تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     10-01-2021

اونچائی پر لٹکا گوتم

ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں نے مایوس ہو کر دھرنا ختم کرکے میتوں کو دفنا دیا۔
جب حکومت کا سربراہ انہیں بلیک میلر قرار دے تو پھر اس کا کیسا انتظار اور کس انصاف کی توقع؟ زندہ رہنے کی ضمانتیں اور ان ضمانتوں کی کتنی اہمیت ہے؟ پہلے جو ضمانتیں دی گئیں ان سے کیا فرق پڑ گیا کہ اب پڑ جائے گا؟
ضد تو وہاں کی جائے جب کوئی منانے والا ہو۔ جسے احساس ہو کہ کوئی اس لیے ضد کرکے سڑک پر بیٹھ گیا ہے کہ اسے لگا‘ کوئی اس کے دکھ درد سمجھے گا۔ اس کا بچہ تو واپس نہیں آئے گا لیکن چلیں اسے احساس تو ہوگا‘ بادشاہ نے اس کے دکھ میں شریک ہو کر اس درد کی شدت کم کرنے کی کوشش کی۔
کبھی سوچتا ہوں‘ کم بولنا کتنا ضروری ہے۔ میں خود سے کئی دفعہ کچھ باتوں پر ناخوش اور ناراض ہوا ہوں۔ میرا خیال تھا‘ ان مواقع پر میں چپ رہتا‘ بہتر تھا ویل لیفٹ کر دیتا۔ ہمارے بڑے صاحب یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ ہزارہ کمیونٹی کے لوگ انہیں بلیک میل نہیں کررہے تھے، وہ انہیں ملک کا اہم ترین اور بڑا بندہ سمجھ کر بلا رہے تھے کہ دیکھو ہر دفعہ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے۔ جب تکلیف میں ہوتے ہیں تو اسے پکارتے ہیں جو آپ کو بہت عزیز ہوتا ہے یا جس سے دکھوں کے مداوے کی امید ہوتی ہے۔ کوئی دشمن کو تھوڑی آواز دیتا ہے کہ ہمارے آنسو پونچھو۔
جب آپ ایسی توقعات رکھتے ہیں تو مطلب اس بندے کو اہمیت دیتے ہیں نہ کہ اسے بلیک میل کررہے ہوتے ہیں۔ ایک غریب کانکن مزدور کی میت اور روتے ماں باپ یا بہن بھائی‘ جو پہلے ہی برباد ہوچکے ہیں‘ بھلا کسی کو کیا بلیک میل کریں گے؟ سینکڑوں میل دور اپنے محل میں سینکڑوں محافظوں میں گھرا کوئی بادشاہ بھلا کیونکر بلیک میل ہوگا؟ اس کی ایسی کیا مجبوری ہوگی جو اسے بلیک میل ہونے پر مجبور کر دے گی۔ بلیک میل وہ ہوتے ہیں جن سے خون کا رشتہ ہوتا ہے۔ بلیک میل تو آپ کے ماں باپ ہوتے ہیں‘ بہن بھائی ہوتے ہیں۔ رشتے دار آپ کی محبت میں بلیک میل ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ماں باپ کو ہی ہمیشہ اولاد کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے دیکھا ہے۔ جس سے کوئی تعلق نہیں وہ کیوں بلیک میل ہوگا؟
جس نے بھی خان صاحب کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ سرکار آپ کو بلیک میل کیا جا رہا ہے لہٰذا دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے آپ نے نہیں جانا‘ ورنہ اسے آپ کی کمزوری سمجھا جائے گا‘ وہ ان کے دوست نہیں دشمن تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم کے امیج کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے ان دعووں‘ نعروں اور قسموں کا بیڑا غرق کردیا جن کا اظہار وزیر اعظم بائیس برس کرتے رہے۔ شاید لوگ اس تقریر کو سیریس سمجھ بیٹھے تھے جو قومی اسمبلی میں کی گئی کہ وزیراعظم قوم کا باپ ہوتا ہے۔ وہ مزدور خود کو آپ کے بچے سمجھ بیٹھے تھے۔ اب فیس سیونگ کے لیے میڈیا میں کہانیاں چھوڑی جا رہی ہیں کہ عمران خان صاحب کو سکیورٹی کے ایشوز تھے‘ لہٰذا وہ نہیں جا سکتے تھے۔ سکیورٹی فراہم کرنا ان اداروں کا کام ہے جو وزیر اعظم کی سکیورٹی پر متعین ہیں۔ آپ ملک کے وزیر اعظم ہیں‘ انہیں حکم دیں کہ میری سکیورٹی کا بندوبست کیا جائے‘ وہاں جانا میرے منصب کا تقاضا ہے‘ آپ اپنا کام کریں میں اپنا کروں گا۔ پھر کہاں گئیں وہ تقریریں جن میں ٹیپو سلطان کا بار بار ذکر ہوتا تھا اور شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کے سو سالوں سے بہتر قرار دے کر عوام کے دلوں کو گرمایا جاتا تھا۔ عوام کو یہ میسیج دیا جاتا تھا کہ انگریزوں سے بہادری سے لڑ نے والے ٹیپو سلطان کا نیا جنم پاکستان میں ہوگیا ہے۔ چلیں یہاں تک بھی ٹھیک تھا‘ لیکن سات دنوں میں جو مصروفیات سامنے آئیں انہوں نے لوگوں کا دل مزید دکھایا کہ ان کے نزدیک مرنے والے اتنے اہم نہیں تھے جتنی ارتغرل ڈرامے کی ٹیم تھی۔
محسوس ہوتا ہے‘ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ وہ اپنی باتوں اور تقریروں سے سب کو charm کرسکتے ہیں۔ وہ کچھ بھی کہہ دیں پوری قوم اس پر یقین کر لیتی ہے۔ پھر ممکن ہے وہ یہ سمجھتے ہوں کہ ان کا ایک جنگجو کا امیج بن چکا ہے کہ وہ کسی سے نہ ڈرتے ہیں، نہ دبتے ہیں، نہ ہی وہ کسی کو این آر او دیتے ہیں۔ اپنی تقریروں میں سب کو رگڑ دیتے ہیں اور لوگ ان کے اس امیج سے محبت کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے اس امیج سے ہٹ کر کوئی بات کی، کوئی کمپرومائز کیا تو عوام ان سے متنفر ہو جائیں گے لہٰذا انہوں نے ہروقت بغیر صورتحال کا تقاضا سمجھے دبنگ انداز میں باتیں کرنی ہیں اور عوام نعرے لگائیں گے۔ شاید اسی لیے ان کی ہر گفتگو ان کی اپنی ذات کے گرد گھومتی ہے۔ لگتا ہے‘ وہ اپنی ذات کے سحر میں گرفتار ہیں۔
جب ریاست چلا رہے ہوتے ہیں تو آپ کو ملک‘ ریاست اور عوام کے مفاد میں سوچنا ہوتا ہے نہ کہ اپنی انا کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ میں نے بھی اپنی انا کے ہاتھوں کئی دفعہ نقصان اُٹھایا ہے۔ جہاں انا انسان کو کئی دفعہ اوپر لے جاتی ہے‘ وہیں یہ آسمان سے زمین پر بھی پٹخ دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے میں آپ کے سامنے اپنی انا کے ہاتھوں ہوئے اپنے غلط فیصلوں کو تسلیم نہ کروں کیونکہ اس سے میری انا ہرٹ ہو گی لیکن پتا ہوتا ہے کہ میں نے کہاں کہاں انا کے ہاتھوں نقصان اٹھایا ہے۔
جمہوریت اور بادشاہت میں کیا فرق ہے؟ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ ہزاروں سالوں کے تجربات کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں اپنے ووٹوں سے منتخب ایک وزیراعظم چاہیے نہ کہ بادشاہ جو کبھی ''غلطی‘‘ نہیں کر سکتا۔ ایسا بادشاہ جس پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ جس تک عوام کی رسائی نہیں۔ اس لیے وقت کے ساتھ بادشاہت ختم ہوتی گئی اور جمہوری معاشروں نے جنم لیا جس میں وزیراعظم نے بادشاہ کی جگہ سنبھال لی کیونکہ بادشاہ کے برعکس وزیراعظم کی جواب طلبی ہو سکتی تھی۔ جمہوریت تو دوسرے لفظوں میں نام ہی عوام کے ہاتھوں بلیک میلنگ کا تھا۔ آپ عوام سے ووٹ بھی اس نعرے پر لیتے ہیں کہ عوام کے خادم ہیں اور عوام کو ہی سرو کریں گے‘ لیکن جب عوام مرنے لگیں اور آپ کی طرف دیکھیں اور آپ کہنا شروع کردیں کہ میں تو بلیک میل نہیں ہوں گا تو یہ رویہ اور سوچ جمہوری نہیں بلکہ بادشاہانہ ہے۔ یہ اس جمہوریت کی نفی ہے جس کو سیڑھی بناکرآپ اوپر آتے ہیں۔ 
حیران ہوتا ہوں ہم انسانوں کے اندر اتنی انا، تکبر اور ''میں‘‘ کیوں بھر دی گئی ہے۔
اس ''میں‘‘ کا جواب آپ کو قرۃ العین حیدر کے ناول ''ناول آگ کا دریا‘‘ میں ملتا ہے۔
رگ وید میں لکھا ہے: ''ابتدا میں خودی تھی جو پرش (انسان) کی شکل میں نمودار ہوئی‘ اس نے چاروں اور دیکھا اور سوائے اپنے آپ اسے کوئی نظر نہ آیا۔ اس نے کہا: یہ میں ہوں؛ چنانچہ وہ خود کو ''میں‘‘ سمجھنے لگ گیا‘‘۔
گوتم اونچے مندر کی دیوار پر بیٹھا تھا۔
تم کون ہو بھائی؟ نیچے سے کسی نے پوچھا
''میں ہوں‘‘ گوتم نے لیٹے لیٹے جواب دیا۔
تمہارا نام کیا ہے؟
''میں کا کوئی نام نہیں ہوتا‘‘۔
بھائی گوتم تم نیچے آجائو۔
''تم خود اوپر کیوں نہیں آتے‘‘ گوتم نے کہا
اونچائی اور نیچائی محض ذہنوں کے فرق سے ہوتی ہے۔
''ہوں‘‘
تم کو کیا معلوم جسے تم اونچائی سمجھ رہے ہو وہ پاتال سے بھی گہری ہو۔
تو تم نیچے نہیں اترو گے؟
''نیچے کیڑے مکوڑے ہوں گے اور کیڑے مکوڑوں سے دوستی کرنا میں نے ابھی شروع نہیں کیا...‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved