وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں کابینہ کا اجلاس ویسے تو معمول کی کارروائی ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی اجلاس کی کارروائی سے چند نکات میڈیا کو لیک کیے جاتے ہیں تاکہ عوام میں تاثر بنا رہے کہ سربراہِ حکومت کس حد تک اصول پسند اور کھرے ہیں۔ ایک روز پہلے ہونے والے اجلاس کے بعد بھی جو خبر میڈیا کو خصوصی طور پر دی گئی اس کے مطابق‘ وزیراعظم نے کابینہ ارکان کو سختی سے تنبیہ کی ہے کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر بات کریں نہ ہی کوئی ایکشن لیں، جس نے ایسا کرنا ہے وہ پہلے استعفیٰ دے اور پھر اپنی مرضی کرے۔ اس بات پر کپتان کے دیوانے تو اَش اَش کر اٹھے ہوں گے، لیکن ہم جیسے قلم مزدور، کالم کا پیٹ بھرنے کی خاطر ٹی وی سکرینوں پر چلنے والے‘ فیڈ کئے گئے ان ٹکرز کو الگ زاویے سے دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ یکے بعد دیگرے سیاست کے میدان میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے ملا کر ایک منظرنامہ تشکیل پاتا نظر آتا ہے۔
وزیراعظم نے کابینہ ارکان کی سرزنش ملک میں ہونے والے دو اہم واقعات کے بعد کی ہے۔ پہلا سانحہ مچھ ہے۔ اس پر اپوزیشن نے جس طرح کپتان کو ایک بیان پر آڑے ہاتھوں لیا اور ان کے تمام کھلاڑیوں کو دیوار سے لگا دیا، ایسے میں کچھ کھلاڑی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے اور عوامی رائے کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آئے۔ دوسرا معاملہ ملک گیر بجلی بریک ڈاؤن کا ہے۔ اس کو بھی جس طرح اناڑی ٹیم نے ہینڈل کیا، اس سے بہت سے سوال کھڑے ہوئے۔ ایک اور ایشو، (اور میرے نزدیک سب سے اہم) سانحہ مچھ کے بعد حکومتی سطح پر ایک پیج پر ہونے کا جو تاثر برقرار رکھنے کی کوشش ہو رہی تھی‘ وہ ناکامی سے دوچار ہوئی۔ سپیکر قومی اسمبلی نے دو بڑوں کے اکٹھے کوئٹہ آنے کا اعلان کیا، وزیر داخلہ شیخ رشید چکلالہ ایئربیس پر دونوں بڑوں کے استقبال کے لیے آدھی رات کو انتظار کرتے رہے لیکن انہیں ناکام ہی واپس گھر جانا پڑا، اور پھر صبح اکٹھے آمد کا اعلان بھی درست ثابت نہ ہوا۔
پی ڈی ایم پر الزام ہے کہ وہ عسکری اداروں کو سیاست میں گھسیٹ رہی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی پریس بریفنگ کے بعد جب اُن سے چند سیاسی سوال ہوئے تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار ہے اور نہ ہی اسے سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی جائے، کسی سے کوئی بیک ڈور رابطہ نہیں، ہمیں اس معاملے سے دور رکھا جائے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے راولپنڈی آنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی؛ تاہم اگر وہ آئے تو ہم ان کو چائے‘ پانی پلائیں گے، ان کی اچھی دیکھ بھال کریں گے۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے چائے پانی کی پیشکش کا مذاق مذاق میں جواب دیا۔ پیشکش اور جواب سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنے رہے اور ہر کسی نے اس مکالمے کو اپنی مرضی کے معنی پہنانے کی کوشش کی؛ تاہم میرا ذاتی خیال ہے کہ عسکری قیادت ادارے کو سیاسی الزام تراشی سے بچائے رکھنے کی پالیسی کو زیادہ واضح انداز میں اپنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تبدیلی ٹیم جس انداز میں ایک صفحے پر ہونے کی بات کرتی تھی اس سے اس کی سیاسی سوجھ بوجھ اور دانشمندی پر بڑا سوالیہ نشان اٹھ رہا تھا۔ فوجی ترجمان کی جانب سے ہلکے پھلکے انداز میں چائے کی پیشکش کرکے کوئی ذاتی جذبات ظاہر نہ کرنا دانائی کی بات ہے لیکن اناڑیوں کی ٹیم اب بھی من مرضی کی تشریح کرکے مزید نقصان کی کوشش میں ہے۔
ملکی سیاست میں ایک اور اہم پیش رفت پیپلز پارٹی کی قیادت کو نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری کے لیے دعوت نامہ موصول ہونا ہے۔ جو بائیڈن کو پاکستان دوست اقدامات پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ہلالِ پاکستان سے نوازا تھا، جو بائیڈن کے ساتھ پی پی قیادت کے دوستانہ مراسم ہیں لیکن اپوزیشن جماعت کی قیادت کو دعوت نامہ بھجوایا جانا کسی بھی نومنتخب صدر کی طرف سے سوچا سمجھا اقدام اور کسی حد تک پیغام بھی ہوتا ہے۔ اس دعوت نامے میں بھی سوچ رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہو سکتی ہیں۔
نئے سال کے آغاز پر علم نجوم سے وابستہ ماہرین نے بھی کچھ سیاسی پیش گوئیاں کیں، ان پیش گوئیوں کو کئی صحافی دوست دلچسپی سے زیر بحث لاتے رہے؛ اگرچہ ذاتی طور پر میں علم نجوم کا قائل نہیں لیکن کچھ ستارہ شناسوں کے دعوے چونکا دینے والے اور موجودہ سیاسی حالات میں بڑی تبدیلی کے اشارے دیتے نظر آتے ہیں، جو قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ علم نجوم میں ذاتی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے جو کچھ لکھا اور سنا ہوا سمجھ پایا ہوں‘ اس کے مطابق 20 جنوری 2021ء کو مریخ، برج ثور میں پہلے سے موجود یورینس کے بہت قریب آ جائے گا۔ اس ملاپ کی بدولت کوئی ''انہونی‘‘ ہو گی جس کا اثر آئندہ 20 برسوں تک جاری رہے گا۔ امریکا میں نائن الیون ہوا تو ان دنوں ستاروں کی تقریباً ویسی ہی صورتِ حال تھی۔ 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی مداخلت ایسے ہی 'زائچے‘ کی وجہ سے رونما ہوئی بتائی جا رہی ہے۔ نجومیوں کی اکثریت اصرار کر رہی ہے کہ 20 جنوری 2021ء کے روز یا اس سے چند دن قبل یا بعد نائن الیون یا افغانستان میں روسی افواج کے در آنے جیسا کوئی غیر معمولی واقعہ ہوگا جو تمام عالم کو ہلا کر رکھ دے گا۔
اگر 20 جنوری کی تاریخ کو دیکھا جائے تو نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کا وائٹ ہاؤس میں یہ پہلا دن ہو گا۔ انتخابی شکست کو فتح میں بدلنے یا الیکشن نتائج کو روکنے کی خواہش میں جنون کی حد تک مبتلا صدر ٹرمپ 20 جنوری سے پہلے جنگ چھیڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی سیاسی قیادت اس خدشے میں مبتلا ہے اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل مارک ملی سے سپیکر ایوان نمائندگان نینسی پلوسی فون پر رابطہ کرکے کسی بھی جنگی حکم کو روکنے پر بات کر چکی ہیں لیکن خدشات برقرار ہیں۔ دوسری طرف وزیر خارجہ مائیک پومپیو ایران کے خلاف نئی چارج شیٹ پیش کر چکے ہیں اور القاعدہ کے ساتھ تعلقات اور القاعدہ قیادت کو پناہ دینے کے الزامات باضابطہ عائد ہو چکے ہیں، اس اعتبار سے 20 جنوری کو نجوم کی نظر سے دیکھنا اہمیت کا حامل ہے۔
ماہرین نجوم نے ایک اور اہم بات یہ بتائی کہ 6 جنوری سے 20 جنوری 2021ء تک کے ایام نہایت کڑے ہیں۔ کسی بھی برج سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے اس کے اثرات سے بچنا ناممکن بتایا جا رہا ہے۔ نجومیوں کا مشورہ ہے کہ 6 اور 20 جنوری 2021ء کے درمیانی ایام میں نہایت محتاط رہا جائے۔ کچھ ماہرین نجوم نے پاکستان کی موجودہ حکومت کے لیے بھی یہ دو ہفتے بدشگون بتائے ہیں۔ سیاست کی کڑہی میں ابال کے آثار پہلے سے موجود ہے اور اگر ماہرینِ نجوم پر اعتبار کر لیا جائے تو کوئی بھی لمحہ اگلے چند دنوں میں تبدیلی کا لمحہ بن سکتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کوئی بڑا واقعہ ملکی حالات پر بھی اثرانداز ہو گا جبکہ ملکی اندرونی حالات و سیاست میں بھی کچھ نہ کچھ بدلنے کو ہے۔ یاد رہے کہ یہ میرا کوئی دعویٰ نہیں، بلکہ بطور ایک سیاسی مبصر صرف ایک اندازہ ہے جسے درست ثابت کرنے کے لیے کپتان کی ٹیم خود زور لگا رہی ہے!