تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     11-01-2021

’’جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے…‘‘

امریکی سیاست دان اور مبصرین بجا کہہ رہے ہیں کہ چھ جنوری ان کی تاریخ کے بد ترین دنوں میں سے ایک دن تھا۔ کبھی ایسا پہلے نہ ہوا‘ نہ اس کی توقع تھی کہ دنیا کی طاقتور ترین ریاست کا طاقتور صدر اپنے حامیوں کو واشنگٹن آنے کی ترغیب دے اور مخاطب ہو کر برملا اکسائے کہ کانگریس (مقننہ) کی عمارت پر دھاوا بول دو۔ ہر طرح سے یہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا سانحہ ہے۔ در حقیقت پچھلے کچھ عرصے میں امریکی معاشرے میں نسلی‘ سیاسی اور نظریاتی تقسیم اتنی بڑھی ہے کہ اب قطبین کو چھو رہی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاست کے میدان میں اترنا‘ ری پبلکن کی قیادت باہر سے آ کر سنبھالنا اور قدامت پسند‘ نسل پرست گروہوں کو اپنے پیچھے کھڑا کر لینا‘ معاشرتی تقسیم کا فیض ہے۔ ایک زیرک‘ چالاک اور بے اصول شخص کے لئے ان حلقوں کی ذہنی افتاد کو سمجھنا اور اس کے مطابق اپنا سیاسی نصب العین طے کرنا روایتی سیاست کا حصہ ہے۔ اقتدار کے حصول کے لئے سب کچھ کر گزرنے والے اپنا مطلب نکالنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ ان کو اس سے کبھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ سیاسی رہنما ویسے تو کئی قسموں اور رنگوں میں ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں‘ مگر کھردری تقسیم کریں تو ان کی دو ہی صنفیں بنتی ہیں۔ ایک وہ جو عوام اور معاشرے کو راستہ دکھاتے ہیں‘ رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں‘ جو سچ سمجھتے ہیں اور جو عوام کے مفاد میں بہتر خیال کرتے ہیں‘ وہی کرتے ہیں۔ وہ اخلاقی جرأت رکھتے ہیں کہ لوگوں کو کہہ سکیں: آپ غلط کہہ‘ سوچ اور کر رہے ہیں اور آپ کی خواہشات اور توقعات قومی اور عوامی مفادات کے خلاف ہیں۔ تاریخ میں‘ اور اب بھی ایسی مثالیں موجود ہیں‘ مگر خال خال۔ اکثر سیاسی لوگ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ مقصد اگلا الیکشن جیتنا اور اقتدار میں آنا ہوتا ہے۔ بے شک وہ معاشرے اور عوام کے مفاد کے خلاف ہو مگر سستی شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے لئے ہر کام کر گزرتے ہیں اور ہر وہ بات کہنے کے لئے تیار رہتے ہیں‘ جس سے ان کے سیاسی قد میں کچھ اضافہ ہو سکے۔ سیاسی زبان میں ہم اسے پاپولزم کہتے ہیں۔ پاپولزم یعنی آپ وہی کچھ کریں جو غالب اکثریت کی خواہش ہے۔ یہ ایک کارگر سیاسی تدبیر تو ہو سکتی ہے مگر اس کا انجام معاشرے میں سیاسی تقسیم‘ تصادم اور پیچیدہ ملکی مسائل کو حل کرنے سے پسپائی کی صورت میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ 
گزشتہ دس برسوں میں خصوصاً جمہوری ممالک میں بلا تخصیص منزلِ ارتقا و ترقی‘ پاپولزم ایک خوفناک سیاسی وبا کی صورت پھیلا ہے۔ پہلے کچھ امور کا تعین عوامی جذبات کے پیشِ نظر کر کے انہیں جماعتی منشور‘ سیاسی بیانات اور تقاریر کا حصہ بنا کر ہر سطح پر اجاگر کیا جاتا ہے‘ مگر معاشروں میں پہلے سے ہی اس سے کہیں زیادہ ہیجان کی کیفیت ہے۔ جذباتیت‘ خود غرضی اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات ہے۔ امیر زیادہ امیر‘ غریب زیادہ غریب ہوتے جا رہے ہیں اور کچھ حلقوں میں اپنی ناکامیوں کے لئے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کی روایت نے جمہوری معاشروں میں عدم استحکام کی حالت قائم کر رکھی ہے۔ یہ طبقات‘ ان طبقات کی آمدنیاں‘ رہن سہن کے انداز اور معاشی و سیاسی طاقت میں ان کی حصہ داری‘ یہ معاملات کبھی ختم نہیں ہوئے‘ نہ ہی ہو سکتے ہیں۔ اب بھی ایسا ہی ہے‘ مگر فرق یہ ہے کہ عوامی سطح پر احتجاج کی سیاست نے زور پکڑا ہے۔ ایک طبقہ سڑکوں پر نکل کر انصاف کی امید میں اور اپنے مطالبات منوانے کے لئے جھنڈے لے کر میدان میں اترتا ہے تو دوسرے بھی پیچھے رہنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ تیز رو برقی میڈیا نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ مغربی دنیا ہو یا مشرقی برقی میڈیا‘ دونوں مسابقت کی دوڑ میں ہر وقت نئی خبر کی تلاش میں ہیں اور اب احتجاج اور سڑکوں پر لوگوں کے جلوسوں سے بہتر کوئی اور چونکا دینے والی خبر نہیں ہے۔ امریکہ میں تو میڈیا گلی گلی‘ گائوں گائوں اور شہر شہر پھیل چکا ہے۔ شام کی مقامی خبروں کی ابتدا اب موسم‘ کھیل اور ٹریفک کے معاملات سے کہیں زیادہ جرائم سے شروع ہوتی ہیں۔ کئی دہائیوں سے وہاں عوام کو دو تصویریں دکھائی جاتی رہی ہیں۔ ایک‘ غلط کار ڈاکو‘ چور اور قاتل اور دوسرا‘ اس کو پکڑنے والا پولیس کا سپاہی۔ برائی اور اچھائی کی دو متضاد قوتیں۔ امریکہ کے حوالے سے تو اکثر پکڑنے والی پولیس کی غالب اکثریت سفید فام اور زمین بوس کرنے کے بعد ہتھکڑیاں جنہیں ڈالی جاتی ہیں‘ وہ سیام فام ہوتے ہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں پولیس کے ہاتھوں نہ جانے کتنے سیاہ فام نوجوان قتل ہوئے ہیں‘ لیکن مقدمہ نہیں بنتا، تحقیق ضرور ہوتی ہے مگر اکثر یہ مشاہدے میں آتا ہے کہ پولیس کو حق بجانب قرار دے دیا جاتا ہے۔ امریکہ ہو یا یورپ کے معاشرے‘ نسلی تقسیم ہمیشہ قدامت پسند اور قومیت پرست حلقوں میں غالب رہتی ہے۔
نسلی تفاوت کئی جہتی تقسیم کا فقط ایک پہلو ہے۔ قوانین سخت ہونے کی وجہ سے براہ راست نسل پرستی کی بات تو سیاست دان نہیں کرتے‘ مگر جن سیاسی اور سماجی نظریات کا وہ پرچار کرتے ہیں‘ اس سے نسل پرستی کی بو آتی ہے۔ بارک اوبامہ کا امریکی صدر بن جانا اور اس میں سیاہ فام ووٹروں کا کلیدی کردار قدامت پسند سفید فام طبقات کو ہضم نہیں ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی افق پر ابھرنا اس کا رد عمل تھا۔ اس نے مضافات میں رہنے والے ہم نسل لوگوں کو متحرک کیا‘ ان کی مایوسیوں کو زبان دی اور قوم پرستی‘ جو موجودہ دور میں تقریباً دم توڑ چکی تھی‘ کو ایک نئی زندگی عطا کر دی۔ 'سب سے پہلے امریکہ‘ کا نعرہ لگایا‘ اور چین اور امریکہ کے ہمسایہ ممالک کو امریکی زوال کا ذمہ دار قرار دیا۔ اعادہ کرتا ہوں کہ مایوسی پہلے سے موجود تھی اور کچھ حلقوں میں ہمیشہ رہتی ہے‘ مگر ٹرمپ نے اس مایوسی کو زبان دی اور نجات دہندہ کے طور پر وہ سامنے آئے۔ اقتدار میں آنے کے بعد چار سال تک وہی مکالمہ جاری رہا۔ سیاسی قطبیت بڑھتی گئی۔ نومبر کے انتخابات میں ایک سو بیس سال کا ووٹوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتی‘ دوسری طرف ان کے مخالفین۔ اس مرتبہ اگرچہ وہ ہار گئے‘ لیکن ووٹوں کی تعداد ان کے پلڑے میں چار سال پہلے کی نسبت زیادہ تھی۔ 
جمہوری ممالک کے سیاست دان قیادت کی بنیادی ذمہ داری بھول چکے ہیں۔ قیادت کا کام لوگوں کو اکٹھا رکھنا ہوتا ہے‘ سیاسی اور سماجی فاصلے کم کرنا ہوتا ہے‘ ایک قدم آگے بڑھ کر مخالفین کو اکٹھا چلنے کی دعوت دینا ہوتا ہے۔ ہم تو شروع ہی سے گالی گلوچ‘ ذاتیات‘ تضحیک اور نفرت کی سیاست دیکھتے آئے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ مخالفین کا قتل‘ جعلی مقدمات‘ خواتین کی بے حرمتی اور یہاں تک کہ صحافی‘ دانشور اور ادیب تک ہمارے بڑے عوامی رہنمائوں کے انتقام سے بچ نہ سکے۔ یاد ہے؟ استاد دامن کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ حبیب جالب‘ فیض احمد فیض اور کیا کیا نام لیں‘ کیوں زیر عتاب آئے۔ یقین جانیں‘ روزانہ نفرتیں پھیلانے اور زہریلی زبانیں استعمال کرنے والوں سے دل گھبرانے لگا ہے۔ معاشرے اور عوام کو آگ لگانے اور آگ میں جھونکنے کے مترادف ہے۔ کیا کہیں کہ جس جمہوریت کو دنیا میں ہم مثال کے طور پر پیش کرتے تھے‘ آج نفرتوں‘ تقسیم اور قطبیت کا شکار ہے۔ وہ جمہوریت جس کے اسیر ہم ایک زمانے سے ہیں۔ ان کا نظام پختہ‘ ان کا جمہوری روایات پر ایمان گہرا اور ادارے آزاد اور غیر جانب دار سہی‘ مگر جو بگاڑ صدر ٹرمپ پیدا کر کے جا رہے ہیں‘ اس کے اثرات دور رس ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved