تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     12-01-2021

غمزدہ چہرے ، نم آنکھیں

کوئٹہ کی ہڈیوں میں خون جما دینے والی سردی نے دھرنے دینے والوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ سانحہ مچھ میں شہید ہونے والوں کی تدفین کا عمل مکمل ہوچکا تو ''بلیک میل‘‘ ہوئے بغیر‘ ہمارے وزیراعظم بھی اپنا دورۂ کوئٹہ مکمل کر چکے۔ اپنے دورے کے دوران اُنہوں نے متاثرین سے اظہارِ افسوس کیا۔ اِس عزم کا اعادہ بھی ہوا کہ ہزارہ برادری کی حفاظت کیلئے ہرممکن اقدامات کیے جائیں گے۔ سب کچھ ہوگیا لیکن ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اگر غمزدوں کا غم بانٹنے کیلئے وزیراعظم پہلے دن ہی کوئٹہ چلے جاتے تو اِس میں مضائقہ کیا تھا؟ہمیشہ سے یہی سنتے آئے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ معلوم نہیں کیوں ضد لگا لی گئی۔ اِس پر متعدد سیانے افراد سے بھی رہنمائی چاہی لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔ تمام سیانے اپنی آراکا اظہار تو کرتے رہے لیکن حتمی طور پر کچھ بھی کہنے سے قاصر دکھائی دیے۔ سو اِدھر تدفین کا عمل مکمل ہوا اور اُدھر وزیراعظم کوئٹہ پہنچ گئے۔
اِس سے ایک روز پہلے وزیراعظم صاحب کی مصروفیت کچھ یہ رہیں: اسلام آباد میں اُنہوں نے ترکی کے مشہور ڈرامہ سیریل ارطغرل کی بانی ٹیم سے ملاقات کی۔ اِس دوران چیف ایگزیکٹو صاحب نے کہا کہ برصغیر میں مسلمانوں کا دورِ تاریخ کا ایک شاندار باب ہے لیکن افسوس کہ ہماری نوجوان نسل اِس سے واقف نہیں ہے۔ کوشش کی جائے کہ اِس سنہری دور پر ڈرامہ سیریل بنا کر نوجوانوں کو اِس دور سے آگاہی فراہم کی جائے۔اُسی روز وزیراعظم صاحب کی زیرصدارت ہونے والے ایک اجلاس میں راوی اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کا جائزہ لیا گیا۔ قرار دیا گیا کہ حکومتی منصوبوں کے باعث معیشت کی ترقی اور روزگار کی فراہمی کے بے شمار مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کی کئی دیگر شخصیات سے بھی ملاقاتیںہوئیں اور متعدد دیگر منصوبوں کا جائزہ لیا گیا۔ غالب امکان تھا کہ اُسی روز وزیراعظم کے دورۂ کوئٹہ کا فیصلہ بھی ہوجائے گا اور دھرنا دیے شرکا کا مطالبہ پورا ہوجائے گا لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔کوئٹہ جانے کا فیصلہ تو نہ ہوسکا لیکن وزیراعظم صاحب کا ایک ٹویٹ ضرور سامنے آگیا۔ ٹویٹ میں اُنہوں نے دھرنے کے منتظمین سے اپیل کی تھی کہ وہ میتوں کی تدفین کردیں تاکہ مرحومین کی روحوں کو تسکین مل سکے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ وہ جانتے ہیں ہمارا ایک ہمسایہ ملک ہمارے ہاں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دے رہا ہے تاہم؛ حکومت آئندہ ایسے حملوں کو روکنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ ٹویٹ میں ہزارہ برادری کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ وہ اُن کے دکھوں کا مداوا کریں گے اور قوم کے اعتماد کو کبھی نہیں توڑیں گے۔سب کچھ ہوگیا لیکن میتوں کی تدفین سے پہلے کوئٹہ جانے کا فیصلہ نہ ہوسکا۔اِس کی جو بھی وجوہات ہوں‘ بادی النظر میں وزیراعظم کے کوئٹہ نہ جانے کے فیصلے کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔اُسی روز اُن کے ایک ترک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو کی کچھ تفصیلات بھی سامنے آئیں۔ اِس میں وہی باتیں دہرائی گئیں جو ہرحکمران کی طرف سے سن سن کر اب کان پک چکے ہیں۔ وزیراعظم نے ہمسایہ ممالک کو پاکستان میں بدامنی پر قصور وار ٹھہرایا۔ یہی وہ دن تھا جس دن پورے ملک میں مچھ سانحے کے خلاف دھرنے دیے گئے اور بھرپور احتجاج کیا گیا۔ پورے ملک میں ایک ہنگامی صورت حال رہی لیکن وزیراعظم تدفین سے قبل کوئٹہ جانے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ افسوس اِس بات پر بھی ہوا کہ جب دوسرے (اپوزیشن رہنما) اظہارِ تعزیت کے لیے کوئٹہ پہنچے تو اِسے لاشوں پر سیاست قرار دیا گیا۔ پریس کانفرنسز کے شوقین چند وزرا کے ایسے ایسے بیانات سامنے آئے جنہیں سن کر اور پڑھ کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ خیر‘ اب معاہدہ ہوچکا اور وزیراعظم بھی اپنے وعدے کے مطابق کوئٹہ کا دورہ مکمل کرچکے۔ عمران خان صاحب‘ اقتدار میں آنے سے پہلے ایک ایسے ہی واقعے پر تب کے صدر آصف علی زرداری کے لتے لیتے رہے تھے۔ اگرچہ تب اُس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کوئٹہ پہنچے تھے اور متاثرین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا تھا۔سانحہ مچھ کے زخم مندمل ہونے میں تو وقت لگے گا، ظاہر ہے کہ سانحہ کے زخم وقت کے ساتھ ہی بھریں گے؛ البتہ وزیراعظم صاحب کا یہ طرزِ عمل بھی تادیر گفتگو کا موضوع بنا رہے گا۔
بلوچستان کی ہزارہ برادری پر 2001ء سے لے کراب تک ہونے والے حملوں اور ظلم وستم کی تفصیل روح تک کو زخمی کر دیتی ہے۔ کبھی یہ جمعہ کی نمازوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بنے تو کبھی اِن کے جلوسوں پرحملے ہوئے۔ پورے پورے خاندان دہشت گردی کا نشانہ بن کر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ کئی ایک خاندانوںمیں تو کوئی مرد باقی نہیں بچا۔ حالیہ سانحے میں ایک بچے کی شہادت نے سب کو خون کے آنسو رلا دیا۔ بارہ‘ چودہ سالہ یہ بچہ اپنے والد کو ملنے کے لیے گیا تھا جہاں اپنے والد کے ساتھ وہ بھی دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اندازہ لگائیے کہ کتنے ظالم تھے وہ جنہوں نے بچے کی گردن پر بھی چھری چلا دی۔ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردی کے اتنے واقعات ہیں کہ اُن کی تفصیل لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ 2014ء میں اِس برادری پر ہونے والے ایک حملے کے دوران خوب صورت گڑیا ردا کی شہادت نے سینکڑوں میل دور لاہور میں بیٹھے ہمیں کئی روز تک خون کے آنسو رلائے تھے۔مچھ میں پیش آنے والے حالیہ واقعے پر بھی پوری قوم افسردہ دکھائی دیتی ہے۔ اب چاہے اِس سانحے پر کسی کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا جائے‘ دہشت گردوں نے تو اپنا وار کر دیا ہے۔ یہ داعش کے دہشت گرد ہوں یا پھر ایسا کرنے والوں کو بھارت کی اشیرباد حاصل ہو‘ کیا فرق پڑتا ہے؟ شکوے شکایات تو اپنوں سے ہوتی ہیں۔ جب کوئی اپنا درد نہ بانٹ سکے تو تکلیف کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ 
تکلیف اِس بات کی ہے کہ آخر یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔ معاشرے میں فروغ پذیر انتہاپسندی، عدم برداشت اور خود ساختہ انا جیسے معاملات کیسے ختم ہوں گے۔ ہمارے ملک کی شاندارروایات دم توڑتی چلی جارہی ہیں۔ سنتے ہیں کہ 1977ء سے پہلے یہ سب کچھ نہیں تھا۔ معاشرے میں رواداری تھی اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی۔ لوگ ایک دوسرے کے غم اور خوشیوں میں‘ انا کو درمیان میں لائے بغیر شریک ہوتے تھے۔ اقلیتیں بھی اُن حقوق سے لطف اندوز ہوتی تھیں جو اکثریت کے لیے رائج تھے۔ اینگلوانڈین، پارسی، ہندو، عیسائی حتیٰ کہ یہودی تک یہاں آزادانہ طور پر زندگی بسر کرتے تھے۔ گویا ہمارا ملک ایک گلدستے کی مانند تھا جس میں رنگ برنگے پھول تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ پھر ایک ایسی آندھی آئی جو اپنے ساتھ سب کچھ اُڑا کر لے گئی۔ یہاں پر کوئی اینگلوانڈین بچا نہ پارسی اور نہ ہی یہودی باقی رہے۔ سنانے والے حسرت سے سناتے ہیں کہ اِس آندھی کے شروع ہونے کے بعد سب کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ سب اپنی اپنی جانیں بچانے لگے۔ برداشت کی جگہ عدم برداشت اور رواداری کی جگہ فرقہ واریت نے لینا شروع کر دی۔ پورے معاشرے کے تارپود بکھر گئے اور پھر یہ سلسلہ کبھی نہ رک سکابلکہ انتہائوں کو پہنچتا چلا گیا۔ ایسی انتہاتک کہ ایک دور میں پورا ملک ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ اللہ بھلا کرے سکیورٹی فورسز کا جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر امن کو کسی حد تک بحال کردیا لیکن حالات اب بھی قابلِ اطمینان نہیں قرار دیے جا سکتے۔ معصوم ہزارہ برادری بھی اِسی انتہا کی لپیٹ میں آئی ہوئی ہے۔ باربارکے وعدوں کے باوجود اِن کے جان ومال کا تحفظ یقینی نہیں بنایا جا سکا۔ ہر بار یہی ہوتا ہے کہ سانحے کے بعد وہ غمزدہ چہروں اور نم آنکھوں کے ساتھ اپنے پیاروں کی لاشیں سامنے رکھ کر احتجاج شروع کر دیتے ہیں لیکن اب کے بار بہت کچھ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ اب کے بار ہمارے اپنوں نے زخموں پر مرہم لگانے سے انکار کردیا اور مرہم لگایا بھی تو ایسے کہ آنکھوں میں مزید نمی بھر دی اور چہروں پر غم کی لکیریں مزید گہری ہو گئیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved