تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     08-01-2021

موت، سائنس اور ایمان کی نعمت

اللہ تعالیٰ نے ہر صاحبِ روح کے لیے روح کی واپسی کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ محترم رئوف طاہر صاحب کی روح کے واپس جانے کا وقت آیا تو وہ لبیک کہتے ہوئے چلے گئے۔ روزنامہ دنیا کے صفحات پر کالم نگاری کے حوالے سے میں ان کا کولیگ تھا‘ کتنی ہی محفلوں اور تقریبات میں ان سے ملاقات ہوئی۔ اب وہ اپنی زندگی بھر کی یادوں کو لے کر اپنے اللہ کے پاس چلے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی زندگی بھر کی حسنات کو قبول فرما کر اور ان کی خطائوں سے درگزر فرما کر انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے‘ آمین!
میرے بھائی، مدرسہ میں ہم جماعت مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری کی اہلیہ محترمہ 50 سال کی عمر میں زبان پر لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے اپنے اللہ سے جا ملیں۔ مولا کریم انہیں فردوس بریں کی رہائش عطا فرمائے۔ شیخوپورہ کے نواحی گائوں جھبراں میں افتخار کے والد کی تعزیت کرتے ہوئے پوچھا کہ تمہارے والد گرامی قریب 80 سال کی عمر میں فوت ہوئے‘ نمازی، حاجی اور معاملات میں سچی زندگی کے حامل تھے۔ گزشتہ دس سالوں سے فالج کا شکار ہو کر صاحبِ فراش تھے‘ ان کا آخری وقت کیسا تھا؟ افتخار کہنے لگا: کلمہ پڑھتے ہوئے فوت ہوئے۔ روح نکلنے کے بعد ان کا ماتھا پسینے سے بھر گیا۔ میں نے کہا حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ''مومن ماتھے پر پسینے کے ساتھ فوت ہوتا ہے‘‘ (ترمذی: 982 نسائی: 1829، سندہٗ صحیح) افتخار خوشی سے اچھل اٹھا۔ کہنے لگا: حمزہ صاحب! مجھے اس مسئلے کا آج پتا چلا ہے۔ میرا دل مسرت سے لبریز ہو گیا ہے۔
قارئین کرام! تعزیت کا مطلب و معنی ہی یہ ہے کہ آپ لواحقین کے ساتھ آخرت کی گفتگو کچھ ایسے مدلل انداز سے کریں کہ لواحقین کا غم ہلکا ہو جائے۔ دل کافی حد تک قرار پکڑ لے، صبر اور سکون کی نعمت مل جائے۔ یاد رہے! یہ نعمت ایمان کے بغیر نا ممکن ہے۔ اللہ کے حضور دعا کے بغیر لا یعنی ہے۔ حضورﷺ کی بتائی ہوئی مسنون دعائوں کے بغیر مشکل ہے۔ بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں ایف سی کے نوجوان، مچھ میں گیارہ مزدور دہشت گردی کا شکار ہو کر اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔ اسلام آباد میں ایک نوجوان کو انتہائی بیدردی کے ساتھ 17 گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ معروف صحافی نسیم الحق زاہدی نے نئی کتاب ''کشمیر پاکستان کی شہ رگ‘‘ مجھے دی۔ مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور جوانوں کی شہادتوں کے قصے پڑھ کر دل خون کے آنسو رویا۔ اللہ تعالیٰ کا پاکستان پر خاص انعام ہے کہ کورونا کی دوسری وبا کی لہر بھی مدھم پڑتی جا رہی ہے؛ تاہم ڈاکٹرز اور دیگر جو لوگ ہم سے بچھڑ گئے، کنٹرول لائن پر پاک فوج کے جوان اور سول آبادی پر حملوں میں جو کشمیری شہید ہوئے‘ سب اہل پاکستان لواحقین کیلئے اللہ کے حضور صبر کے اجر اور فوت شدگان کے لیے جنت الفردوس کی دعا کریں۔
ڈاکٹر بی جے ملر جب 19 سال کے جوان تھے تو 1100 وولٹ بجلی کی تار ان کی گھڑی سے ٹچ ہوگئی، وہ بلندی سے نیچے گرے۔ سر پھٹ گیا۔ کافی خون بہہ گیا۔ ہسپتال پہنچے تو موت کا دروازہ دیکھ کر واپسی ہوئی مگر بایاں بازو کہنی تک کاٹنا پڑ گیا۔ دونوں ٹانگیں گھٹنے سے نیچے تک ناکارہ ہو گئیں۔ صحت یاب ہو کر نوجوان بی جے ملر نے پڑھائی پر توجہ دی اور پڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ ڈاکٹر بن گیا۔ وہ سان فرانسسکو میں ''کینسر سنٹر‘‘ کا ڈائریکٹر بن گیا۔ اب ڈاکٹر ملر 49 سال کے ہو چکے ہیں۔ کینسر کے ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ فزیشن بھی ہیں اور Palliative care ڈاکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے ایک نیا پروجیکٹ شروع کیا ہے جس کا نام ہے ''موت اور زندگی سنٹر‘‘ ۔
ڈاکٹر کہتا ہے: میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جس نے مجھے زندگی دی وگرنہ میرے بچنے کا کوئی چانس نہ تھا۔ یہ روحانیت اور میڈیسن کے درمیان رابطہ کاری کر کے کینسر کا علاج کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مائنڈ یعنی ذہن اور جسم کے درمیان رہ کر علاج کرنے کے نتائج اچھے نکلتے ہیں۔ قریب المرگ مریض کے ساتھ وہ آخری وقت تک انتہائی شفقت بھرے لہجے میں روحانی اور جسمانی علاج کا تجربہ کرتے رہتے ہیں۔ انہیں ہزاروں مریضوں کے آخری وقت کا تجربہ حاصل ہوا ہے۔ اپنے تجربات کی روشنی میں وہ کہتے ہیں کہ قریب المرگ مریض ایسے مقامات اور ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جنہیں ہم انپی آنکھوں حتیٰ کہ جدید مشینوں کے ذریعے بھی نہیں دیکھ سکتے۔ وہ کہتے ہیں یہ Hallucination یعنی تصور کا دھوکا یا سراب نہیں ہے۔ واہمہ اور تخیل بھی نہیں ہے اور نہ ہی یہ drug reaction ہے یعنی نشہ آور ادویات کا کوئی رد عمل نہیں ہے بلکہ :
It is a common symptom of the end of life process۔ (یہ تو زندگی کے خاتمہ کی عمومی علامت ہے)
ڈاکٹر صاحب مزید کہتے ہیں کہ میرے اور میری ٹیم کے یہ تجربات ایسے ہیں جو vision like experiences (آنکھوں کے ساتھ دیکھنے جیسے تجربات) ہیں۔ چنانچہ: Yes, these things happen،( ہاں! یہ چیزیں واقع ہوتی ہیں)۔
قارئین کرام! یونیورسٹی آف سائوتھ کیلیفورنیا (امریکا) نے اپنی تحقیقات کا نیوز بلیٹن نشر کیا جو 30 اگست 2020ء کو منظر عام پر آیا۔ اس یونیورسٹی کا مونوگرام اس طرح بنایا گیا ہے کہ ایک مردہ جسم لیٹا ہوا ہے اور اس کے اوپر خوبصورت روشنیوں میں اسی جسم کی روح کھڑی ہے۔ بلیٹن میں کہا گیا کہ 1950ء میں موت کی تعریف یہ کی گئی تھی کہ جب دل سے خون کی گردش بند ہو جائے، دل کی دھڑکن ختم ہو جائے اور بندہ سانس لینا بند کر دے تو انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے مگر جب وینٹی لیٹر اور سی پی آر جیسی لائف سپورٹ مشینیں آ گئیں اور سانس کو جاری رکھنے کا بندوبست کر لیا گیا اور دل کی دھڑکن کو بحال رکھنے کا عمل بھی ایجاد کر لیا گیا‘ تب بھی انسان مرنے لگ گیا۔ اب توجہ دماغ کی جانب چلی گئی؛ چنانچہ دنیا کی جدید ترین مشین EEG (Electroencephalography)کو دماغ کے ساتھ فٹ کیا گیا تو پتا چلا کہ آخری وقت پر بجلی جیسی ایک روشنی دماغ پر قبضہ کر لیتی ہے اور انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے نیوز بلیٹن میں کہا گیا کہ دماغی خلیات کے درمیان Electrical impulses نہ رہی یعنی بجلی کی چمک جیسی پیغام رسانی ختم ہو گئی۔ اس کا جو تسلسل تھا وہ ختم ہو گیا۔ جو قوت اسے متحرک کر رہی تھی وہ چلی گئی، سو امید باقی نہیں رہتی‘ اسی کا نام برین ڈیتھ یعنی دماغی موت ہے۔ 
ڈاکٹر جیمز سانٹیاگو گریسولیا نے اعلان کیا کہ We neurologists never understand why brain death gets attacked. :ہم لوگ جو دماغ کے خصوصی ڈاکٹرز ہیں، نہیں سمجھ سکتے کہ دماغی موت کیونکر حملہ آور ہو جاتی ہے (کہ ہم دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں)۔ ڈاکٹر ڈیانا گرینے چانڈوز نیورولوجیکل سرجن ہیں اور دماغی امراض کے ممتاز ڈاکٹر بھی ہیں، اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں: جو آغاز سے ہی اصلی اور تاریخی لاچارگی اور بے بسی ہے وہ دماغی خلیات میں روشنی کے خاتمے کا انجام ہے اور یہ آخری چیز ہے جو رخصت ہوتی ہے۔
قارئین کرام! دوسرے الفاظ میں دنیا کے نامور ڈاکٹرز نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ انسان میں روح ہے جو رخصت ہوتی ہے۔ جو جسم سے جدا ہوتی ہے۔ جی ہاں! ثابت ہوا کہ وہ لوگ جن کا اپنے خالق پر پختہ ایمان تھا‘ آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کی اطاعت ان کا شیوہ تھا‘ کسی پر ظلم کا تفکر ہی ان کے لیے جان لیوا تھا، شک وشبہات کہ جس کا نام بدگمانی ہے‘ اس کے تحت حملہ آور ہو جانا ان کے ہاں گناہِ کبیرہ تھا‘ چغلی کے مزے لینا ان کے ہاں مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف تھا‘ کسی کے قتل کا تصور ہی ان کے ہاں جہنم میں ہمیشگی کا ٹھکانا تھا‘ رحم و کرم ان کا طرہ امتیاز تھا۔ نرم دلی ان کا نیک خصال تھا۔ ان کی روح کو لینے ایسے فرشتے آتے ہیں جو سورج جیسے روشن چہرے والے ہوتے ہیں۔ جنت سے کستوری کی خوشبو میں ریشم کے لباس کو وہ لاتے ہیں اور روح کو فوراً اس میں لپیٹ کر مہربان مولا کریم کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ باقی رہے وہ لوگ کہ جن کی زندگیاں دوسروں کی زندگیوں کو اجیرن کرنے ہی میں گزر گئیں ان کے لیے اللہ کی آخری کتاب یوں نقشہ کھینچتی ہے:ہرگز ایسا نہیں ہو گا (کہ تم یونہی چھوڑ دیے جائو) تم تو دنیا کی محبت میں ہی مگن رہے۔ اگلی زندگی کے تذکرے ترک کر بیٹھے۔ (القیامہ: 20تا 21) 
قارئین کرام! ایسے لوگوں کی جان نکلنے کا آخری منظر اسی سورت کے آخر پر یوں بیان کیا گیا ہے : ''ہرگز (ایسا نہ ہوگا کہ پوچھا ہی نہ جائے) جب جان ہنسلیوں تک پہنچ جائے گی تو (بے بسی میں) کہا جائے گا: ہے کوئی دم کرنے والا؟ اور (مرنے والا) یقین کر رہا ہو گا کہ (دنیا کے اموال، بیوی، اولاد، اقتدار) سے جدائی کا وقت آن پہنچا ہے۔ چنانچہ پنڈلی کے ساتھ پنڈلی لپٹ جائے گی۔ (موت کے اس) روز تو تیرے رب ہی کی طرف روانگی ہے۔ یہ وہی ہے نا کہ جس نے (ہماری تعلیمات کو) نہ سچ جانا اور نہ ہی نماز ادا کی۔ یہ تو (اپنے کردار سے) جھٹلاتا رہا اور منہ پھیرتا رہا۔ (ایسا متکبر تھا کہ) پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی جانب چل پڑتا۔ بربادی ہے تیرے لیے! تیرے لیے پھر تباہی اور ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ کیا انسان یہ خیال کر بیٹھا ہے کہ اسے بغیر پوچھے ہی چھوڑ دیا جائے گا۔ (اسے سمجھنا چاہیے کہ) وہ پانی کا ایک قطرہ تھا جو گرایا جاتا ہے۔ پھر وہ جما ہوا خون بنا۔ پھر اللہ نے اسے (تصویری) تخلیق دی۔ اسے درست کر دیا۔ پھر اس اللہ نے اس سے دو اقسام‘ نر اور مادہ کوبنایا۔ کیا وہ اللہ اس چیز ہر قدرت رکھنے والا نہیں کہ مُردوں کو دوبارہ زندگی بخش دے؟ (القیامہ:27 تا 40) 
یا مولا کریم! ایمان کی نعمت کے ساتھ موت عطا فرمانا کہ زبان پر لا الہ الا اللہ اور ماتھے پر پسینہ ہو جبکہ لوگ شہادت دیں کہ بندہ اچھا تھا، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved