عالمی آبادی جس رخ پر بڑھ رہی ہے اس کا اقوام متحدہ کے زیراہتمام گزشتہ برس جواز سر نو تفصیلی جائزہ لیا گیا اس بارے میں حالیہ جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ بارہ برسوں میں دنیا کی کل آبادی میں لگ بھگ سوکروڑ نفوس کا اضافہ ہوجائے گا اور یہ تمام کا تمام اضافہ ترقی پذیر ملکوں ہی میں ہوگا۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے جو ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی آبادی آج بھی ایک سو تیس کروڑ ہے اور بارہ برس بعد بھی اتنی ہی رہے گی اور 2050ء میں بھی اتنی ہی ہوگی۔ اس کے برعکس جوترقی پذیر ممالک ہیں ان کی آبادی میں 2050ء تک مزید 240کروڑ افراد کا اضافہ متوقع ہے۔ گویا ترقی یافتہ ملک اگر محض دوتین فیصد سالانہ کے حساب سے بھی ترقی کرتے رہیں تو آپ اندازہ کرلیں کہ آنے والے زمانوں میں ان کی معیشتیں وسیع تر ہی ہوتی جائیں گی لیکن ترقی پذیر دنیا، جس میں ہمارا ملک بھی شامل ہے، اگر اپنے معاشی حالات بہتر کرنا چاہے تو اسے لازماً تیز رفتار ترقی کرنا ہوگی۔ تیز رفتار ترقی کرنا ممکن تو ہے مگر چونکہ مسلسل تیز رفتار ترقی کرنا محال ہوتا ہے لہٰذا ترقی یافتہ ملکوں اور ترقی پذیر ملکوں کا فرق مستقبل میں کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں اور ترقی پذیر ملکوں کی معیشتوں میں بڑھتا ہوا یہ فرق ہی پوری دنیا میں اصل فساد کی جڑ ہے۔ مغربی دنیا کے ملکوں کے باہمی اختلافات ہوں گے مگر ترقی یافتہ ملکوں کا یہ گروپ اس بات پر متحد ہے کہ یہ فرق کم نہیں ہونے دینا۔ اس گروپ کے چھوٹے چھوٹے ملکوں کو ہردم یہ تسلی رہتی ہے کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسی طاقتوں کی موجودگی میں کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا لہٰذا دفاع پر ان ملکوں کا خرچہ برائے نام ہی رہتا ہے اور ان ملکوں کی قومی آمدنی کھل کر ترقیاتی کاموں پر صرف ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ آبادی میں اضافے کی شرح ان ملکوں میں صفر ہی سمجھیں جس سے معیشت پر آبادی میں اضافے کا کوئی دبائو بھی نہیں رہتا۔ اس کے برعکس ترقی پذیر دنیا میں زیادہ تر نفسا نفسی کا عالم ہے۔ پرانی دشمنیاں دبنے کا نام نہیں لیتیں اور ملکوں کے باہمی تنازعات نہ حل ہوتے ہیں اور نہ ہی حل ہونے دیئے جاتے ہیں۔ جن ملکوں نے یہ بات سمجھ لی اور ایسی پالیسی اپنائی کہ لڑنا نہیں بھلے کچھ ہوجائے وہ تو ترقی کرتے کرتے مغربی دنیا کے ممالک کے برابر آگئے بلکہ آگے بھی نکل گئے جیسے کہ جاپان اور کچھ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر مسلسل تیز رفتارترقی کررہے ہیں جیسے کہ چین۔ مگر ہمارے جیسے ملک ابھی ماضی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر حقیقت پسندی سے پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پہلی ضرورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہاں آبادی میں اضافے کی شرح کم ہونی چاہیے۔ لیکن حقیقت پسندی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہمارے ملک میں یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں اکثریت خاندانی منصوبہ بندی کو اپنے مذہب کے خلاف سمجھتی ہے۔ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش سے ہمارا موازنہ نہیں ہوسکتا۔ ان ملکوں میں علماء کی اکثریت کسی نہ کسی طور خاندانی منصوبہ بندی کو جائز سمجھتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ ہم اپنی ترقی کی رفتار کو مسلسل تیز رکھیں جو صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم مشرق ومغرب میں اپنے تمام تنازعات حل کرکے ملک کے اندر ایک یگانگت کی فضا قائم کرلیں۔ اب آپ خود سوچیں کہ جن حالات سے ہم دوچار ہیں کیا ان حالات میں ایسا ہونا ممکن ہے ؟ اس کا جواب اکثر ذہنوں میں نفی ہی میں آئے گا لیکن ہم لوگ خوف کے مارے اس کا اقرار کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ہماری قوم اپنی تاریخ کے سب سے بڑے امتحان سے گزررہی ہے کیا یہ بات ہرایک پر واضح نہیں ہے۔ امریکہ کا سابق ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ آرمٹیج (Richard Armitage)جب اپنے ایک حالیہ انٹرویو یہ کہتا ہے کہ آج سے پچیس برس بعد اس کو دنیا کے نقشے پر افغانستان تو دکھائی دیتا ہے مگر پاکستان کے بارے میں وہ یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکتا، تو اس کے پس منظر میں ہماری یہی صورت حال اس سابق امریکی عہدیدار کے ذہن میں ہے۔ ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ جب کوئی آزمائش درپیش ہوتی ہے تو ہمارے قائدین اس سے نکلنے کی کوئی سبیل کرنے کے بجائے عام طورپر اس آزمائش کی ذمہ داری اپنے دشمنوں پر ڈال کر اپنی بے بسی کا اظہار کرنے کے سوا کچھ نہیں کرپاتے۔ بعض چیزیں جو عام آدمی کو روزروشن کی طرح واضح نظر آتی ہیں حکمران ان سے متعلق ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے ان کی بینائی رخصت ہوچکی ہے۔ ہمارے ہاں کس کو معلوم نہیں ہے کہ تمام مسائل نے بھارت کے ساتھ ہمارے تعلق سے جنم لیا ہے۔ بھارت کا شروع دن سے پاکستان کے ساتھ جورویہ رہا ہے اس کو اس شعر کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ ع اپنی تکمیل کررہا ہوں میں ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں اس میں لفظ ’’پیار‘‘ کو بھارت کی پاکستان دشمنی سمجھ کر دیکھیے کہ بھارت تو جس خطے کو پاکستان کہتے ہیں اس کے بغیر اپنے آپ کو نامکمل سمجھتا ہے۔ بھارتی قیادت بیانات کچھ دیتی رہے، بھلے مینار پاکستان پر آکر ہمارے ملک کی حقیقت کو تسلیم کرنے کی بات کرے مگر ان کا عمل ہمیں شروع ہی سے یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ ہمارے وجود کے قائل نہیں ہیں۔ وہ تو اپنی ’’تکمیل‘‘ چاہتے ہیں۔ اس صورتحال میں ہماری طویل المیعاد پالیسی یہ ہونا چاہیے کہ ہم بھارت کے ساتھ ایسے تعلق کی طرف بڑھیں جس میں نہ دوستی کا شائبہ ہو اور نہ دشمنی کا۔ بھارت دوستی کرکے بھی اپنی ’’تکمیل‘‘ کی طرف بڑھتا ہے اور دشمنی کرکے بھی۔ ادھر ہماری سیاسی قیادت بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہاں رہتی ہے جبکہ فوجی قیادت کو بھارت دشمنی کا راستہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ دونوں راستے بھارت کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ کاش ہماری ساری قیادت متفق ہوکر ایسی حکمت عملی بنائے کہ ہم آہستہ آہستہ برصغیر میں بھارت کے بچھائے اس جال سے باہر آنا شروع ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو آہستہ آہستہ ہمارے مسائل کم ہونا شروع ہوجائیں گے۔ امریکہ بھی ہمیں برا لگنا بند ہوجائے گا۔ معیشت میں بھی بہتری آنے لگے گی اور طالبان پر بھی ہم قابو پا نے کے قابل ہوجائیں گے۔ رچرڈ آرمٹیج کے بیان کی پھر وہی حیثیت ہو جائے گی جو اس بیان کی تھی کہ عنقریب امریکی ریاستیں اپنی اپنی علیحدگی کا اعلان کردیں گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved