تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     11-01-2021

ڈو مور امریکہ

ایک سلائیڈ شو ہے جو ایک تصویر سامنے کرتا ہے، چند ثانیوں بعد ہٹاتا ہے اور ایک نئی تصویر پیش کردیتا ہے۔ اس کی جزئیات دیکھ کر ابھی حیرت عروج پر ہوتی ہے کہ ایک نئے زاویے سے ایک نئی تصویر۔ پھر ایک اور۔ بڑے گنبد والی عمارت کیپیٹل ہل، واشنگٹن، امریکہ کی عمارت پر رکاوٹیں توڑتے، پولیس کو روندتے، دیواریں پھلانگتے ہجوم کی تصویریں۔ روکنے والوں کو دھکے دیتے، بدزبانی کرتے، ہر چیز کو تہس نہس کرتے لوگ۔ جہاں سیڑھیاں نہ ملیں وہاں رسیوں کی مدد سے بالائی منزلوں پر چڑھتے مظاہرین۔ کیمروں کو منہ چڑاتے، اپنے موبائلوں سے ویڈیوز بناتے اور پھیلاتے عوام۔ شروع میں راستہ روکتے اور بعد میں آرام سے راستہ دیتے اور اہم جگہوں تک رہنمائی کرتے پولیس کے باوردی افراد۔ ٹانگ میز پر پھیلا کر سپیکر کے کمرے میں کرسی پر بیٹھا شخص۔ وائی کنگ بادشاہ کے سینگوں والے ہیڈ ڈریس میں فر کی کھال پہنے، برہنہ بالائی دھڑ اور رنگے ہوئے چہرے والا نوجوان جو ہاتھ میں امریکہ کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے۔ ہر اہم جگہ، کمرے، ایوان پر اپنی سیلفی بناتا اور اسے لائیو نشر کرتا ہوا چہرہ۔ فائلوں اور کاغذات کو فرش پر بکھیرکر اس سے گزرتے پرجوش لوگ۔ قانون ساز اسمبلی کے بڑے ہال میں پہنچ کر خوشی سے بدمست ہوتے ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی۔ گولی کھا کرقالین پر گری ہوئی خاتون جس کی بعد ازاں موت واقع ہوگئی۔ نعرے لگاتا چیزیں گراتا ہجوم جس میں سب کے چہروں پر تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ لکھا ہوا ہے۔ حفاظتی اقدامات تھے ہی ناقص یا جان بوجھ کر انہیں راستہ دیا گیا ہے۔ دونوں طرح کی خبریں آرہی ہیں۔ خبریں ہی نہیں تصویریں اور ویڈیوز بھی۔ سلائیڈ شو ہے کہ رک نہیں رہا۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ یہ امریکہ اور دنیا کے طاقتور ترین اور مہذب ترین لوگوں کا سب سے با اختیار ایوان ہے۔ کیپیٹل ہل۔ امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے اکٹھے ہونے کا ہال۔ اگر دنیا کی مقتدر ترین عمارتوں کی فہرست بنائی جائے تو یہ بلاشبہ پہلے تین نمبروں میں کہیں ہوگی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سب سے بڑا ایوان۔
دنیا کی بڑی اور نامور جمہوریتوں نے‘ جن کے ڈھول پوری دنیا میں ایک زمانے سے پیٹے جارہے ہیں، گزشتہ چند سال میں جو عبرتناک مناظر دیکھے ہیں وہ باقی دنیا کیلئے ایک مضحکہ خیز تماشے سے کم نہیں۔ برطانیہ عظمیٰ اور امریکہ بہادر ان کی محض دو مثالیں ہیں۔ کیپیٹل ہل، امریکہ کے یہ مناظر تو خیر پستی، بد انتظامی، شکست کو تسلیم نہ کرنے کی بد ترین مثالیں ہیں لیکن جس جس طرح ان گزشتہ ماہ و سال نے امریکی عوام اس کے سربراہ، اس کے نظام کا پول کھولا ہے، دنیا کے کسی ملک کا بھرم اس طرح نہیں کھلا۔ نظام کو بھی ایک طرف رکھیے۔ وہ شخص جو 2016 میں اپنے تمام پس منظر کے ساتھ اور اس کے باوجود امریکہ کا صدر بنا اور جس کے باقی اقتدار کے دن گنے چنے ہیں، اس متمدن، متمول ملک کے لیے داغ ہے۔ کون سی قسم ہے رعونت اور بدتمیزی کی، جو اس کے یہاں پائی نہیں جاتی؟ کون سی بدتہذیبی ہے جس کا عملی مظاہرہ نہیں ہوا؟ کون سی جمہوری قدر ہے جو ملیامیٹ نہیں ہوئی؟ کون سا تعصب ہے جو زبانی اور عملی طور پر ظاہر نہیں کیا گیا؟ یہ سب ناقابل تردید ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر کوئی بھی شخص جس کا رویہ سراسر غیر جمہوری ہو، اگر مخصوص ہتھیاروں اور وسائل سے لیس ہوتو دنیا کی طاقتور ترین کرسی تک پہنچ سکتا ہے۔
وہ دراڑیں جو اس نظام میں بہت مدت سے نمایاں ہورہی تھیں، اس دور میں بہت واضح ہوکر سامنے آگئی ہیں۔ دنیا کے کسی اور ملک کے دستور ساز ایوان میں یہ طوفان بدتمیزی بپا ہوا ہوتا تو امریکہ کے تبصرے فوراً سامنے آتے۔ ان تبصروں میں خیر خواہی یا دنیا کی بھلائی کی تو رمق بھی ڈھونڈے سے نہیں مل سکتی؛ البتہ رعونت دیکھنے کیلئے کسی عینک کی ضرورت نہیں۔
آپ ذرا گردوپیش پر اور دنیا کے ممالک پر تفصیلی نظر ڈالیں، بہت جلد یہ منکشف ہوجائے گاکہ اگر کوئی ایک ملک یا کوئی ایک قوم ہے جس سے پوری دنیا کی بیزاری اور نفرت کی حدوں تک پہنچی ہوئی ناپسندیدگی اپنی بلندیوں کو چھورہی ہے، تو وہ امریکہ ہے۔ اور اس میں مسلم ممالک کی قید نہیں ہے چنانچہ واشنگٹن کی ہلڑ بازی اور مظاہروں پر دل جلی قوموں اور ملکوں کی طرف سے ایسے ایسے سرکاری اور غیرسرکاری تبصرے ہوئے ہیں کہ بس۔ چین، ترکی اور ایران کہاں پیچھے رہنے والوں میں تھے۔ چین کے سرکاری میڈیا گروپ نے ٹویٹ کی جس میں جولائی 2019 میں ہانگ کانگ میں مظاہرین کے قانون ساز کونسل کی عمارت پر قبضے کی تصویر اور جنوری 2021 میں کیپیٹل ہل عمارت پر مظاہرین کے دھاوے کی تصویر ساتھ ساتھ جوڑی گئی ہیں۔ ہانگ کانگ کے اس مظاہرے کے وقت امریکی سینیٹ کی سپیکر نینسی پلوسی نے یہ تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا ''ایک خوبصورت نظارہ‘‘۔ گلوبل ٹائمز نے دونوں تصویریں جوڑ کر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ اب دیکھتے ہیں نینسی پلوسی اس نظارے کے متعلق کیا ارشاد فرماتی ہیں۔ ترکی کے سرکاری تبصرے میں ایک ایک لفظ کے پیچھے چھپی کاٹ محسوس کی جا سکتی ہے ''ہم گہری تشویش کے ساتھ امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ رہے ہیں اور ہم دونوں جماعتوں سے کہتے ہیں کہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ امید ہے کہ امریکہ اپنی جمہوریت کے ان داخلی مسائل پر قابو پالے گا۔ ترکی کے شہری ان دنوں امریکہ میں ہنگامہ آرائی کے مقامات سے دور رہیں‘‘۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ''ہم نے کل اور آج جو کچھ امریکہ میں دیکھا وہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ مغربی جمہوریت دراصل کتنی کمزور اور بودی ہے‘‘۔
جو ممالک بظاہر امریکہ کے دوست سمجھے جاتے ہیں انہوں نے بھی ان مظاہروں اور ان واقعات کو شرمناک اور تشویشناک قرار دیا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے، جو ٹرمپ کے قریبی حمایتی سمجھے جاتے ہیں‘ ٹرمپ کی حمایتیوں کے اس مظاہرے کی مذمت کی ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بھی کہا ہے ''مجھے دکھ اور غصہ ہے ان مظاہروں پر‘ اور اس بدامنی کیلئے ٹرمپ بھی ذمے دار ہیں‘‘۔ دنیا بھر کے دیگر سربراہان نے بھی سفارتی زبان میں دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں اور ان لفظوں کی گہرائی میں جایا جائے تو ان میں امریکہ کیلئے کسی ہمدردی کی لہر نظر نہیں آتی۔ 
دل جلے تو ہم مسلمان اور پاکستانی بھی بہت ہیں۔ بہت سے لفظ اور جملے میرے پاس بھی ہیں جو اس موقع پر امریکہ بہادر کو پیش کرنے کیلئے بے تاب ہوں۔ سرکاری نہ سہی، غیر سرکاری سہی لیکن میرے یہ جملے ان تک پہنچ جائیں تو شاید ان معاملات میں میری اہم تشویش بھی ان کے علم میں آ جائے اور میری تجاویز بھی۔
''ہم امریکہ کے معاملات اور بدلتی صورت حال پر لمحہ بہ لمحہ کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں‘ اور واشنگٹن کے پاکستانی سفارتخانے سے مکمل رابطے میں ہیں۔ دونوں جماعتیں ہنگامہ آرائی سے پرہیز کریں اور تشدد سے دور رہیں‘‘۔ 
''ہمارا تاثر یہ ہے کہ امریکہ جمہوریت سے اور ہم سے ڈبل گیم کھیلتا رہا ہے، اس لیے ہم اب تک کے اقدامات ناکافی سمجھتے ہیں‘‘۔ 
''ہمیں گہری تشویش ہے کہ امریکی جوہری ہتھیار محفوظ ہاتھوں میں رہیں اور وائی کنگ بادشاہ کے ہاتھوں میں نہ جائیں‘‘
''کیپیٹل ہل پر دہشت گردوں کی چڑھائی کے بعد ہماری کوشش ہے کہ ایسے عناصر پاکستان میں داخل نہ ہو سکیں؛ چنانچہ امریکی پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے پاکستانی امیگریشن کی پابندیاں سخت کی جارہی ہیں‘‘۔ 
''ہم بنیادی انسانی حقوق کے پیش نظر امریکی صدر ٹرمپ سے ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیپیٹل ہل کے بعد ابھی پینٹاگون باقی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved