پروفیسر گیرتھ مورگن (Gareth Morgan) نے اپنی معروف کتاب Images of Organization میں لکھا ہے کہ ہم آرگنائزیشنزکے بارے میں ایسے بات کرتے ہیں گویا وہ مشینیں ہیں‘ اور پھر اس کے نتیجے میں ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ لگے بندھے‘ مؤثر‘ قابلِ اعتماد اور پیش قیاسی (Predictable)انداز میں مشینوں کی طرح کام کریں۔پاکستان کے اکثر تعلیمی اداروں میں تعلیم کے اس میکانکی ماڈل کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ یہ ملازمین کی ذمہ داریوں کو چھوٹے یونٹوں میں تقسیم کرتا ہے‘ جس کی جانچ پڑتال اور نگرانی آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کے مشینی اور بیوروکریٹک ماڈل کا نتیجہ طاقت کا ارتکاز ایک نکتے پرہے۔دراصل فیکٹریوں کے پیداواری یونٹوں کے لیے اس نوعیت کی انتظامیہ کی تجویز پیش کی گئی تھی تاکہ بہتر پیداوارکو یقینی بنایا جاسکے اور جس کی نگرانی اور پیمائش آسانی سے کی جاسکے۔ یہ ماڈل کارپوریٹ سیکٹر میں مقبول ہے جہاں ملازمین کو روبوٹ سمجھا جاتا ہے اور ان سے یہ تو قع کی جاتی ہے کہ خیالات اور جذبات سے عاری ہوں ۔ جدید دور میں‘ مشہور فوڈ چینز مؤثر انتظام (Efficient Management) کی بہترین مثال ہیں۔
اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب مینجمنٹ کے کارپوریٹ ماڈل کا اطلاق تعلیمی تنظیموں پر کیا گیا۔ کارپوریٹ ماڈل کے اطلاق کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ اس سے تعلیمی اداروں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی‘ لیکن ایسا کرتے ہوئے اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کردیا گیا کہ فیکٹریاں اور تعلیمی ادارے دو مختلف اور مکمل طور پر الگ الگ ادارے ہیں جن کی ضروریات اور مقاصد ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور جن کی نگرانی(Supervision)کے لیے مختلف نقطہ ہائے نظر کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے بیشتر تعلیمی اداروں میں عام طور پر اساتذہ کے لیے ایک ماحول ملتا ہے جہاں ان کا دم گھٹتا ہے۔ جہاں وہ محض کٹھ پتلیاں ہیں جن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے انتظامیہ کی دی گئی ہدایات پر عملدرآمد کریں۔ کیونکہ سوچنے کا کام انتظامیہ کا ہے۔مینجمنٹ کے اس انتہائی منظم اور بیوروکریٹک ماڈل میں اساتذہ کے تخلیقی اقدامات (Creative Initiatives)بغیر کسی تامل کے ختم کردیئے جاتے ہیں اور انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کا کام سوچنا‘ تجویز کرنا یا کسی نئے کام کا آغاز نہیں بلکہ وہ تو محض روبوٹک انداز میں دیئے ہوئے کام کو انجام دینے کے لیے موجود ہیں۔ پیٹر سنجے (Peter Senge)نے اپنی معروف کتاب Schools That Learnمیں مشورہ دیا ہے کہ ہماری اسمبلی لائن سوچ ہمیں انسانوں کی قدرتی اقسام کو کسی حد تک ناگوار سمجھنے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ وہ مشین کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے ہیں۔ ایسے گھٹن زدہ ماحول میں وقت گزرنے کے ساتھ اساتذہ اپنا جذبہ‘ شوق اور اعتماد کھو دیتے ہیں اور مرکزی نگرانی کے ماحول میں محض روبوٹ بن جاتے ہیں۔
اداروں کی انتظامیہ کا خیال ہے کہ مینجمنٹ کا یہ مشینی (Mechanistic) نقطہ نظر ہی ایک محفوظ وضع (Mode)ہے۔ ایسا سمجھنے میں وہ اس حد تک درست ہوسکتے ہیں کہ مخالف آوازوں کی عدم موجود گی میں ''سب اچھا ‘‘ کی خبر ملتی ہے‘ جبکہ حقیقت میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے بھی اس نام نہاد عقلی انداز کے طرزِ عمل (Rational way of operating)کا شکار بن جاتے ہیں۔ اس صورتحال پر گیریتھ مورگن کا کہنا ہے کہ ملازمین اور تنظیمیں دونوں اس انتظام میں شکست سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو ملازمین ذاتی ترقی کے مواقع سے محروم ہوجاتے ہیں‘ وہ اکثر دن میں کئی گھنٹے کام پر خرچ کرتے ہیں لیکن ایسے کام کی نہ تو کوئی وقعت ہوتی ہے اور نہ ہی اس طرح کے کام میں مسرت کا کوئی سامان ہوتاہے۔دوسری طرف ادارے میکانکی مینجمنٹ کی وجہ سے اس ذہانت اورCreativity سے محروم رہ جاتے ہیں جو ادارے کے ملازمین ایک اچھے ماحول میں ادارے کو دے سکتے ہیں۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تعلیمی اداروں میں سیکھنے‘ سوچنے اور مختلف امور کے سر انجام دینے کے لیے ایک کھلا ماحول ہونا ضروری ہے؟ کیا اساتذہ کو تعلیمی آزادی دینا ضروری ہے؟ ان سوالوں کے جوابات اس فلسفۂ تعلیم پر منحصر ہوتے ہیں جس پر آپ یقین رکھتے ہیں۔ اگر انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ تعلیم کا کام محض ایسے طالب علم پیدا کرنا ہے جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوئی ملازمت حاصل کر کے معاشرے کا حصہ بن جائیں اور پھر معاشرے کے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے کولہو کے بیل کی طرح زندگی کے متعین کردہ راستوں پر چلتے رہیں تو اس کے لیے مینجمنٹ کا ایسا ہی ماڈل چاہیے جہاں سے ایسی ہدایات جاری کی جائیں جو نیوٹرل اور یک رخی ہوں۔ ایسے ماحول میں اساتذہ غیر فعال (Passive) کارکنوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ لیکن اگر انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف معاشرے کے مختلف حصوں میں فِٹ ہونا نہیں ہے بلکہ طلبا میں تنقیدی سوچ اور عکاس طریقوں کو بھی فروغ دینا ہے تاکہ وہ اپنے علم کو مختلف سیاق و سباق میں لاگو کرسکیں‘ تو اسے سیکھنے والی تنظیم کا طریقہ کار اپنانا چاہئے۔لرننگ آرگنائزیشن کا تصور کیاہے اور تعلیمی ادارے کو لرننگ آرگنائزیشن میں کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ اس میدان میں کافی لٹریچر دستیاب ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی ادارے کی اثر پزیری کے محدود تصور سے نکل کر تعلیمی اداروں کی ترقی کے ایک وسیع اور جامع نظریہ کو اپنایا جائے جہاں اساتذہ کی انفردی نمو اور ایک تنظیم کے طور پر تعلیمی ادارے کی ترقی (Organizational Development) ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
تعلیمی اداروں کولرننگ آرگنائزیشن میں تبدیل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اساتذہ کو نظام میں اہم سٹیک ہولڈر سمجھا جائے۔ ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں ملازمین کو پیشہ ورانہ اور انفرادی نشوونما اور ترقی کے مواقع میسرہوں۔ لرننگ آرگنائزیشن تجسس اور تحقیق کے جذبے کے گرد گھومتا ہے۔ یہ جذبہ نصاب‘ درس و تدریس‘ نظامِ امتحان اور تحقیقی منصوبوں میں جھلکنا چاہئے۔ تعلیمی اداروں کو مشترکہ فیصلہ سازی کے کلچر کی بھی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے جو باہمی ملاقاتوں اور مکالموں کے ذریعے ممکن ہے۔ انتظامیہ کے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ تخلیقی کشمکش (Creative Conflict) اداروں کی نشوونما کے لیے کارآمد ہوتی ہے اور انہیں ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے شعوری کوششیں کرنے کی ضرورت ہے جہاں اساتذہ کو ایسا لگے کہ وہ محض مشین نہیں جن کی حرکات و سکنات اور سوچ پر ان کا کوئی اختیار نہیں بلکہ انہیں یہ یقین ہو کہ ان کی ملازمت ایک با معنی کام ہے۔مقصد کا یہ احساس کام کو مسرت آمیز اور بامعنی بنا دیتا ہے۔ یہی سازگار ماحول (Enabling Environment) تخلیقی اساتذہ کی ترقی میں مدد کرتا ہے اور ایسے ہی تخلیقی اساتذہ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی تدریس کے ذریعے طلبا میں سوچ بچار (Reflection)اور تنقیدی سوچ (Critical Thinking) کا شعور پیدا کریں اور ہمارے تعلیمی اداروں سے ایسے طلبا نکلیں جن کا مطمح نظر محض ملازمت کا حصول نہ ہو بلکہ وہ معاشرے کے مسائل سے آگاہ ہوں اور اپنی تخلیقی سوچ اور طرزِ عمل سے اپنے معاشرے کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تعلیمی اداروں میں میکانکی مینجمنٹ سے آگے جا کر ایک جمہوری اور شرکت کار (Participatory)فیصلہ سازی کی بنیاد رکھیں جہاں اساتذہ اور طلبا فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ ہوں۔