہیں ہے مگر ہاں خدا کرے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved