17 دسمبر2010ء کی صبح دس بجے تھے۔ تیونس کے شہر سیدی بوزید میں طارق بوعزیزی نے پھل بیچنے کا ٹھیلہ ایک سڑک پر لگا رکھا تھا۔ مقامی خاتون سرکاری افسر فائدہ حامدی نے اس سے ٹھیلے کا اجازت نامہ طلب کیا جو دراصل رشوت لینے کا ایک طریقہ تھا۔ طارق نے اسے رشوت دینے سے انکار کردیا جس بر بات بڑھی‘ اور فائدہ حامدی نے اس کا ٹھیلہ بھی الٹ دیا۔ طارق اس رویے کی شکایت لے کرگورنر کے پاس چلا گیا۔ گورنرکے سٹاف نے اس کی شکایت پر فوری طور پر کوئی کارروائی کی نہ اس کے اصرار کے باوجود اسے گورنر سے ملوایا۔26 برس کا یہ نوجوان جذباتی ہوگیا اور گورنر کے دفتر سے باہر نکل کر‘احتجاجاً خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لی۔ قریب موجود لوگوں نے آگ بجھائی اور اسے ہسپتال لے گئے۔ اس کے خود کو جلانے کی خبر سنتے ہی شہر میں حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ چار جنوری 2011 ء کو طارق نے دم توڑ دیا اور احتجاج کا دائرہ پورے ملک میں پھیل گیا۔ اس احتجاج نے ملک کے صدرزین العابدین کا رخ کرلیا اور صرف دس دن بعد مردِ آہن کہلوانے والا صدر ملک چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ اس کے بعد مصر‘ لیبیا‘ شام اوردیگرعرب ملکوں میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ لیبیا اور شام مکمل طور پر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگئے۔ ایک معمولی سا واقعہ کس طرح بہت کچھ بدل دیتا ہے اس کا علمی جواب ایڈورڈ نارٹن لورنز نے 1969 میں پیش کیاتھا۔
ایڈورڈ نارٹن لورنز ریاضی کا ایک ماہر تھا جو دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکی فوج کے ساتھ ریاضی کے اصولوں کی مدد سے موسم کی پیش گوئی کیا کرتا تھا۔ فوج سے نکلنے کے بعد بھی وہ ایک امریکی یونیورسٹی میں موسمیات پر تحقیق کرتا رہا۔ موسم سے جڑے اعدادو شمار کے گورکھ دھندے میں سے اس نے ایک جدید نظریہ دریافت کیا جسے ریاضی کی دنیا میں نظریۂ انتشار (Chaos Theory) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق انسانی زندگی میں انتشار‘ افرا تفری ‘حادثے حتی کہ سیاسی واقعات بھی دراصل کسی اتنی چھوٹی وجہ سے ہوتے ہیں جسے بروقت بھانپ لیا جائے تو بڑے بڑے طوفانوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔آپ کسی بھی حادثے یا کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو الٹا سوچنا شروع کردیں۔ آپ کو آخرمیں یہ علم ہو جائے گا کہ اصل میں غلطی کی ابتدا کہاں سے ہوئی تھی۔
اب اس نظریے کو ذرا چار دن پہلے ملک بھر میں ہونے والے بجلی کے بریک ڈاؤن پرلگا کر دیکھیے۔ ہوا کچھ یوں کہ سندھ میں گڈو پاور پلانٹ سے بلوچستان کی طرف جانے والی بجلی کی تاروں میں خرابی ہوئی۔ اس خرابی کی وجہ سے گڈو پاورپلانٹ بند ہوگیا۔ اس وقت ملک بھر میں بجلی کی کھپت گیارہ ہزار میگاواٹ کے قریب تھی۔ جب گڈو پاورپلانٹ بند ہوا تو ایک ہزار میگا واٹ کی فوری کمی واقع ہوگئی۔ ایک ہزار میگا واٹ کا یہ بوجھ یکا یک باقی تمام پاور پلانٹس پر منتقل ہوا۔ یہ پلانٹس گنجائش سے زیادہ بجلی پیدا نہیں کرپائے اور یکلخت بند ہوگئے۔ بلوچستان کی طرف جانے والے تاروں کی خرابی کے صرف تین سیکنڈ کے اندراندر پورا ملک اندھیرے میں ڈوب گیا۔ بجلی کے ترسیلی نظام کے مطابق ایک پاور پلانٹ سے نکلنے والے تمام تاروں کے سرکٹ بریکرز الگ الگ ہوتے ہیں یعنی کسی ایک طرف جانے والے تاروں میں کوئی خرابی ہو تو صرف اسی طرف کی بجلی بند ہو۔ اس کے بعد کا نظام یوں ہے کہ اگرپہلے سرکٹ بریکرز اپنا کام نہ کرسکیں تو پورا پلانٹ بند ہوجاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ انتظام ہے کہ پلانٹ بند ہونے سے بجلی کی جو کمی ہوگی اس کے نتیجے میں چند مخصوص علاقوں میں فوری طور پر بجلی بند ہوجائے لیکن باقی ملک چلتا رہے گا۔ اس کے بعداگلا بندوبست یہ ہے کہ اگر پاکستان کے جنوبی حصے میں کوئی خرابی ہوگئی ہو تو اس کا اثر شمال پر نہ ہو بلکہ جنوب کے علاقے ہی بند ہوں۔ یہ بندوبست 2015 ء میں نصیرآباد میں بجلی کے چار ٹاور گرائے جانے کے بعد کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت بھی ان چار ٹاورز کی وجہ سے پورا ملک بند ہوگیا تھا۔
اب ان معاملات کوالٹا چلائیں تو سب سے پہلا واقعہ ہے بلوچستان جانے والے تاروں میں خرابی۔ ان تاروں کو درست حالت میں رکھنے کے لیے ان کی مسلسل دیکھ بھال کی جاتی ہے‘ خاص طورپر وہ حصے جن کے ذریعے تار کھمبے سے منسلک ہوتے ہیں انہیں اگست یا ستمبر میں اس لیے کھمبوں پر چڑھ کر دھویا جاتا ہے تاکہ ان پر جمی گرد شدید سردی اور دھند کے دنوں میں گیلی ہوکریہاں لگے کنکشنز کو متاثر نہ کرے۔ سوال یہ ہے کہ جس نے کھمبوں پر لگے یہ حصے دھونے تھے اس نے دھوئے یا نہیں؟ اوراگر یہ کام بروقت نہ ہوا ہو تو پھر اسے کون دیکھتا ہے؟ دوسرا واقعہ ہے گڈو پاورپلانٹ میں لگے سرکٹ بریکر کا جو تاروں کی خرابی کی صورت میں آف نہیں ہوئے۔ یہ سرکٹ بریکر اس طرح نہیں ہوتے جیسے گھروں میں لگائے جاتے ہیں بلکہ پیچیدہ مشین کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی باقاعدہ دیکھ بھال کے لیے الگ عملہ متعین ہوتا ہے جو ان کا ایک ایک فنکشن متعین وقفے سے چیک کرتا رہتا ہے تاکہ جب وقت آئے تو یہ بروقت آف ہوجائیں۔ اس بارے میں یہ سوال پوچھنا جائز ہے کہ یہ آف کیوں نہیں ہوئے؟
تیسرا واقعہ ہے گڈو پاورپلانٹ بند ہونے کی صورت میں مخصوص علاقوں کی بجائے سارے ملک میں بجلی کیوں بند ہوئی۔ نظام یہ ہے کہ دیہات یا ایسے علاقے جہاں بجلی کی اچانک بندش سے کم نقصان ہو‘ ان کا تعین پہلے سے کرلیا جاتا ہے۔ ان علاقوں کو جانے والی بجلی مخصوص آلات سے گزر کر جاتی ہے تاکہ جیسے ہی نیشنل گرڈ میں بجلی کم ہویہ علاقے خود ہی بند ہوجائیں۔ جو آلات بوقت ضرورت ان علاقوں میں بجلی بند کرتے ہیں انہیں ریلے کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کافی پیچیدہ مشینیں ہیں جن کو مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام ہوا یا نہیں اور یہ قیمتی ریلے اپنا کام کیوں نہیں کرپائے؟ یہ سارے سوال ہمیں نظام سے ہی پوچھنے ہیں۔ اب ہم نظریۂ انتشار کی روشنی میں نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ پورے ملک میں بجلی کا بریک ڈاؤن دراصل اس شخص کی وجہ سے ہوا جس کے ذمے گڈوسے بلوچستان جانے والی تاروں کی دھلائی تھی۔ دوسرا ذمہ دار وہ شخص ہے جس کے ذمہ سرکٹ بریکرز کی صفائی ستھرائی تھی۔ یہ دونوں معمولی درجے کے ملازم ہوں گے جن کا کام تو اہم ہے لیکن ان پرذمہ داری نہیں ہے۔ ظاہر ہے پورے ملک میں بجلی بحال رکھنے کی ذمہ داری ان بیچاروں پر ڈالی بھی نہیں جاسکتی۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ اس نظام کی حفاظت کے ذمہ دار کون تھے؟ تو تاروں کی دھلائی کا ذمہ ترسیلی نظام کی ذمہ دارنیشنل ٹرانسمشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی تھی اور سرکٹ بریکرز کا دھیان رکھنا تھا گڈو پاور پلانٹ کے لوگوں نے۔
جب تیونس میں طارق بوعزیزی کی موت کے بعد تفتیش ہوئی تو فائدہ حامدی بے قصور قرار پائی گئی لیکن اس گورنر سے کسی نے کچھ نہیں پوچھا جس کے پاس طارق شکایت لے کر گیا تھا۔ نتیجہ یہ کہ تیونس میں انقلاب آگیا‘ کیونکہ نظام نے طاقت فائدہ کو نہیں گورنر کو دے رکھی تھی۔ گورنرہی وہ سرکٹ بریکر تھا جس نے طارق بوعزیزی کے غصے کو شارٹ سرکٹ ہونے سے بچانا تھا۔ اس سرکٹ بریکر کی دیکھ بھال تیونس کے صدر کے پاس تھی جس نے اپنا کام ٹھیک نہیں کیا اور اسے جانا پڑا‘اسی طرح پاکستان میں بجلی کے بریک ڈاؤن کا ملبہ اگرتاریں دھونے والے یا سرکٹ بریکرز کی صفائی کرنے والوں پر ڈالنا ہے تو بسم اللہ ‘ ورنہ اصل میں کچھ پتا چلانا ہے تو پھر پہلے سوال گدو پلانٹ اور این ٹی ڈی سی کے سربراہ سے ہوں گے کیونکہ نظام نے طاقت ان کے سپرد کی تھی۔ گڈو پاور پلانٹ کے سات نچلے درجے کے اہلکاروں کو معطل کردینا‘ اصل ذمہ داروں کو بچانے کی ترکیب کے سواکچھ نہیں۔ نیچے والوں سے کوئی سوال کرنے سے پہلے بڑوں کو عہدوں سے ہٹانا ہوگا۔ اگر یہ نہیں کیا جائے گا توساری تفتیش بس ایک تماشا ہوگی۔ اور ایسے تماشے ہم نے پہلے بھی دیکھ رکھے ہیں۔