انسان بھی کیسا عجیب ہے کہ اس کا مزاج پل پل بدلتا رہتا ہے۔ گرمی بڑھتی ہے تو سردی کو یاد کرتا ہے اور سردی زور پکڑتی ہے تو گرمی یاد آنے لگتی ہے۔ یہ تماشا بچپن سے لے کر آخری عمل تک جاری رہتا ہے۔ انسان کا یہی تو سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ کسی بھی کیفیت سے کماحقہٗ مستفید اور محظوظ ہونے کے بجائے اُس کے منفی پہلوؤں یا سائیڈ ایفیکٹس پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب کسی معاملے سے کچھ اچھا کشید کرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں جائے گا تو خیر کا پہلو کہاں سے نکلے گا؟ کراچی کے موسم میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ دوسرے شہروں کے زیرِ اثر رہتا ہے۔ کوئٹہ میں جب شدید سردی پڑتی ہے تب کراچی میں بھی تھوڑی بہت ٹھنڈپڑ جاتی ہے۔ بارش اُسی وقت ہوتی ہے جب باقی ملک میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہو۔ کبھی کبھی تو اہلِ کراچی شکوہ سنج ہی رہ جاتے ہیں کہ ملک تر ہوگیا اور وہ پیاسے کے پیاسے رہے مگر وہ بارش کی دعا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ بارش کے نہ ہونے پر آگے تھوڑا سا گڑگڑائے تو بادل یوں ٹوٹ کر برسے کہ ایک بار پھر گڑگڑاکر کہنا پڑا ع
اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ دَم نکل جائے!
ماحول خنک ہے مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کراچی آج کل سردی سے ہم کنار ہے کیونکہ جس نوعیت کا یہ معاملہ ہے اُس کے پیشِ نظر کہا جائے گا کہ اس وقت کراچی سردی سے ''دوچار‘‘ ہے، شہرِ قائد اس وقت باقاعدہ طور پر سردی کی لپیٹ میں ہے۔ چار ماہ قبل ایسی جم کے بارش ہوئی تھی کہ شہرِ قائد کے مکینوں کے لیے سکون کا سانس لینا محال ہوگیا تھا۔ پہلی بار ''اربن فلڈ‘‘ بھی دیکھنے کو ملا۔ کئی دن تک شہر کی حالت یہ رہی ع
شہر کا شہر ہی آسیب زدہ ہو جیسے
بارش کا معاملہ ایسا تھا کہ بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے ایک بار دیکھا ہے اور دوسری بار دیکھنے سے ڈرتے ہیں! ایسی بارشوں سے ڈرنا ہی چاہیے۔ اب اہلِ شہر مدتِ دراز تک بارش کی دعا مانگتے ہوئے خوف و تشویش سے لرزہ سا محسوس کیا کریں گے۔ وہ زمانہ ہوا ہوچکا جب مئی تا جولائی کراچی میں چلچلاتی دھوپ کے شانہ بشانہ ٹھنڈی ہوائیں بھی چلا کرتی تھیں۔ اب تو کراچی کی گرمی بھی پگھلا کر رکھ دیتی ہے۔ سمندر سے آنے والی قدرے سرد ہوائیں شہر کے فطری ماحول کو کسی حد تک اعتدال پر رکھنے کی کوشش کرتی ہیں مگر ایندھن کے بے تحاشا استعمال اور صنعتی اداروں کے فضلے سے شہر کی فضا میں حدت بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی سردی کی تمنا نہ کرے تو کیا کرے۔ قسمت تو دیکھیے کہ جب بارش کی دعا مانگی تو ع
ایسا برسا ٹوٹ کے بادل، ڈوب چلا مے خانہ بھی
والی کیفیت پیدا ہو گئی۔ پھر احمد فراز یاد آتے ہیں ؎
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فرازؔ
کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر
اور اب سردی نے اپنے جلووں کو بے نقاب کرنا شروع کیا ہے تو پھر اہلِ کراچی سے کہا جارہا ہے کچھ بھی مانگنے سے پہلے اپنی سکت کا تو جائزہ لے لیا کرو کہ جو کچھ ملے گا اُسے برداشت بھی کرسکوگے یا نہیں! باقی ملک کی طرح‘ اس سال کراچی میں بھی سردی قیامت ڈھانے پر تُلی ہوئی ہے۔ اب کے کورونا کی وبا بھی ساتھ ساتھ ہے اس لیے کچھ تو سردی کا اثر ہے اور کچھ کورونا کی وبا کا خوف کہ لوگ گھروں میں دُبکے ہوئے ہیں۔ اضافی تماشا یہ ہے کہ مرزا تنقید بیگ بھی ''ہوٹل بازی‘‘ چھوڑ کر گھر کی چار دیواری تک محدود ہیں۔ سردی نے اُن کے اہلِ خانہ پر دہرا تازیانہ برسایا ہے۔ سردی سے ٹھٹھرنے کی مصیبت کیا کم تھی کہ اب مرزا کو بھی جھیلنا پڑ رہا ہے! مرزا جب کسی بھی وجہ سے گھر میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں تب اہلِ خانہ کی شامت آجاتی ہے۔ ویسے تو خیر مرزا خود بھی مسئلے سے کم نہیں مگر اِس نکتے پر بحث پھر کبھی سہی۔ مرزا کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ کبھی بھی، کہیں بھی نِچلے نہیں بیٹھ سکتے۔ گھر سے باہر ہوتے ہیں تو احباب اُنہیں کڑوے گھونٹ کی طرح پیتے ہیں اور اگر زیادہ دیر گھر میں رہیں تو اہلِ خانہ کی جان پر بن آتی ہے۔ کل ہم اُن سے ملنے پہنچے تو معلوم ہوا کہ اہلِ خانہ سردی کو کوس رہے ہیں۔ ہم نے بھابھی صاحبہ سے سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ گھر سے نکلنا نہیں ہو رہا ہے تو مرزا نے گھر ہی کو ہوٹل سمجھ لیا ہے۔ شام ہوتے ہی دو تین دوستوں کو بلاکر بیٹھک میں محفل جمالیتے ہیں۔ پہلے چائے منگواتے ہیں اور چائے کے مرحلے سے گزرنے کے بعد سُوپ کی فرمائش کر بیٹھتے ہیں۔ جب سے سردی نے زور پکڑا ہے تب سے مرزا کے اہلِ خانہ کا ناک میں دم ہے۔ اُن کے لیے تو سردی اور گرمی دونوں برابر ہیں۔ گرمیوں میں مرزا جب دوستوں کے ساتھ بزم آرائی کرتے ہیں تو کبھی شربت منگواتے ہیں اور کبھی لَسّی۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان دونوں نعمتوں سے حِظ اٹھانے کے بعد چائے کی فرمائش بھی داغ دیتے ہیں۔ اہلِ خانہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ کیسا شوق ہے کہ شربت اور لَسّی سے ہوتا ہوا چائے کی منزل تک آتا ہے!
ایک دیہاتی میلہ دیکھنے گیا تو وہاں اُس کی جیب کٹ گئی۔ واپس آیا تو کسی نے پوچھا میلہ کیسا رہا۔ اُس نے کہا ''میلہ ویلہ کیا تھا، بس میرا مال لوٹنے کے لیے یہ سارا انتظام کیا گیا تھا!‘‘ بھابھی صاحبہ کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ہم نے کہا اب کے سردی زیادہ ہے، گھر کے لوگ موسم سے لطف اندوز ہو رہے ہیں یا نہیں۔ وہ بولیں ''موسم سے لطف اندوز ہونا ہمارے نصیب میں کہاں؟ ہم تو گھر کی چار دیواری میں بند تمہارے بھائی کی فرمائشیں پوری کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کچھ بنواتے ہیں اور کبھی کچھ۔ ناک میں دم ہوچکا ہے۔ اس 'خدمتِ خلق‘ سے اب تو بچے بھی عاجز ہیں۔ ہمیں گرمی میں سکون ملتا ہے نہ سردی میں۔ موسم کی شدت ہمارے لیے واقعی آزمائش میں تبدیل ہوچکی ہے‘‘۔ ہم نے مرزا سے کہا کہ ہاتھ کچھ ہلکا رکھو۔ اہلِ خانہ کو ہوٹل کا سٹاف سمجھنے سے گریز کرو تو اچھا ہے کہ اپنے وجود پر اُن کا بھی کچھ حق ہے۔ ہم یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک طرف موسم کی سختی اور دوسری طرف خور و نوش کی فرمائشیں۔ ایسے میں اچھے اچھوں کا پِتّہ پانی ہو جاتا ہے۔ اگر سمجھ جائیں تو پھر مرزا کیا ہوئے! شہرِ قائد ٹھٹھر رہا ہے، لوگوں کی نقل و حرکت سکڑتی جارہی ہے مگر مرزا کی فرمائشیں پھیلتی جارہی ہیں۔ موسم اگر بلائے جان ہے بھی تو دوسروں کے لیے ہے، مرزا کو اِس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ سردی ہے یا گرمی۔ اور بارش کی بہار بھی گل کھلارہی ہو تو مرزا کو چَین کہاں؟
کراچی میں ایک مدت سے بارش کے نام پر سال کے سال چند چھینٹے پڑ رہے تھے۔ اب کے بارش نے وہ سماں پیدا کیا کہ اللہ دے اور بندہ لے ؎
دعا بہار کی مانگی تو اِتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو
والا سماں پیدا ہوگیا۔ اس سے قبل گرمی اِتنی پڑی تھی کہ بارش کی آرزو فطری تھی۔ اہلِ کراچی کب جانتے تھے کہ جب وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں گے تب قبولیت کی گھڑی ہوگی۔ سیمابؔ اکبر آبادی نے کہا ہے ؎
دعا دل سے جو نکلے کارگر ہو
یہاں دل ہی نہیں، دل سے دعا کیا!
مگر یہ تو بس کہنے ہی کی بات ہے۔ اہلِ کراچی نے دعا کو ڈھنگ سے ہاتھ بھی نہ اٹھائے تھے کہ اللہ نے سُن لی اور اب شدتِ سرما کا تازیانہ برس رہا ہے! فطرت کے موسم تو محسوس ہوتا ہے کہ اہلِ کراچی کو ستانے ہی آرہے ہیں۔ دیکھتے ہیں وزیر اعظم نے بڑے پیمانے کی ترقی کے جس موسم کا وعدہ کیا ہے وہ کب شروع ہوتا ہے۔