موجودہ حکومت جب برسرِ اقتدار آئی تو بظاہر سب سے مشکل کام سرکاری افسران کی صحیح اور مناسب جگہ پر تعیناتی کا مرحلہ تھا جو آج تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ حکمران جماعت نے سابق دورِ حکومت میں اہم اسامیوں پر تعینات بیورو کریٹس کو اپوزیشن کے کھاتے میں ڈال دیا اور خدشہ ظاہرکیا کہ ان افسران کے سابق حکمرانوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جس کے باعث وہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؛ حالانکہ اس سوچ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ یہ بھی اسی ناتجربہ کاری کا ایک حصہ تھی جس کا ذکر وزیراعظم عمران خان کئی بار کر چکے ہیں۔ صرف خدشات کی بنیاد پر بیورو کریسی میں بار بار وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ نے ملک میں ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ سرکاری افسران نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ سیاستدانوں کی جانب سے سینئر افسران کے بارے میں بیانات نے مایوسی پھیلائی، پھر بعض سینئر بیورو کریٹس کی کچھ معاملات پر گرفتاریاں عمل میں آئیں تو اس سے بیورو کریسی میں مزید عدم اعتماد پھیلا اور تقریباً ایک برس تک سرکاری دفاتر میں روٹین کے کام بھی ٹھپ ہو کر رہ گئے۔ کرپشن کے الزامات، مقدمات اور گرفتاریوں کے خوف نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ملک بھر میں تعمیر و ترقی کا پہیہ رک گیا۔ اس کی واضح مثال رواں مالی سال کا ترقیاتی بجٹ ہے جس میں کوئی خاص نیا ترقیاتی منصوبہ شامل نہیں کیا گیا کیونکہ افسران پر یہ خوف طاری تھا کہ اگر وہ کوئی ایسا منصوبہ یا سکیم شروع کریں گے جس میں مالی معاملات شامل ہوں گے تو انہیں خواہ مخواہ مختلف انکوائریوں کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے پریشانی بھی ہو گی اور بدنامی بھی گلے پڑے گی، اس لیے انہوں نے کوئی نیا منصوبہ بنایا ہی نہیں۔ حکومت تقریباً دو برس تک ایسے افسران تلاش کرتی رہی جو قابل اور ایماندار ہوں اور ان کا ماضی کے حکمرانوں سے کوئی تعلق واسطہ بھی نہ رہا ہو۔ اب قابل اور ایماندار افسران تو تلاش کیے جا سکتے ہیں لیکن اگر بیورو کریسی کا ماضی کی حکومتوں سے محض اس بنیاد پر تعلق جوڑا جائے کہ وہ سابق ادوار میں اہم پوسٹوں پر تعینات رہے ہیں تو شاید یہ بات مناسب نہیں، کیونکہ جو بھی سرکاری افسر ہوتا ہے اس نے دورانِ ملازمت کسی نہ کسی پوسٹ پر تو تعینات ہونا ہی ہوتا ہے۔ سرکاری افسران و ملازمین کی مدتِ ملازمت تو تیس‘ پینتیس برس تک ہوتی ہے جبکہ ایک سیاسی حکومت زیادہ سے زیادہ پانچ سال کے لیے منتخب ہوکر آتی ہے لہٰذا یہ تو ممکن نہیں کہ جب بھی حکومت تبدیل ہو تو ساتھ ہی تمام سرکاری افسران و عملہ بھی گھر بھیج دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ بیورو کریسی اور سرکاری ملازمین کی اکثریت وہی ہے جو گزشتہ دو‘ تین حکومتوں کے ساتھ کام کر چکی ہے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ ان سے کیسے کام لیتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب پاکستان سپورٹس بورڈ میں عارضی بنیاد پر تعینات ایک سینئر بیورو کریٹ کو گرفتار کیا گیا تھا تو اس کے بعد طویل عرصہ تک اس قومی ادارے میں کام ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا کیونکہ افسران میں یہ خوف پیدا ہو گیا تھا کہ اگر وہ کام کریں گے تو ان پر الزامات لگیں گے اور انہیں خواہ مخواہ پریشانی و بدنامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی سوچ کے باعث افسران نے کچھ نہ کرنے میں ہی عافیت سمجھی کہ کام نہ کرنے پر بھی تنخواہ تو ملتی رہے گی اور کوئی الزام بھی عائد نہیں ہو گا۔ یہ بات افسران و ملازمین کے لئے تو زیادہ خسارے والی نہیں تھی لیکن وہ سارے کام رک گئے تھے جن کے لیے انہیں سرکاری خزانے سے تنخواہ و دیگر بھاری مراعات دی جا رہی تھیں اور اس سارے قضیے میں نقصان عوام کا ہوا جن کے کام التوا کا شکار ہو گئے۔
حقیقت یہی ہے کہ افسران کسی سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ حکومت وقت کے تابع ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ نواز شریف کے پچھلے دور میں اہم عہدوں پر تعینات سینئر افسران نے پرویز مشرف کے دور میں نواز لیگ کے سیاستدانوں کا سارا کچا چٹھا کھول کر سامنے رکھ دیا۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو وہی سرکاری افسران تھے جنہوں نے ق لیگ کے خلاف انکوائریوں کے ڈھیر لگا دیے۔ نوازشریف دوبارہ اقتدار میں آئے تو یہ افسران دوبارہ ہاتھ باندھ کر ادب کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور اب تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے تو اسی بیورو کریسی نے ن لیگ کی ساری کمزوریاں عیاں کر دیں۔ یقینا کچھ افسران سابق حکمرانوں کے ہمدرد بھی ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی تعداد کتنی ہے؟ یہ بات سب جانتے ہیں کہ جو بھی وزیر یا حکومتی عہدیدار ہوتا ہے، سرکاری افسران اسے یہی باور کراتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران اُن جیسا قابل، ذہین، محب وطن اور عوام دوست سیاستدان نہیں دیکھا، اسے یہی بتایا جاتا ہے کہ ماضی کے وزیر صاحب تو کچھ بھی نہیں کرتے تھے، اب آپ آ گئے ہیں تو دودھ کی نہریں بہیں گی اور محکمہ آسمان پر پہنچ جائے گا۔ غرض جو بھی حاکمِ وقت ہوتا ہے، سرکاری افسران اسی کو اپنی مکمل حمایت اور تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت نے اپنے دو سالہ تجربات کے بعد بیورو کریسی پر اعتماد کرنا شروع کیا اور وزیراعظم نے واضح طور پر کہا کہ سرکاری افسران بلا خوف ایمانداری سے اپنا کام کریں، ان کے کاموں میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں کی جائے گی، اس کے بعد بار بار کی اکھاڑ پچھاڑ کے سلسلے میں کسی حد تک کمی آئی لیکن بدقسمتی سے صورتحال ابھی تک مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہو سکی ہے۔ اڑھائی برسوں کے دوران پنجاب میں چیف سیکرٹری اورآئی جی پولیس جیسے اہم ترین عہدوں پر تعینات سینئر افسران کے تبادلوں نے دیگر ماتحت افسران کے ذہنوں سے انجانا خوف ختم نہیں ہونے دیا۔ سرکاری افسران پر کرپشن کے الزامات بھی اسی دور میں زیادہ لگے ہیں جس سے بیوروکریسی میں مایوسی پھیلی ہے۔ اب عدالتِ عظمیٰ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں کہا ہے کہ ''بیورو کریٹ بھی انسان ہوتا ہے، اس کی ہر غلطی ضروری نہیں کرپشن ہی ہو، احتساب میں یقینی بنایا جائے کہ محض فیصلہ سازی پر بیورو کریٹس کو تضحیک کا سامنا نہ کرنا پڑے، اختیار کے غلط استعمال اور کرپشن کے درمیان تفریق کرنا بھی احتسابی اداروں کی ذمہ داری ہے‘‘۔ راقم الحروف نے ایک سال قبل اپنے ایک کالم میں بیورو کریسی پر اعتماد کے حوالے سے لکھا تھا کہ 'تبدیلی تو آ گئی لیکن ابھی تک اس کے اثرات عام آدمی پر منفی ہی پڑ رہے ہیں کچھ حامی تو اب تھک چکے ہیں لیکن اب بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد کپتان پر یقین رکھتی ہے کہ ان شاء اللہ نیا پاکستان ضرور بنے گا اور ان کے خواب پورے ہوں گے۔ ان کا خیال ہے کہ برسوں کے مسائل حل کرنے کیلئے کچھ وقت لگے گا، راتوں رات حالات کو سدھارنا آسان نہیں۔ وزیراعظم نے انتخابی میدان کیلئے روایتی جماعتوں کے ساتھ سالہا سال سے چلنے والے تجربہ کار سیاستدانوں پر تو بھروسہ کر لیا اور یہ تجربہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا لیکن ابھی تک بیورو کریسی پر ان کا مکمل اعتماد بحال نہیں ہو سکا۔
سرکاری افسران کی کسی ایک پوسٹ پر تعیناتی عمومی طور پر تین سال کیلئے ہوتی ہے لیکن موجودہ حکومت میں چند ماہ بعد ہی تبادلے کی بازگشت بلند ہونے لگتی ہے۔عوامی مسائل چند ماہ سے حل ہونا شروع ہوئے تھے کہ راولپنڈی میں اڑھائی برسوں میں پانچویں ڈپٹی کمشنر کے تبادلے کی افواہیں زیر گردش ہیں اس سے نہ صرف بیورو کریسی مایوسی بڑھ رہی ہے بلکہ عوامی فلاح و بہبود کے جاری کام بھی متاثر ہو سکتے ہیں، بے جا سیاسی مداخلت عوام کے ساتھ حکمران جماعت کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے لہٰذا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزادر کو چاہئے کہ وہ بیورو کرسی کو اعتماد دیں اور سرکاری افسران کا خوف ختم کریں، یہی بہتر ہوگا۔ سابق حکومت کے کئی بااعتماد افسران آج کل وزیراعلیٰ پنجاب کی ٹیم کا اہم حصہ ہیں اور بڑی محنت و ایمانداری سے اپنا کام کر رہے ہیں، انہی کی مثال سامنے رکھ کر بیورو کریسی کا خوف ختم کیا جائے اور ان کے سر پر ہر وقت تبادلوں کی لٹکتی تلوار ہٹا کر تین سال سے قبل غیر ضروری پوسٹنگ و ٹرانسفر کی پالیسی تبدیل کی جائے تاکہ ترقیاتی منصوبے آگے بڑھ سکیں اور ملک میں حقیقی تبدیلی کی راہ ہموار ہو سکے۔