تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     10-01-2021

قتل وغارت گری کا خاتمہ

ہمارے معاشرے میں ایک عرصے سے قتل وغارت کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت سے ایسے ہولناک واقعات رونما ہو چکے ہیں جن پر پوری قوم نے شدید دکھ اور اضطراب کو محسوس کیا۔ آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والے حملے کی کسک تاحال ہر باشعور اور محب وطن شہری کے دل میں موجود ہے۔ اس کے بعد سانحہ ساہیوال میں جس انداز سے نہتے شہریوں کو خون میں نہلایا گیا اس پر بھی پورے ملک میں دکھ اور کرب کو محسوس کیا گیا۔ چند روز قبل اسلام آباد میں بھی ایک نوجوان کو پولیس نے گولیوں کا نشانہ بنا دیا۔ ملک کے مختلف مقامات پر سیاسی اختلافات ‘ فرقہ واریت اور قومی عصبیتوں کی بنیاد پر بھی قتل وغارت گری کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ حالیہ ایام میں ہزارہ برادری کے افراد کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ۔قتل وغارت گری کے نتیجے میں مقتول کے پسماندگان پر جو کچھ بیت جاتا ہے اس سے صحیح معنوں میں وہی شخص آگاہ ہو سکتا ہے جس نے اس قسم کے واقعات کو اپنے خاندان یا اپنے گردونواح میں رونما ہوتے ہوئے دیکھا ہو ۔ ملک میں جب بھی قتل کا کوئی واقعہ رپورٹ ہوتا ہے مجھے 23 مارچ 1987ء کی وہ رات یاد آ جاتی ہے جب والد مرحوم علامہ احسان الٰہی ظہیر کو ایک بم دھماکے میں اپنے رفقا کے ہمراہ نشانہ بنایا گیا تھا۔ آپ کے بہت سے رفقا موقع پر ہی جان بحق ہو گئے‘ مگرآپ کی صحت کو دیکھ کر ڈاکٹر پراُمید تھے کہ آپ کی زندگی کے سانس ابھی باقی ہیں۔ آپ عیادت کرنے والے لوگوں کے ساتھ گرمجوشی سے پیش آتے اور حوصلے میں تھے ‘ لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے سرکاری طور پر آپ کے علاج کی پیشکش کی‘ آپ کو میوہسپتال لاہور سے ریاض کے ملٹری ہسپتال میں منتقل کیا گیا لیکن آپ کی زندگی کے لمحات پورے ہو چکے تھے؛ چنانچہ آپ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہر خوشی اور غمی کے لمحات میں آپ کی یاد آتی رہی اور جب بھی کبھی خوشی کا موقع آتا آپ کی کمی محسوس ہوتی اور جب کبھی غم کا موقع آتا آپ کی کمی پہلے سے بڑھ کر محسوس ہوا کرتی تھی۔ زندگی کے طویل ماہ وسال کے دوران ہمیشہ ان کی کمی کو محسوس کیا جاتا رہا اور کئی عشرے گزرنے کے باوجود آج بھی ان کے خلا کو محسوس کیا جاتا ہے۔ 
قتل وغارت گری کے واقعات میں جان بحق ہونے والے بہت سے لوگ اپنے خاندانوں کے کفیل ہوتے ہیں اور اُن کے چلے جانے کے بعد خاندانوں میں سماجی اور معاشی اعتبار سے ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جو مدت ِمدید تک پورا نہیں ہو پاتا۔ قتل وغارت گری کو روکنے کے لیے ہمیں ریاستی ‘ معاشرتی اور انفرادی سطح پر بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے جن میں سے بعض اہم اقدامات درج ذیل ہیں:
1۔ معاشرے کی تربیت: والدین‘ اساتذہ اور علما کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کی احسن انداز میں تربیت کریں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں لوگوں کو اس بات سے آگاہ کریں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک کو بچا لینا گویا پوری انسانیت کو بچا لینا ہے۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 32میں کچھ یوں فرمایا ہے : ''جس نے قتل کیا کسی جان کو بغیر کسی جان (قصاص) کے یا زمین میں فساد مچانے کے تو گویا کہ اس نے قتل کیا تمام لوگوں کو اور جس نے (کسی کو ناحق قتل سے بچا کر ) زندگی دی اُسے تو گویا کہ اس نے زندگی دی تمام لوگوں کو‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 93 میں مومن کے قتل کی شدید انداز میں مذمت کرتے ہوئے اس کی سنگینی کو اس انداز میں اجاگر کیا ہے: ''اور جو قتل کر ڈالے کسی مومن کو جان بوجھ کر تو اُس کی سزا جہنم ہے ہمیشہ رہے گا اُس میں اور غضب کیا اللہ نے اُس پر اور لعنت کی اُس پر اور تیار کر رکھا ہے اُس کے لیے بڑا عذاب‘‘۔ احادیث مبارکہ میں انسانوں کی جان اور عزت کی حرمت کو بہت ہی خوبصورت اور واشگاف انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ 
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو رسول اللہ ﷺنے منیٰ میں خطبہ دیا‘ خطبہ میں آپ ﷺنے پوچھا: لوگو! آج کون سا دن ہے؟ لوگ بولے: یہ حرمت کا دن ہے‘ آپ ﷺنے پھر پوچھا :اور یہ شہر کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ حرمت کا شہر ہے۔آپ ﷺنے پوچھا :یہ مہینہ کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ حرمت کا مہینہ ہے‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: بس تمہارا خون‘ تمہارے مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جیسے اس دن کی حرمت‘ اس شہر اور اس مہینہ کی حرمت ہے‘ اس کلمہ کو آپ ﷺنے کئی بار دہرایا...
اس حدیث پاک سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے انسانی جان کی حرمت کو کس حد تک اجاگر کیا اور خونِ ناحق کو کس قدر نا پسند فرمایا ہے ۔ ایک اور حدیث پاک میں مسلمان کو گالی دینے اور اس کو قتل کرنے کی بڑے بلیغ انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ''کہ مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے‘‘۔
2۔برداشت اور صبر کا سبق: ہمارے معاشرے میں لوگ عدم برداشت اور بے صبری کے راستے پر چل پڑے ہیں اور معمولی معمولی بات پر ایک دوسرے کی عزت اور جان کے درپے ہو جاتے ہیں۔ معاشرے میں اثر ورسوخ رکھنے والی تمام شخصیات جن میں ہمارے والدین‘ اساتذہ اور مذہبی رہنما اور سیاسی قائدین شامل ہیں انہیں معاشرے میں صبر‘ برداشت ‘ تحمل اور بردباری کے فروغ کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے اور لوگوں کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ نقطہ نظر کے اختلاف کے باوجود دوسروں کو برداشت کرنا اور کسی ناپسندیدہ بات پر صبر کرنا معاشرے کی بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔معاشرے کی ترویج اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اخلاق اور ادب کے دامن کو کسی بھی طور نہ چھوڑا جائے۔ اگر معاشرے میں ادب‘ اخلاق ‘ صبر اور تحمل کو فروغ حاصل ہو جائے تو یقینا معاشرے میں قتل وغارت گری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے معاشرے کے تمام طبقات اور مؤثر لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر معاشرے کے تمام طبقات اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں تو یقینا معاشرے میں رواداری اور تحمل کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔ 
3۔قانون کا نفاذ: معاشرے میں قیامِ امن کیلئے قانون کا نفاذ انتہائی ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جرم وسزا کا نظام صحیح طور پر مؤثر نہیں۔ سفارش‘ اثرورسوخ اور دیگر ذرائع سے کئی مرتبہ مجرم بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مجرم خواہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو اس کو اس کے جرم کی قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اگر معاشرے میں جرائم کی قرار واقعی سزا ملنا شروع ہو جائے تو معاشرہ ہر قسم کی قتل وغارت گری سے پاک ہو سکتا ہے۔احادیث مبارکہ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے عہد ِمبارک میں جب بھی کبھی قتل وغارت گری کے واقعات رونما ہوئے تو ان کا بڑی شدت کے ساتھ تدارک کیا گیا۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں: 
1۔صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ (قبیلوں) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول اللہﷺ نے انہیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ پئیں؛ چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول اللہﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے وہ جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول اللہﷺ کے پاس (اس واقعہ کی) خبر آئی۔ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور (مدینہ کی) پتھریلی زمین میں ڈال دئیے گئے۔ (پیاس کی شدت سے) وہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے (ان کے جرم کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے) کہا کہ ان لوگوں نے چوری کی اور چرواہوں کو قتل کیا اور (آخر) ایمان سے پھر گئے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی۔
2۔صحیح بخاری میں ہی حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک (انصاری) لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان میں رکھ کر کچل دیا تھا۔ لڑکی سے پوچھا گیا کہ تمہارا سر اس طرح کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں شخص نے کیا؟ فلاں نے کیا؟ آخر یہودی کا بھی نام لیا گیا (جس نے اس کا سر کچل دیا تھا) تو لڑکی نے سر کے اشارے سے ہاں میں جواب دیا۔ پھر وہ یہودی بلایا گیا اور آخر اس نے بھی اقرار کر لیا اور نبی کریمﷺ کے حکم سے اس کا بھی پتھر سے سر کچل دیا گیا۔
جرم وسزا کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والے کی سماجی اور سیاسی حیثیت کو نظر انداز کر کے اس کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر ان نکات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو یقینا معاشرے سے قتل وغارت گری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے سے قتل وغارت گری کا خاتمہ کرکے اسے پر امن اور پرسکون معاشرے میں تبدیل فرمائے۔ آمین

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved