پچھلے 22 برس سے کوئٹہ میں بسی ہزارہ برادری پر جو قیامت ٹوٹ رہی ہے، جس طرح سے اسے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا‘ جوانوں، بچوں، بوڑھوں‘ خواتین کو جس بربریت کا نشانہ بنایا جاتا رہا‘ اس دکھ اور کرب کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہزارہ برادری کے مطابق پاکستان میں اب تک ان کے دو ہزار افراد ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور دہشتگردی کی بہیمانہ وارداتوں میں جان بحق ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ہیومن رائٹس کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق بھی 613 افراد کا جان بحق ہونا تو رپورٹ ہو چکا ہے۔ کسی بھی مخصوص کمیونٹی کے سینکڑوں اور ہزاروں افراد کا اس طرح سے اندوہناک قتل، نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ درد و الم کی یہ داستان خاصی طویل ہے۔ موجودہ ہزارہ کا تعلق افغانستان کے علاقے بامیان سے ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق ہزارہ چنگیز خان کی نسل سے ہیں۔ مشرق وسطیٰ سے منگولوں کے ساتھ افغانستان آئے اور یہیں بس گئے۔ امیر تیمور فاتح کا تعلق بھی چنگیز خان سے تھا۔ فاتح ہندوستان ظہیرالدین بابر بھی منگول تھا۔ منگول برصغیر میں مغل کہلائے۔
افغانستان میں صدیوں سے موجود ہزارہ قبائل جنگ و جدل اور فوجی مہمات کیلئے مشہور رہے ہیں۔ خاص جنگی حکمت عملی کے تحت یہ ہزار ہزار کی ٹولیوں میں مہم پر جاتے تھے‘ اسی سبب انہیں ہزارہ جات کہا جاتا تھا‘ جو بعد میں سمٹ کر ہزارہ بن گیا۔ 1890ء میں افغانستان کے حکمران امیر عبدالرحمن سے سیاسی تنازع اور مظالم بڑھ جانے کے باعث ہزارہ برادری کے افراد کو ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ افغانستان سے سرحدی تنازعات اور تزویراتی صورتحال کے پیش نظر انگریزوں نے ہزارہ برادری کی کوئٹہ سیٹلمنٹ میں تعاون کیا۔ ایک معاہدے کے تحت مری قبائل کی چراگاہوں کی زمینیں انہیں رہنے کیلئے دلوائی گئیں۔ بعد میں انگریز نے ہزارہ پائنیئر کے نام سے فوج بنائی جس نے جنگ عظیم اول اور دوم میں انگریزوں کیلئے خدمات انجام دیں۔ جنرل ایوب خان کے دور میں پاک فوج کے کمانڈر جنرل موسیٰ خان کا تعلق بھی ہزارہ قبیلے سے تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب ''فرام جوان ٹو جنرل‘‘میں ہزارہ قبیلے کی جنگی مہمات کی تعریف کی ہے۔
ہزارہ برادری کی کئی دہائیاں عافیت کے ماحول میں گزریں۔ 90 کی دہائی میں جہادِ افغانستان اور پھر بغیر کسی پلاننگ کے فوجوں کے انخلا نے افغانستان کو مقامی وار لارڈز کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا۔ اِسی دہائی کے وسط میں طالبان نے افغانستان میں زور پکڑا تو ہزارہ اپنی تاریخی حیثیت اور مسلکی رجحانات کے باعث زد میں آئے۔ طالبان نے بامیان کے پہاڑوں میں تراشے بدھا کے تاریخی مجسموں کو بھی مسمار کردیا۔ ہزارہ برادری کی ایک بڑی تعداد نے اس وقت کوئٹہ ہجرت کی‘ لیکن یہاں آکر بھی ان کی مشکلات نہ ٹلیں۔ 1999ء سے 2009ء تک ہزارہ برادری پر بلوچستان کے حالات کے تناظر میں معمول کے حملے ہوتے رہے۔ اس عرصے میں 73افراد جان بحق ہوئے۔ 2010ء پاکستان کی تاریخ میں دہشتگردی کے حوالے سے خونیں سال سمجھا جاتا ہے۔ ہزارہ برادری بھی دہشتگردی کی اس لہر کی زد میں آئی۔ صرف اسی ایک سال میں 72 ہزارہ جان بحق ہوئے۔ اگلے تین سال یعنی 2014ء تک ہزارہ برادری نے اتنی لاشیں اٹھائیں کہ ان کے کئی گھروں میں مرد ہی ختم ہو گئے۔ مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے، غم کے سیلاب آئے‘ لیکن ہزارہ برادری نے پرامن احتجاج کے ذریعے ہر بار ریاست سے تحفظ مانگا، ڈٹ کر اپنا حق طلب کیا۔ 2013ء میں جب ہزارہ ٹاؤن میں بم دھماکوں سے 100 افراد جان بحق ہوئے تو دھرنا دیا گیا۔ گورنر بلوچستان، قمر زمان کائرہ، ندیم افضل چن اور مولا بخش چانڈیو پر مشتمل کمیٹی نے انہیں دھرنا ختم کرنے پر آمادہ کیا۔ یہ دھرنا گورنر راج کے نفاذ کے بعد ختم کیا گیا۔ مئی 2018ء میں بھی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف دھرنا دیا گیا۔ یہ دھرنا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے بعد ختم کیا گیا۔ اپریل 2019ء میں ہونے والے دھماکوں میں ہزارہ برادری کے 10 افراد سمیت 20 افراد کے جان بحق ہونے کے بعد دھرنا دیا گیا۔ یہ دھرنا حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد ختم کیا گیا۔ گزشتہ اتوار کے روز ہونے والے سانحہ مچھ کے بعد ہزارہ برادری کی جانب سے دیا جانے والا دھرنا بھی اسی کا تسلسل تھا۔
مظلوم ہزارہ کانکنوں کا اندوہناک قتل کسی طرح سے بھی قابل قبول نہیں۔ کوئی بھی ریاست اپنے عوام کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی۔ سانحہ مچھ کے بعد پورا پاکستان ہزارہ برادری کے غم میں برابر کا شریک تھا‘ لیکن پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ صورتحال الجھ گئی۔ ہزارہ برادری 6 دن تک اپنے مقتولین کی میتوں کو سڑک پر رکھ کر بیٹھی رہی۔ مقتولین کے لواحقین غم کی شدت سے نڈھال اپنے پیاروں کے لاشے سڑک پر رکھ کر وزیراعظم کو انصاف کی دہائی دے رہے تھے۔ ان کے دو ہی مطالبے تھے: وزیر اعظم آئیں اور دلاسہ دیں‘ دہشتگردوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ دونوں مطالبے جائز ہیں۔ وفاقی وزیر علی زیدی، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور وزیراعظم کے مشیر زلفی بخاری کوئٹہ میں ریاست کے نمائندے کے طور پر موجود رہے‘ لیکن دھرنا انتظامیہ مصر تھی کہ وزیر اعظم آئیں گے تو میتوں کی تدفین ہو گی۔ ایسے میں پی ڈی ایم کے رہنما کوئٹہ پہنچے۔ شہدا کے لواحقین کو پُرسہ دیا۔ اپوزیشن کی طرف سے حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں ان کے ماضی میں دئیے گئے بیان یاد دلائے گئے۔ 2013ء میں ہزارہ برادری کے 100 افراد کے جان بحق ہونے کے موقع پر عمران خان نے اس وقت کے صدر آصف زرداری کو حملوں کا ذمہ دار قرار دیا اور کوئٹہ نہ آنے پر ان مذمت کی تھی۔ اب ان پر بھی ویسی ہی تنقید کی گئی تو ان کا جواب تھاکہ ملک کے وزیر اعظم کو اس طرح بلیک میل نہیں کیاجا سکتا‘ انہیں دھرنے میں جانے کی سکیورٹی کلیئرنس نہیں مل سکی۔ اب شاید انہیں اندازہ ہوا ہو گا کہ جب وہ تنقید کر رہے تھے تو غلط تھے کیونکہ حکمرانوں کی بھی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر نہیں مارتے۔ ہزارہ برادری پر ہونے والے مظالم کا کوئی مداوا نہیں۔ انسانی جان کے بدلے کسی بھی معاوضے کی کوئی حیثیت نہیں۔ جو جا چکے انہیں واپس لانا ممکن نہیں، لیکن جو رہ گئے ان کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پہلی بار ہزارہ برادری کے مطالبات کو تحریری معاہدے کی شکل دی گئی ہے۔
دنیا بھر میں موجود لگ بھگ ایک کروڑ ہزارہ افراد کی سب سے زیادہ تعداد (65 لاکھ) افغانستان میں ہے۔ دوسرے نمبر پر تقریباً 10 لاکھ افراد پاکستان اور پھر ایران، متحدہ عرب امارات، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ اور ترکی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ماسوائے افغانستان اور پاکستان کے، ہزارہ برادری امن و چین کی زندگی بسرکر رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان پچھلی 4 دہائیوں سے عالمی طاقتوں کی پراکسی وار کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کی حکومتوں کو دباؤ اور عدم استحکام سے دوچار رکھنے کیلئے دیگر حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ہزارہ برادری اپنے خاص پوٹینشل کی وجہ سے ان اہداف میں سر فہرست ہے کیونکہ جب بھی ہزارہ برادری زد میں آتی ہے تو اس کا اثر پوری دنیا میں محسوس کیا جاتا ہے۔ عالمی استعماری طاقتیں نہتے، کمزور ہزارہ کو نشانہ بنا کرفوائد حاصل کرتی ہیں۔ پاکستان ایک عرصے سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں برسر پیکار ہے۔ پاکستانی، اب تک ایک لاکھ کے قریب سول اور سکیورٹی فورسز کے شہدا کی قربانی دے چکے، 100 ارب کا معاشی نقصان کرچکے۔ اب پاکستان دہشتگردی کی اس پراکسی وار سے نکل رہا ہے جو مخصوص طاقتوں کوناپسند ہے۔ اسی لئے دباؤ بڑھایا جارہا ہے‘ لہٰذا بحیثیت ذمہ دار قوم ہمیں ان معاملات پر سیاست سے گریز کرنا چاہئے۔