پاکستان میں 2020ء کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی رہا ہے لیکن سال کے آخر میں اشاریے کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ سال کی آخری سہ ماہی یعنی اکتوبر‘ نومبر اور دسمبر میں مہنگائی کی شرح پچھلے مہینوں کی نسبت کم رہی۔ دسمبر میں یہ شرح 8 فیصد تھی۔ خصوصی طور پر اشیا خور ونوش کی قیمتیں پچھلے مہینوں کی نسبت کم ہوئی ہیں لیکن دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جیسے گاڑیاں، موبائل، کپڑے، جوتے اور میک اَپ کا سامان وغیرہ۔ کنزیومر پرائس انڈیکس کے مطابق پچھلے سال دسمبر میں اشیا کی قیمتیں تقریباً آٹھ فیصد سے بڑھ گئی تھیں جو 2020ء کے ماہِ دسمبر کے برابر ہیں۔ اگر انڈیکس کا ماہانہ بنیادوں پر موازنہ کیا جائے تو دسمبر کے مہینے میں نومبر کی نسبت 0.7 فیصد کمی ہوئی۔ اس کی وجہ قیمتوں کے معاملے میں حکومتی دخل اندازی ہے۔ مارکیٹ کو آزاد چھوڑ دینا کسی بھی طرح بہتر فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ لگام لگی ماکیٹ ہی عوامی مسائل کی ترجمان ہو سکتی ہے۔ بروقت ایکشن بہتر نتائج دے سکتا ہے۔ جب چینی کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی تھی تو حماد اظہر صاحب نے چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا جو سودمند ثابت ہوا۔ گو کہ بہت زیادہ تنقید کی گئی کہ یہ خیال پہلے کیوں نہیں آیا، پہلے چینی برآمد کیوں کی گئی، ایک ماہ قبل آرڈر کر دینا چاہیے تھے لیکن حقیقت کو کوئی سمجھنے کے لیے تیار نہ تھا کہ شوگر ملز نے حکومت کو غلط ڈیٹا فراہم کیا تھا۔ وہ کہتے رہے کہ ضرورت سے زیادہ چینی سٹاک میں موجود ہے۔ جب فزیکل سٹاک کی تصدیق کرنے کا فیصلہ کیا گیا توعلم ہوا کہ سٹاک میں چینی نہیں ہے۔ ملز مالکان سے استفسار کیا تو انہوں نے یہ جواز پیش کیا کہ ایک ماہ میں ساری چینی فروخت ہو گئی ہے۔ حقائق سامنے آنے پر جو حساب حماد اظہر صاحب نے میڈیا کو پیش کیا تھا‘ اسی تناسب سے چینی درآمد کی گئی تھی اور پھر عام آدمی کو کم ریٹ پر دستاب بھی ہو سکی تھی۔ یاد رکھیے پاکستان جیسے ملک میں چینی کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ کوئی بھی موقع ہو‘ میٹھا کھانا اور کھلانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی شاید پانی کے بغیر رہ سکتے ہیں لیکن میٹھے کے بغیر نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے سیاستدان طبقے نے سب سے زیادہ سرمایہ کاری شوگر انڈسٹری میں کر رکھی ہے۔ پچانوے فیصد سے زائد ملیں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی ملکیت ہیں۔ ملک میں ہونے والی مہنگائی کے ذمہ دار بھی یہی لوگ ہیں۔ ناقدین کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ پہلے چینی برآمد کر کے ڈالر کمائے گئے‘ پھر مصنوعی قلت پیدا کی گئی اور مہنگی چینی بیچ کر روپے کمائے گئے اور بعد ازاں درآمد کر کے اپنے من پسند لوگوں کو نوازا گیا۔ میں اس مفروضے کو سو فیصد غلط نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ چینی مافیا نے پیسہ تو بنایا ہے اور یہ انکوائری رپورٹ میں سامنے بھی آ گیا ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ شوگر مافیا نے پیسے بنائے ہوں اور نہ ہی ورادات ڈالنے کا یہ طریقہ نیا ہے۔ یہ سب آزمودہ ٹوٹکے ہیں جو یہ مافیا سالوں سے استعمال کرتے آ رہے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ وہ فارمولے بنانے، انہیں پراسیس کرنے اور ان کے مطوبہ نتائج حاصل کرنے میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں، تو غلط نہ ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے‘ وہ اس کا حساب بھی پہلے ہی کر لیتے ہیں۔ اگر تمام فارمولے ناکام ہو جائیں اور بھاگنے کے تمام راستے بند ہو جائیں تو ''رقم کی واپسی‘‘ کا آخری حربہ بھی کھلا رکھتے ہیں۔ اگر کسی ادارے نے پکڑ لیا تو کُل رقم کا تیسرا حصہ پلی بارگین کی مد میں ادا کر کے سب معاملہ دفن ہو جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود تقریباً 67 فیصد خالص منافع بچ جاتا ہے؛ تاہم ایسا خال خال ہی ہوتا ہے اور اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ان مافیاز کا پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ کرپشن کرنے سے پہلے اس کے نتائج اور بچنے کی تمام تدابیر اور قانونی راستے تلاش کر کے رکھے جائیں۔ اگر بچنے کا کوئی قانونی راستہ نہ نکل پائے تو وہ کرپشن کے لیے کسی اور شعبے انتخاب کر لیتے ہیں لیکن گیلی زمین پر پائوں رکھتے ہیں اور نہ ہی نرم مٹی کو ہاتھ ڈالتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک تو ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ ان مافیاز نے دھوکے سے کمائے پیسے واپس کیے ہوں بلکہ ابتدائی مراحل میں ہی لے دے کر بات ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ موجودہ تحریک انصاف کی حکومت میں یہ معاملہ دبتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ عمل قابلِ تعریف ہے کہ عمران خان نے چینی کے معاملے پر اپنے سب سے عزیز دوست کو بھی معاف نہیں کیا۔ اتنا گہرا تعلق ایک اصول کی بنیاد پر قربان کر دینا شاید عمران خان کا ہی خاصا ہے۔ پچھلی حکومتوں میں یہ حکمت عملی دیکھنے میں نہیں آتی تھی بلکہ کرپشن کیسز کو اپنے ہی دور میں ختم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ نہ کرپشن کے الزامات پر کابینہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا جاتا تھا اور نہ ہی اپنے لوگوں پر لگائے گئے الزامات کو سچ تسلیم کیا جاتا تھا۔ عمران خان کا کرپشن کے خلاف جہاد ایک طرف لیکن مہنگائی میں پستے ہوئے عوام کے لیے قیمتوں کا کم ہو جانا اصل ریلیف ہے۔ ایسے حالات میں جب عام آدمی کی تنخواہ کم ہو گئی ہو، بے روزگاری کا گراف بلند ہو رہا ہو اور کاروبار سکڑ رہے ہوں، اشیائے خور ونوش کی قیمتوں کا کم ہو جانا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
آئیے! اب ایک نظر عوامی سرویز پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ حکومت کے بارے میں عوامی رائے جاننے کے لیے سروے کمپنی گیلپ مختلف اوقات میں اپنے نتائج سامنے لاتی رہتی ہے جس سے یہ اندازہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریتی تعداد کیا سوچ رہی ہے۔ حالیہ نتائج کے مطابق 48 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملکی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے۔ 30 فیصد کا خیال ہے کہ ملکی معیشت کی سمت درست نہیں ہے اور آنے والے دن زیادہ خوش گوار نہیں ہوں گے۔ گو کہ گیلپ کی رائے حتمی نہیں لیکن یہ کافی حد تک عوام کی نمائندگی ہے۔ معیشت کے حوالے سے رائے میں بہتری کی وجہ عوام کی خواہش کے مطابق کنسٹرکشن ایمنسٹی جیسی سکیمیں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی جانب سے بھی بعض اچھی خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ آئی ایم ایف نے دعویٰ کیا ہے کہ 2021ء پاکستان کی گروتھ کے حوالے سے بہترین سال ثابت ہو سکتا ہے۔ برآمدات کو سپورٹ کرنے والی پالیسیاں بنانا اور ان میں مستقل مزاجی قائم رکھنا پاکستان جیسے ممالک کے لیے مشکل مرحلہ رہا ہے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی بھی بہتر اقدام کو دیرپا قرار نہیں دیا جاتا رہا لیکن موجودہ حکومت کی جانب سے ایکسپورٹرز کو وعدوں کے مطابق سہولتیں فراہم کرنا اور آنے والے سالوں میں اس پالیسی کو بہتر بنانے کے لیے حقیقی ٹارگٹ طے کرنا ایسے عوامل ہیں جو بین الاقوامی اداروں کو بہتر مستقبل کے اشاریے فراہم کر رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق 2020ء بھی‘ باقی دنیا کی نسبت‘ پاکستان میں بہتر رہا ہے۔ ہم نے مشکل حالات میں بھی بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ اکانومی کو مدنظر رکھتے ہوئے کورونا بچائو پالیسی مرتب کی گئی جس کی وجہ سے صنعتیں بھی چلتی رہیں اور کووڈ پر بھی قابو پایا جا سکا۔ حکومت نے 1240 ارب کا امدادی پیکیج بھی جاری کیا جس پر ابھی تک عمل درآمد جاری ہے۔ آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ اگر ان برے حالات میں بھی پاکستان بہتری کی طرف گامزن رہا ہے تو 2021ء میں حالات مزید بہتر ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ 2020ء میں معیشت کی بڑھوتری کا اندازہ 0.4 فیصد لگایا گیا تھا لیکن کووڈ کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف کا مستقبل میں پاکستانی معیشت پر اعتماد کا اظہار کرنا حکومتی پالیسیوں کی کامیابی کا مظہر ہے۔