گاڑی پارکنگ سے باہر نکالتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ میری چائے کی طلب ختم نہیں ہوئی ہے۔ شاپنگ مال کی ٹی بیگ والی چائے اور اسے دودھیا سفید کرنے والے کیمیکل کی چائے سے میری ''چہاس‘‘ نہیں بجھی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ شاپنگ مال کے پہلو میں چند کھوکھے ہیں اور ان میں چائے کا ایک کھوکھا بھی میں نے دیکھا تھا۔ اکثر ایسے کھوکھوں کی دودھ پتّی کا جواب نہیں ہوتا۔ میرا اندازہ ٹھیک تھا۔ شاپنگ مال کے ساتھ ہی چند کھوکھے تھے اور بابا فضلو کا ہوٹل بھی انہیں میں ایک تھا۔
فضل دین کے ہوٹل کے سامنے لکڑی کی لمبی سی بنچ پڑی تھی اور اس پرانی بنچ پر گاہک کے بیٹھنے سے بھی ابھری ہوئی کیلیں نہیں بیٹھتی تھیں۔ میرے آنے پر پہلے سے موجود دو تین گاہکوں نے مجھے بنچ پر جگہ دی۔ دودھ پتی اور کڑھی ہوئی چائے چل رہی تھی۔ خوب کڑھی ہوئی چائے پر مجھے ہمیشہ مرحوم اشفاق احمد یاد آتے ہیں۔ وہ جب بھی ہماری دکان پر آتے اور ان سے ہم چائے کا پوچھتے تو وہ کہتے: ہاں، ضرور‘ ڈرائیوروں والی چائے منگاؤ۔
بابا فضل دین دودھ پتّی بنانے کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہا تھا۔ اس کے سامنے ملگجے سے پلاسٹک کے ایک مرتبان میں سستے سے بسکٹ تھے اور دوسرے مرتبان میں کچھ سستی سی ٹافیاں اور سونف سپاری وغیرہ۔ اس کی ایک گاہک سے گفتگو پہلے سے چل رہی تھی۔ دونوں طرف باتوں میں غصہ اور تلخی موجود تھی۔ کچھ دیر سننے کے بعد اندازہ ہواکہ چائے کے فی کپ نرخ بڑھانے پر تکرار تھی۔ فضل دین نرخ بیس روپے فی کپ سے بڑھا کر بائیس روپے کرنا چاہتا تھا اور گاہک اس پر آمادہ نہیں تھا۔ چند مزید جملوں کے بعد فضلو کو غصہ آگیا۔
''تجھے پتہ ہے یہ تیری بغل کے پلازے میں کتنے کا چائے کا کپ ہے۔ پورے دو سو روپے کا۔ دم والی چائے نہیں تعویذ والی اور دودھ والی نہیں کیمیکل والی۔ اس کو نہیں روتا تو؟ اور تجھے پتہ ہے وہ یہ زمین بھی خرید رہے ہیں اور اتنا پیسہ ہے ان کے پاس تو وہ خرید بھی لیں گے اور پھر ہم سب کے کھوکھے تو گئے۔ پھر پیتے رہنا دو سو روپے کی چائے‘‘ بابا نے غصے میں زور سے چمچ دیگچی پر مارا۔ تھوڑا سا دودھ چھلک کر شوں شوں کرتا چولہے میں گرا۔ مخاطب حریف کے لیے یہ اطلاع نئی تھی۔ وہ ایک دم نرم پڑ گیا ''غصہ کیوں کرتا ہے؟ اور اپنا ہی نقصان کرتا ہے غصہ کرکے‘‘ اس کی پیالی ختم ہو چکی تھی اور اب وہ بات ختم کرکے اٹھنا چاہتا تھا۔ ''چل لے یہ پیسے پکڑ اور سن! اگر تیرا کھوکھا ختم ہوگیا تو تُو مجھے بتا دینا‘ میں اپنے ٹھیکیدار سے بات کرکے تجھے بھی مزدوری دلوا دوں گا۔ پھر دونوں جنے بیٹھ کر کسی اور کے کھوکھے پر چائے پئیں گے‘‘۔ حریف نے اپنی طرف سے ایک پُرمزاح جملے پر بات ختم کرنا چاہی۔
''جا جا‘ اپنے باپ کو لگوا کام پر‘ میں اس عمر میں، ستر سال کی عمر میں مزدوری کروں گا کیا؟‘‘ فضلو پھرچائے کی طرح کھول گیا۔ وہ حریف کے میدان چھوڑ جانے کے بعد بھی مسلسل غصہ کر رہا تھا۔ اس کی بے بسی والی جھنجھلاہٹ دیگچیوں اور کیتلیوں پر نکل رہی تھی اور یہی بنتا بھی تھا۔ اور وہ کس پر اپنا غصہ نکالے؟ باقی بے بسی شاید وہ گھر جاکر نکالے گا۔
بے بس لوگ کس پر غصہ نکالیں؟ بے جان چیزوں پر؟ بے زبان جانوروں پر؟ یا پھر اپنے سے بھی زیادہ بے بس لوگوں پر؟ میاں محمد بخش صاحب نے کیا ٹھیک کہا تھا:
لِسّے دا کی زور محمد!، نس جانا یا رونا
(محمد بخش! بے بس کاکیا زور ہوتا ہے۔ یا بھاگ جانا یا رَو دینا)
فرد ہو، کوئی طبقہ ہو، قوم ہو یا ملک۔ روزِ ازل سے یہ اصول بدلا نہیں۔ بابا فضلو اسے کیسے بدلے گا؟
ملک میں جدید ترین شاپنگ مالز کھل رہے ہیں۔ آئے دن کسی شہر میں کسی شاپنگ مال کا افتتاح ہوتا ہے۔ جو چمک دمک اور آرائش میں پہلے سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں ایک تجربہ کامیاب ہونے کے بعد شاپنگ مالز کی ایک ڈار اس طرح یکے بعد دیگرے اڑان بھررہی ہے جیسے کسی مصروف طیران گاہ سے طیاروں کی قطار۔ بڑے شہروں ہی میں نہیں چھوٹے شہروں میں بھی اس رجحان کی داغ بیل پڑ چکی ہے اور آپ کچھ عرصے بعد وہاں جائیں تو سبز اور نقرئی شیشوں سے مرصع ایک جگمگاتی بلند عمارت آپ کو خوش آمدید کہتی ہے۔ شیشے اتنی تعداد میں جس تناسب میں کبھی اینٹ لگا کرتی تھی اور اینٹ اس تناسب میں جس میں کبھی شیشہ ہوا کرتا تھا۔
ہربڑے شاپنگ مال کا نقشہ کم و بیش ایک فارمولے کے تحت ہے۔ اربوں روپے کا پلاٹ، کروڑوں کی عمارت۔ آئنے، شیشے، روشنیاں، جگمگ فرش، گرمی سردی سے محفوظ رکھنے والا اپنا موسم، ایک انداز کی دکانیں، جدید ناموں کے برانڈز، خوبصورت ترین اردو الفاظ بھی انگریزی میں لکھے ہوئے۔ وہ ملکی اور غیرملکی برانڈز جن کا کسی مہنگے شاپنگ مال میں نہ ہونا باعث تعجب ہے۔ مہنگے سے مہنگا سامان۔ بچوں کے جھولوں اور کھیلوں کا مخصوص علاقہ۔ احاطۂ طعام یعنی فوڈ کورٹ، ایک پوری منزل انواع و اقسام کے کھانوں کے ساتھ مزین۔ صحت مند ماحول میں۔ متنوّع دیسی کھانے۔ میکسیکن سٹیک، کیرالہ کا ڈوسا، ترکی کے ادرنہ کباب، بہترین اٹالین پیزا۔ قسم در قسم امریکی برگر، سوئس آئس کریم۔ پینے کے لیے تازہ اور مصنوعی دونوں طرح کے مشروب، تازہ جوس، کافی، چائے، رنگا رنگ کیک، پیسٹری۔ اشتہا بڑھانے اور پھر مٹانے کا پورا بندوبست۔ شاپنگ مالز کا یہ فارمولا سکہ رائج الوقت ہے اور اگر آپ کی جیب میں نقد یا کارڈز کی صورت میں سکہ رائج الوقت ہے تو ہر جگہ آپ کی جگہ ہے۔
آپ نے کیا کہا؟ ذائقہ؟ یہ ذائقہ ڈھونڈنے کی جگہ نہیں ہے۔ لوگ یہاں سیر کرنے اور تماشا دیکھنے آتے ہیں اور ان دونوں چیزوں کا اپنا ذائقہ ہے۔ کیا یہ بات کم ہے کہ وہ یہاں ایسے غیر ملکی برانڈ کھا پی رہے ہیں جن کا کھانا اور پینا سوشل سٹیٹس کی علامت ہے۔ شکم سیری ایک طرح کی نہیں ہزار قسم کی ہوتی ہے اور اشرافیہ میں شامل ہونا بذاتِ خود ایک شکم سیری ہے۔
جن لوگوں کی دسترس میں یہ شاپنگ مالز ہیں۔ اللہ انہیں مبارک کرے اور مزید عطا کرے۔ کوئی شخص بھی ملکی اور غیرملکی برانڈز یا شاپنگ مالز کا مخالف نہیں ہے لیکن خدا کے لیے یہ تو سوچیں کہ برانڈز کا یہ رجحان کس طرح معاشرے میں چھوٹے اور کمزور طبقوں کو اپنا نوالہ بنائے ہوئے ہے۔ ایک طرف چھوٹا دکاندار یا خوانچہ فروش سستا بیچنے کے باوجود پستا جا رہا ہے۔ وہ بیس روپے کی چائے بیچ کر بھی بیس باتیں سنتا ہے‘ اور دوسری طرف وہ طبقہ جو ان مہنگے شاپنگ مالز میں کبھی کبھار بھی جانے یا خریداری کی استطاعت نہیں رکھتا، احساس کمتری کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے‘ یعنی ایک طرف تو بابا فضلو سے اس شاپنگ مال نے اس کا کھوکھا چھین لیا‘ دوسری طرف اس کے بچے اس مال کے اندر جا بھی نہیں سکتے۔ کیا ایسا نہیں کیا جاسکتا کہ بڑے ملکی اور غیرملکی برانڈز کے لیے لازمی ہوکہ وہ اپنی آمدنی کا ایک طے شدہ حصہ یہیں پاکستان میں فلاحی اور رفاہی کاموں پر خرچ کریں گے۔ کیا پیسے کے بل پر ہر چھوٹے، سستے مگر اچھے برانڈ کو اپنے راستے سے ہٹا دینے پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ کیا یہ نظام کسی لسّے، کسی کمزور کو بھاگ جانے یا رَو دینے کے بجائے اپنے ساتھ شریک نہیں کرسکتا۔ کب یہ شعور بیدار ہوگا کہ کمزور تو طاقتور کی طاقت ہے۔ یہ ایک دوسرے کے لیے لازمی ہیں۔ جیسے عمارت میں شیشہ اور اینٹ۔ آپ اینٹوں کو بالکل کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں؟ بفرض محال یہ بھی مان لیجئے کہ یہ طبقہ گلیوں کی خاک ہے لیکن میاں محمد بخش صاحب نے یہ بھی تو فرمایا تھا:
میں گلیاں دا رُوڑا کوڑا، محل چڑھایا سائیاں
(میں تو گلیوں کا کوڑا اور بیکار چیز تھا، میرے دوست نے مجھے محل میں پہنچا دیا)
ہے کوئی ہمارے درمیان بابا فضلو کا سائیں؟