''اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ہمارے انتہائی معزز کسٹمر اور مہمان ہیں لیکن ہمیں اپنے چند فرائض اور بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر آپ سے درخواست کرنا پڑ رہی ہے کہ اپنے سامان کی تلاشی دیجئے‘‘۔ ہوٹل سے چیک آئوٹ کیلئے کھڑے مسافروں سے جیسے ہی دبئی کے ایک عظیم الشان ہوٹل کی استقبالیہ پر کھڑے افسران نے یہ الفاظ کہے تو ان کو تو جیسے تن بدن میں آگ سی لگ گئی۔ انہوں نے اونچی اونچی آواز میں چیخنا چلانا شروع کر دیا جس پر انتظامیہ کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ اگر وہ کسی وجہ سے استقبالیہ پر اپنے سامان کی تلاشی دینے سے گریزاں ہیں تو ہوٹل کے سکیورٹی روم میں جا کر اپنے سامان کی تلاشی دے سکتے ہیں۔ جب اس پر بھی چیک آئوٹ کرنے والے مسافروں نے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کیا تو سکیورٹی آفیسر نے ان سے ایک مرتبہ پھر انتہائی مہذب انداز میں درخواست کرتے ہوئے کہا: آپ اگر ایسا نہیں کریں گے تو پھر ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا کہ پولیس کو رپورٹ کر دی جائے کیونکہ ہمیں شک نہیں‘ یقین ہے کہ ہوٹل کے ان کمروں سے‘ جہاں آپ قیام پذیر تھے‘ غائب ہونے والی انتہائی قیمتی ڈیکوریشن اشیا آپ کے سامان میں موجود ہیں۔ جب ہوٹل انتظامیہ نے پولیس بلانے کی دھمکی دی تو مسافروں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنے بیگ کھول دیے۔ ان بیگز کی تلاشی کے دوران نہ صرف قیمتی ڈیکوریشن اشیا برآمد ہو گئیں بلکہ اس سامان میں سے ہوٹل کے انتہائی قیمتی تولیے اور دوسرا چوری شدہ سامان بھی نکل آیا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ مسافر کس ملک اور کس قوم سے تعلق رکھتے تھے؟ شاید آپ میں سے اکثر کا دھیان اپنے ملک کی طرح افریقہ یا کسی غریب ترقی پذیر ملک کی جانب گیا ہو گا یا آپ انہیں جنوب ایشیائی ممالک کا کوئی فرد سمجھ رہے ہوں گے لیکن آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ یہ مسافر کوئی اور نہیں بلکہ ''اسرائیلی یہودی‘‘ تھے۔ ہم تو کل تک اپنے ہم وطنوں کو‘ چاہے وہ سیاستدان ہوں یا حکمران‘ ٹھگ اور لٹیرے کا خطاب دیتے رہے ہیں لیکن اب عقدہ کھلا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑے لٹیرے تو اسرائیلی ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد جیسے ہی اسرائیلی سیاحوں نے دبئی کا رخ کرنا شروع کیا تو ان کی پہلی فلائٹ امارات میں اترنے کے کوئی دو ہفتے بعد سے متحدہ عرب امارات کے بڑے بڑے ہوٹلوں کے کمروں میں رکھی جانے والی اشیا کی چوری کی شکایات ملنے لگیں۔ دبئی بھر میں پھیلے ہوٹلوں کی انتظامیہ اور سروسز کے شعبے حیران تھے کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ دنیا بھر سے امپورٹ کی گئی ایک ہزار سے دس ہزار ڈالر تک کے ڈیکوریشن پیس غائب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ دبئی کے سب سے بڑے، مہنگے اور عالیشان ہوٹل برج الخلیفہ کی انتظامیہ کو روم سروس کی جانب سے مسلسل شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں کہ ہوٹل کے کمروں سے ایسی اشیا غائب ہونا شروع ہو گئی ہیں جو اس کے مختلف سیکشنز کی جانب سے ہوٹل کے کمروں میں رکھی جاتی ہیں۔ اس پر ہوٹل انتظامیہ متحرک ہوئی اور مسافروں پر نظر رکھنا شروع کی۔ ہوٹل کے کمروں کے اندر چونکہ کیمروں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اس لئے سب سے پہلا شک وہاں کام کرنے والے سٹاف کی جانب گیا، ان سب کو بلا کر بار بار تفتیش کی جاتی رہی‘ ان کے سامان چیک کئے گئے لیکن کوئی راہ نہیں مل رہی تھی۔ ہوٹل کا بیشتر سٹاف پرانا اور قابلِ اعتماد تھا اور پہلے کبھی اس حوالے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی تھی، اس معاملے نے انتظامیہ کو چکرا دیا۔ ہوٹل کے چیف سکیورٹی آفیسر اور اعلیٰ انتظامیہ کی اس مسئلے پر کئی میٹنگز ہوئیں، ایسی ہی ایک میٹنگ میں کسی نے اچانک سوال اٹھایا کہ جن جن کمروں سے یہ قیمتی اشیا چوری ہوئی ہیں‘ ہوٹل کے ریکارڈ سے چیک کیا جائے کہ ان میں قیام کرنے والے افراد کا تعلق کہاں سے ہے، کیا وہ کسی ایک ملک سے تعلق رکھتے ہیں؟ ممکن ہے کہ اس طرح کوئی سراغ مل جائے۔ جنرل منیجر کسٹمر سروسز‘ جن کے شعبے کا سامان غائب ہو رہا تھا‘ کے اس سوال پر اجلاس میں موجود انتہائی اعلیٰ افسران نے عجیب سی نظروں سے اس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا بلکہ ایک صاحب نے تو اس سوال پر ''نان سینس‘‘ کہتے ہوئے اس پر غور کرنا بھی منا سب نہ سمجھا اور اجلاس یہ کہتے ہوئے برخاست ہو گیا کہ فی الحال اس معاملے کو نظر انداز کر دیا جائے اور آئندہ اس حوالے سے احتیاط کی جائے‘ کہیں ہوٹل سے اشیا کی چوری معمول نہ بن جائے۔ لیکن اس چوری کو روکنا کیونکر ممکن ہو سکتا تھا کیونکہ کیمرے رہائشی کمروں کے باہر نصب تھے‘ اندر جو کچھ کیا جاتا تھا‘ اس کی کسی کو کچھ خبر نہیں ہو سکتی تھی۔جنرل منیجر کسٹمر سروسز کا اٹھایا گیا سوال میٹنگ میں موجود ایک اعلیٰ عہدیدار کے دل کو لگا اورا س نے محض اپنے دل کی تسلی کیلئے کسی کو بتائے بغیر‘ اپنے طور پر ریکارڈ چیک کرنے کا ارادہ کر لیا اور چند دن کی تلاش کے بعد سامنے آنے والے نتائج نے اسے ششدر کر کے رکھ دیا۔ اس کی تحقیق اور ہوٹل ریکارڈ کے مطابق ہوٹل کے کمروں سے ہزاروں ڈالر مالیت کی نایاب ڈیکوریشن اشیا صرف اُن کمروں سے غائب ہوئی تھیں جہاں اسرائیلی سیاح اور مسافر آ کر ٹھہرتے رہے تھے۔ یہ ایسی خبر تھی جس نے اس افسر کو ہلا کر رکھ دیا البتہ اپنے طور پر وہ کوئی ایکشن لینے کی پوزیشن میں نہیں تھاکیونکہ مزید کارروائی امارات کے اعلیٰ اختیاراتی حکام کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
''ہم دنیا بھر کے سینکڑوں ممالک کے افراد کی میزبانی کر چکے ہیں، کئی افراد ہمارے لیے مسائل بھی پیدا کرتے رہے ہیں مگر اس سے پہلے چوری کے معاملات کبھی دیکھنے میں نہیں آئے‘‘۔ جنرل منیجر کسٹمر سروسز اور انتظامیہ کے اس افسر‘ جس نے ریکارڈ چیک کیا تھا‘ کی تحریری رپورٹ دیکھنے کے بعد اعلیٰ سطحی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ ہوٹل چھوڑنے والے ایسے تمام مسافروں‘ جن کے کمروں سے روم سروس کی جانب سے ہوٹل کی ملکیتی اشیا غائب ہونے کی رپورٹ دی جائے گی‘ کے سامان کی تلاشی لی جائے گی اور پھر اگلے روز جیسے ہی چند اسرائیلی سیاحوں کے سامان کی تلاشی لی گئی تو ان کے بیگز سے ہوٹل کے انتہائی قیمتی تولیے، چائے اور کافی کے ڈبے حتیٰ کہ لیمپ تک برآمد ہوئے۔ ایک دفعہ تو یہ بھی ہوا کہ ایک اسرائیلی فیملی‘ جو اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ ہوٹل میں قیام پذیر ہوئی تھی‘ کے سامان کی تلاشی لی گئی تو اس میں سے ہینگرز، آئس کنٹینر، گلدان اور جوتے تک برآمد ہوئے۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ فیملی اپنا سامان چیک کرانا تو دور کی بات‘ اسے ہاتھ لگانے کی بات سن کر ہی چیخنا چلانا شروع ہو گئی تھی لیکن جب سکیورٹی افسر نے پولیس کی دھمکی دی تو پھر سامان کھولتے ہی بنی۔
دبئی سے نکل کر یہ معاملہ اسرائیلی حکام تک بھی پہنچا اور اس پر اسرائیل کے تل ابیب سے شائع ہونے والے ایک قومی روزنامے YEDIOTH AHRONOTH نے اسرائیلی سیاحوں کے اس گھٹیا اور مجرمانہ فعل کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا کہ متحدہ عرب امارات کے ہر قابل ذکر ہوٹل کی انتظامیہ سر پکڑے بیٹھی ہے کہ اسرائیلی سیاحوں کی امارات آمد کے بعد سے ان کی بیش قیمت اور نایاب اشیا صرف اُن کمروں سے غائب ہونا شروع ہو گئی ہیں جن میں اسرائیلی سیاحوں کو ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ڈاکٹر عبدالعزیز الخزرج الانصاری ‘قطر کے معروف سوشیالوجسٹ اور ڈاکٹر ہیں۔ ایک وڈیو میں وہ کہتے ہیں کہ انہیں بہت سے اماراتی ہوٹل مالکان اورا علیٰ انتظامی افسران نے اپنے اپنے ہوٹل کے کمروں سے چوری ہونے والی اشیا اور ان کی اسرائیلی مسافروں سے برآمدگی کی حیران کن اطلاعات فراہم کی ہیں جنہیں دیکھ اور سن کر یقین ہی نہیں آتا۔ چونکہ یہ سب عمل باقاعدہ ریکارڈ کیا جاتا ہے اس لئے وڈیوز میں براہِ راست دیکھے جانے والے مناظر سب کے لیے ناقابل یقین تھے۔ اماراتی انتظامیہ اور حکومتی سطح پر اس مسئلے کو میڈیا کے سامنے لانا ایک مجبوری تھی تاہم کوشش کی گئی کہ اس ایشو کو دبا دیا جائے لیکن آج کے دور میں کوئی چیز مخفی رکھنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اسرائیلیوں کے کرتوت اب دنیا بھر کے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سب کا یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑے لٹیرے یہی اسرائیلی ہیں‘ چاہیں کسی کا وطن، کسی کی زمین اور گھر بار ہڑپ کر لیں‘ چاہے کسی میزبان کی گھریلو اشیا!